"KDC" (space) message & send to 7575

خطرات اور اندیشے

1973ء کا آئین یورپ کے اس نظام پر مبنی ہے جسے 1956ء میں جنرل ڈیگال نے مسترد کر کے فرانس کو ایک نیا آئین اور نیا نظام دیا تھا۔ ملک میںجس انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں وہ فرانس کے 1789ء کے نہیں‘ بلکہ 1956ء کے انقلاب کی تقلید کر کے لایا جاسکتا ہے۔ ہمارے سامنے دورِ جدید کا کوئی قابلِ توجہ اور قابلِ تقلید رول ماڈل ہے تو وہ امریکی جمہوریت کا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے مشیر غلط مشوروں اور غلط فیصلوں سے ڈاکٹر طاہر القادری کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر رہے ہیں۔ قادری صاحب نوازشریف کے گرد سیاسی جال بچھا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت زیادہ سے زیادہ غلطیاں کرے۔ وزیراعظم نوازشریف کا سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز 190ارکان قومی اسمبلی ہیں؛ تاہم ماڈل ٹائون سانحہ نے ان کے اخلاقی جواز کو شدید متاثر کیا ہے۔ اب سانحہ ماڈل ٹائون میں پولیس کے ظلم و ستم اور گلوبٹ کی تخریب کاری کے مظاہرے نے اقتدار کی نہیں نظام کی تبدیلی کا جواز پیدا کردیا ہے کہ آئین کی دفعات 63-62 کا عملی نفاذ اور جمہوریت کے فروغ کے لیے موروثیت کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے۔ حکمران طبقے کی قرض خوری، ٹیکس چوری اور عوام کی حالت زار، یہ ایسے مسائل ہیں کہ ان پر تنقید سے کسی جمہوریت پسند کو کوئی اختلاف نہیں۔ اس وقت عمران خان فیکٹر پاکستان کی سیاست میں زور پکڑتا جارہا ہے۔ شریف خاندان کے ترقیاتی پروگرام بیشتر لوگوں کی نظر میں مشکوک ہو رہے ہیں۔ عوام کو بہلانا اب آسان نہیں رہا۔ شریف خاندان‘ اقتدار میں آکر عوام سے دور ہو جاتا ہے۔ 
وزیراعظم نوازشریف کرسی کے دو پایوں پر توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی موجودہ حکمت عملی میں یہ آسان نہیں ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کا اصل مقصد حکومت کو کنفیوز کر کے اخلاقی غلطیاں کرانا اور وزیراعظم کی کرسی کے اخلاقی جواز کو ختم کرانا ہے۔ اخلاقی پایا ٹوٹا تو وزیراعظم کی اپوزیشن سے نمٹنے کی صلاحیت کم یا ختم ہو جائے گی۔ وہ اپوزیشن کے تندو تیز حملوں کا آسان ہدف بن جائیں گے۔ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اپنے نادان مشیروں کی وجہ سے سنگین غلطی کر چکے ہیں۔ نوازشریف اور شہباز شریف کے گرد اپوزیشن جماعتیں جال بچھانے میں کامیاب ہو گئی ہیں ۔ ان کے اِرد گرد گھیرا تنگ کرانے میں ان کے چار نااہل وزراء ہیں۔شریف خاندان کی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے وفادار دوستوں کا خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رانا ثناء اللہ تو سبکدوش ہو گئے لیکن ان کے سگے تایازاد کزن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فرزند ارجمند ارسلان افتخار کو فوری طور پر بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کا نائب چیئرمین مقرر کر دیاگیا ہے۔ جب کہ بورڈ کے چیئرمین وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک ہوں گے۔ ارسلان افتخار کو ایک کامیاب سرمایہ کار کے طور پر یہ عہدہ سونپا گیا ہے۔ ماضی میں ان کی کامیاب تجارتی سرگرمیاں پوری قوم کے سامنے ہیں۔ اب پورے صوبہ کے معدنی وسائل اور سرمایہ کاری ان کی تحویل میں ہوں گے۔ بلوچستان کا ریکوڈک پراجیکٹ ہی ان کی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے کافی ہو گا۔ 
ڈاکٹر ارسلان افتخار کا خواب ایف آئی اے اور پولیس سروس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا تھا اور ان کی خواہش افتخار محمد چوہدری نے اپنے منصب کے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اوراپنے بیٹے کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے پہلے ڈاکٹر ارسلان کو محکمہ صحت بلوچستان سے تبدیل کروا کر ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے تعینات کرایا اور پھر پبلک سروس کمیشن کے لئے بھجو ا دیا۔ صدر پرویز مشرف نے پشاور ہائی کورٹ کے جج جہانزیب کی شکایت پر افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا تھا۔ آج بھی سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں موجود اور ججز کے فیصلہ کا منتظر ہے اور اس صدارتی ریفرنس میں چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے بارے میں سینئر ایڈووکیٹ سید نعیم بخاری کا چیف جسٹس کے نام کھلا خط بھی شامل ہے۔
اس دور کے واقعات کا بین السطور میں جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریفرنس سابق جسٹس کے خلاف دائر نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کا مقصد ارسلان افتخار کو پولیس سروس سے نکالنا تھا۔ آج قوم اعتزاز احسن، حامد خان، عاصمہ جہانگیر ، سردار لطیف کھوسہ اور وکلاء برادری سے یہ سوال کرتی ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اس طرزِ عمل سے عدلیہ آزاد ہوئی یا جانبدار ہوئی۔ بہرحال جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک اہم فون کال پر بحال ہوئے اور ڈاکٹر ارسلان کا کاروبار چل پڑا۔ آج اس وسیع تجربے کی نبیاد پر انہیں بلوچستان کی سرمایہ کار ی بورڈ کا وائس چیئرمین مقرر کر دیا۔ ارسلان افتخار کی بلوچستان کی مخلوط حکومت میں ایک اعلیٰ عہدہ کی تعیناتی نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ سابق جسٹس افتخار محمد چوہدری پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بہت قریب تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ان کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں کھلم کھلا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دبائومیں رکھا گیا اور آئین کے آرٹیکل 219کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی گئی۔ عدلیہ سے ریٹرننگ افسران کی خدمات دوبارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تفویض کرانے کے لئے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو خط لکھنے پر مجبور کیا۔ عدلیہ کے ریٹرننگ افسران کو ڈویژن کی سطح پر خطاب کیا اور ان کو خطوط لکھے اور ان کی اس سرپرستی کے نتیجہ میں ریٹرننگ افسران نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تمام انتطامات کو درہم برہم کر دیا اور صدارتی الیکشن میں آئین کے آرٹیکل 42کے برعکس چیف الیکشن کمشنر کے جاری کردہ صدارتی الیکشن شیڈول تبدیل کو کر دیا جس پر کمزور اور عمررسیدہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم مجبوراً 30جولائی 2013ء کو مستعفی ہو گئے۔ عمران خان اور اعتزاز احسن سمجھتے ہیں کہ ان کی تحریک کی وجہ سے افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے۔ دراصل یہ عالمی ایجنڈا تھا۔ اس کے پس پردہ محرکات کا مجھے علم ہے اور اشارۃً قارئین کو بتاتا چلوں کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بڑی مہارت سے ستمبر2007ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چند ججز بشمول چیف جسٹس، اعلیٰ عہدوں پر فائز بیوروکریٹس اور راقم الحروف کو امریکہ آنے کی دعوت دی تھی اور ان معاملات کے انچارج رچرڈ بائوچر تھے۔ اس کے پسِ پردہ واقعات پر انشاء اللہ دنیا اخبار کی وساطت سے قارئین کو آگاہ کروںگا اور امریکی پلان ناکام بنانے کے اندرونی حالات بعدازاں بیان کروں گا۔میرے ہی محرک پر وزیراعظم شوکت عزیز نے اس پلان کو ناکام بنایا تھا۔
بہرحال سول سوسائٹیوں، وکلاء برادری اور بالخصوص بلوچستان ہائی کورٹ بار کو ڈاکٹر ارسلان افتخار کے تقرر کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے۔ ڈاکٹر ارسلان کو سرکاری عہدہ لینے کے بجائے پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کا صدر بننے میں زیادہ فوائد تھے اور وہ الیکشن کے ذریعے بلوچستان کے وزیراعلیٰ بننے کا خواب بھی دیکھ سکتے تھے۔ حالات کے تناظر میں افتخار محمد چوہدری کے بارے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ناظم صدیقی نے اپنی الوداعی ملاقات میں صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے سامنے جن خطرات اور اندیشوں کا اظہار کیا تھا، ان کی پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں