"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان میں جمہوری بحران

ملک میں حالیہ انتخابات متنازع ہوتے جا رہے ہیں۔ صدرِ مملکت کے اختیارات محدود سے محدود تر کر دیئے گئے ہیں اور بحرانی کیفیت میں صدرِ مملکت بے بس، مجبور اور لاچار؛ جبکہ آئینی کردار نہ ہونے کی وجہ سے فیڈریشن کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم کو ملکی اور غیر ملکی حالات کے تناظر میں ادارک نہیں ہے اور وہ خاندانی حکمرانی کے نشے میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ادھر ملک میں جن انتخابی اصلاحات کی باتیں ہو رہی ہیں‘ ہماری سیاسی پارٹیوں کو بھی انتخابی اصلاحات کے بارے میں صحیح سمت کا علم اور اِدراک ہی نہیں ہے؛ تاہم فرانس کی 1959ء کی انتخابی اصلاحات کی تقلید کر کے ملک میں انتخابی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ یورپ کے فرسودہ نظام پر مبنی انتخابی و آئینی نظام کو مسترد کر کے 1959ء میں جنرل ڈیگال نے فرانس کو ایک نیا آئین اور نیا نظا م دیا تھا۔ مناسب ہوگا کہ پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات کے لیے جو کمیٹی قائم کی ہے وہ فرانس کی 1959ء کی انتخابی اصلاحات پر ریفرنڈم کرانے کی تجویز پیش کرے۔ میرے خیال میں فرانس کے پانچویں ری پبلک آئین کی تقلید سے پاکستان اس بحران سے نکل سکتا ہے۔
بدقسمتی جس ملک کی حکمران جماعت بھارت کے بارے میں نرم رویہ اپناتے ہوئے سرحدوں کو اہمیت دینے کے بجائے تجارتی روابط کو اولین ترجیح دینے کی پالیسی پر کاربند ہو، وہاں سول اور ملٹری تعلقات میں یک جہتی کیسے آئے گی۔ برطانیہ کے سرکاری دورے کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف بھارتی شہری اور دنیا کے سب سے بڑے سٹیل کے تاجر لکشمی متل سے ملاقات کے لئے پیدل ان کے گھر پہنچے۔ جو میاں نوازشریف کے پارک لین والے فلیٹ سے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔ اس ملاقات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ان دنوں لکشمی متل کے مشیر ہیں اور انہوں نے اپنے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں پاکستان سٹیل ملز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی جو سپریم کورٹ کے حکم اور حساس اِداروں کی مداخلت کی وجہ سے ناکام ہوئی تھی۔
اخبارات میں اور ٹیلی ویژن چینلز پر اشتہارات کے ذریعے یہ گمراہ کن تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ بڑے بڑے منصوبوں کی بھرمار نے وطنِ عزیز کو شاہراہ تعمیر و ترقی پر ڈال کر ایک آسودہ اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن کر دیا ہے۔ حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے کہ ہم جو بے پناہ دولت غیر ضروری ترقیاتی کاموں پر خرچ کر رہے ہیں‘ یہ ساری دولت ہمارے حکمرانوں نے اپنے ذاتی خزانوں کا منہ کھول کر قوم کو نہیں دی۔ یہ ساری دولت ان بڑے بڑے قرضوں سے آرہی ہے جس کے عظیم بوجھ تلے ہماری آنے والی نسلوں کی عمریں گزریں گی۔ ابنِ خلدون نے کہا ہے کہ جن معاشروں اور مملکتوں میں وسائل پر ایسے افراد یا طبقوں کا قبضہ ہو جاتا ہے جن کے طے شدہ کاروباری و تجارتی مفادات ہوتے ہیں اور جو ان وسائل کا رخ اپنے کاروباری و تجارتی مفادات کی طرف موڑنے کا اختیار بھی حاصل کر لیتے ہیں‘ ان معاشروں اور مملکتوں کو تنزل اور تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پاکستان کی تاریخ ابنِ خلدون کے اس قول کی تصدیق کر رہی ہے۔
عوام کا حق تو ہے کہ اپنا قائد‘ اپنا وزیراعظم منتخب کرنے کا اختیار براہِ راست انہیں حاصل ہو۔ وہ خود اپنے ووٹوں کی قوت سے فیصلہ کریں کہ حکومت اور قوم کے مقدر کے فیصلے کرنے کا اختیار کس عظیم لیڈر کے ہاتھوں میں ہو۔ پارلیمانی نظام حقیقی جمہوریت کے اس بنیادی تصور کی نفی کرتا ہے ۔ موجودہ انتخابی نظام میںپہلے عدام نمائندے منتخب کرتے ہیں اور اس کے بعد ان عوامی نمائندوں کی صوابدید سے یا ان کے جوڑ توڑ کی بدولت وزیراعظم منتخب ہوتا ہے۔ گویا یہ فیصلہ کہ ملک کی باگ ڈور کس شخص کو سونپی جائے‘ حقیقی معنوں میں 272افراد کرتے ہیں۔ اس نظام سے کہیں زیادہ جمہوری نظام تو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا نافذ کردہ نظام تھا جس میں صدر یا چیف ایگزیکٹو کا انتخاب 80 ہزار نمائندگان بنیادی جمہوریت کرتے تھے اور بعد ازاں 1962ء کے آئین میں ترمیم کر کے ان نمائندوں کی تعدادایک لاکھ بیس ہزار کر دی گئی تھی۔
ملک کے موجودہ حالات میں یہ حقیقت سامنے رکھیں کہ دراصل پارلیمنٹ کے فعال نہ ہونے سے پارلیمانی نظام کو خطرہ ہے۔ جب کہ غیر ریاستی عناصر اور نظام انصاف پر عوام کے عدم اعتماد سے بھی موجودہ نظام کو خطرات لاحق ہیں۔ کئی حوالوں سے قومی افق پر تشویش و اضطراب کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور ہماری پارلیمنٹ کا کردار صفر ہونے کی وجہ سے اُمید کی روشنی مدھم ہوتی جارہی ہے۔ دنیا میں وہی قومیں سربلند ہوتی ہیں جو اپنا محاسبہ کرنے کی مستقل روش اپناتی اور اپنی غلطیوں کی مسلسل اصلاح کرتی رہتی ہیں۔ جمہوریت غلطیوں کی نشان دہی اور اصلاح کا ایک خودکار نظام ہے۔ اس نظام کا تسلسل عوام کو مختلف سیاسی قیادتوں کو آزمانے اور حقیقی، جمہوری اور شفاف انتخابات کے ذریعے بہتر قیادت سامنے لانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انہی اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 17جون کے سانحہ ماڈل ٹائون میں مبینہ طور پر ملوث ذمہ داران کو مستعفی ہو جانا چاہیے ۔ 
اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے ارکان کو پارلیمانی لیڈر کے تابع کر کے ان کے جمہوری کردار کو محدود کر دیا گیا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت کسی نہ کسی بنیاد پر اپنے اخلاقی جواز سے محروم رہی ہے۔ صرف ایک انتخابی عمل ایسا سامنے آیا تھا جسے بڑی حد تک قابل قبول قرار دیا جاسکتاہے۔ یعنی 1970ء کے عام انتخابات۔ اس ضمن میں بھی المناک بات یہ ہے کہ اس انتخابی عمل کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ حکومت ہی قائم نہ ہوسکی بلکہ ہمارا ملک بھی ٹوٹ گیا۔ 20دسمبر1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو کا برسراقتدار آنا نظریہ ضرورت کے تحت تو قابل قبول قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس کا اخلاقی جواز کوئی نہیں تھا۔ جس پارلیمنٹ نے ہمارا موجودہ آئین بنایا تھا وہ کوئی بھی مینڈیٹ نہیں رکھتی تھی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے المیے نے 1970ء کے انتخابی عمل اور اس عمل کے نتیجہ میں سامنے آنے والے مینڈیٹ کو خود بخود منسوخ کر دیا تھا۔ ہمارے سیاسی اور جمہوری رہنما اپنے ذاتی مفادات میں جس آئین کو اس قدر تقدس دے رہے ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی Legitimacyنہیں۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو آئین بنانے کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے انتخابات کراتے اور ان انتخابات کے ذریعے جو پارلیمنٹ قائم ہوتی وہ آئین بناتی اور پھر اس آئین پر ریفرنڈم کروا کے عوام سے براہِ راست منظوری لی جاتی تو قوم کو ذوالفقار علی بھٹو کا سانحہ نہ دیکھنا پڑتا اور پاکستان بھارت سے زیادہ جمہوری اور معاشی اعتبار سے مستحکم ملک کی حیثیت سے اس خواب کی تعبیر ہوتا جو قائداعظم نے دیکھا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں