"KDC" (space) message & send to 7575

الیکٹرول ٹروتھ کمیشن تشکیل کی تجویز

اپوزیشن رہنما عمران خان نے پہلے چار حلقوں کے ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ پیش کیا تھا۔ لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا ہے اور انہوں نے 11مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعض نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ موجودہ سیاسی معاشی بحران کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریکِ انصاف کے احتجاج پر شدید آئینی و قانونی اور انتخابی بحران برپا ہو جائے گا۔ احتجاجی تحریک کب تک جاری رہے گی ،اس کے بعد عوامی ردِ عمل کیا ہو گا ،کیا 16مارچ2009ء کو نوازشریف کے عدلیہ کی بحالی کے سلسلے میں مارچ کی تاریخ دہرائی جائے گی پاپھر کچھ اور ہوگا معاملات ابھی واضح نہیں ۔اگر عمران خان تھائی لینڈ کی احتجاجی تحریک کو مدِ نظر رکھیں تو وہاں پُر تشدد مظاہرین نے ایوانِ وزیراعظم اور پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا تھا،جبکہ تھائی فوج خاموش تماشائی بنی رہی ؛چنانچہ تھائی وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا۔ خود مستعفی ہو گئے۔ تھائی فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ تھائی پارلیمنٹ چیف الیکشن کمشنر اور ان کے 3رکنی پینل کا تقرر اسی طریقے سے کرتی ہے جیسے ملک کے وزیراعظم کا انتخاب کرتی ہے اور اس سسٹم کے تحت چیف الیکشن کمشنر حکومت تھائی لینڈ کے وزیراعظم سے زیادہ بااختیار ہوتا ہے اور مملکت کا صحیح محافظ بھی۔
عمران خان کی جانب سے پیش کیے جانے والے چار مطالبات کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے۔ پہلا یہ کہ کس نے انتخاب کی رات 11بج کر 23منٹ پر نواز شریف کو وکٹری تقریر کرنے کا مشور دیا تھا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے ذریعے اگر غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونے کے امکانات ہیں۔ کیونکہ پارٹی لیڈر اس وقت تقریر کرنے کا مجاز نہیں تھا،جبکہ پولنگ ختم کرنے کا سرکاری وقت شام چھ بجے تھا اور پانچ گھنٹوں میں ملک بھر سے پانچ فیصد نتائج بھی سامنے نہیں آئے تھے اور میڈیا نے غیر سرکاری طور پرProgressiveرزلٹ نشر کرنا شروع کر دیے تھے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قواعد و ضوابط اور
عوامی نمائندگی ایکٹ 76کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان لمحے لمحے کے نتائج جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے اور یہ طریقہ کار 7مارچ 1977ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنایا تھا جس کے منفی نتائج سامنے آئے تھے اور جنرل ضیاء الحق نے پاکستان قومی اتحاد کے مطالبے پر Progressiveنتائج کے اعلان کو قانوناً بند کرا دیا تھا اور آج تک عوامی نمائندگی ایکٹ 76 اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ میڈیا کی رپورٹ پر پارٹی کا کوئی بھی رہنما اس طرح کی وکٹری تقریر کرنے کا مجاز نہیں ہوتا اور یہ سراسر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا قانونی طور پر محترم نواز شریف اپنے بااعتماد ساتھی پرویز رشید کے مشورے پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔علاوہ ازیں پاکستان میں Exit Pollکا سروے بھی قانونی طور پر خلافِ قانون ہے۔ 18فروری2008ء کے انتخابات کے موقع پر امریکہ اور یورپی یونین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اِس طرح کے سروے جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور دبائو بھی ڈالا گیا تھا لیکن یہ ریکارڈ میں موجود ہے کہ میں نے بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے انتخابی قوانین کا جائزہ لینے کے بعد Exit Pollکی مخالفت کی تھی ۔بہرحال چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وکٹری تقریر کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ 
11مئی 2013ء کی رات کو میں نے نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں اس وکٹری تقریر پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا اور میرے مؤقف پر مبنی سی ڈیز میرے پاس موجودہیں۔ میرے دوست سینیٹرپرویز رشید نے وکٹری تقریر لکھنے کا دعویٰ کیا ہے،مگراس تقریر میں محترم نوازشریف نے پولنگ ختم ہونے کے بعد واضح اکثریت حاصل کرنے کا اشارہ کیوں کیا تھا؟جبکہ پولنگ 5بجے شام ختم ہو چکی تھی؟ یہ سب اُمور انتہائی متنازعہ ہوتے جارہے ہیں۔ لہٰذا رات 11بجے کے بعد تقریر انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے دن بد نظمی، پولنگ سٹیشنوں پر سٹاف کا نہ پہنچنا، بیلٹ پیپرز کی بے حرمتی اور پولیس کے انتہائی جانبدارانہ رویہ کی طرف توجہ دینے کے بجائے مستقبل کے قائدِ ایوان کی دلجوئی کرتے رہے اور بعد ازاں انہوں نے کرکٹ بورڈ کی صدارت سنبھال لی ،جو نگران سیٹ اَپ کے آئین کے متعلقہ آرٹیکل سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حیرت ہے کہ سندھ ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خوا کے نگران وزرائے اعلیٰ کو کسی قسم کی پرکشش مراعات سے نہیں نوازا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسران، ریٹرننگ آفیسران اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسران کو خطاب کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔انتخابی تاریخ میں کبھی کسی چیف جسٹس نے ریٹرننگ آفیسران سے خطاب کیا اور نہ ہی خطوط لکھے اور اس طرح سابق چیف جسٹس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ عمران خان کو چاہیے کہ سابق چیف جسٹس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن سے رجوع کریں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 11مئی 2013ء کو نوازشریف کے خطاب کے بعد یواین ڈی پی کے انتخابی نتائج مرتب کرنے کے پروجیکٹ کو روک دیا گیاتھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ تقریباً70ہزار پولنگ سٹیشنوں کا ریکارڈ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس موجود ہے۔ اندرونی حالات یہ ہیں کہ یواین ڈی پی کے پروجیکٹ کا الیکشن کے نتائج کے اعلان سے گہرا تعلق ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت نتائج کے کمپیوٹرائزڈ اندراج کا انتخابی نتائج کے اعلان سے خاص تعلق ہے کیونکہ ریٹرننگ آفیسران کو موقع پر نتائج کے اعلان کے لئے اس پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں425ریٹرننگ آفیسران کو دو کمپیوٹر بمع سیکنرزفراہم کئے گئے تھے اور نتائج مرتب کرنے کے لئے برقی خود کار نظام کو متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ پنجاب کے تقریباً 65فیصد ریٹرننگ آفیسران نے یواین ڈی پی کے تربیت یافتہ کمپیوٹر عملے کی خدمات ہی حاصل نہیں کیںاور ان کو کسی بہانے سے رخصت پر بھیج دیا گیا۔ تحقیق پر صحیح حقائق سامنے آجائیں گے کہ کن کن ریٹرننگ آفیسران نے یواین ڈی پی کے پروجیکٹ کے تربیت یافتہ عملہ کی خدمات کس طرح پسِ پشت ڈال کر نتائج اپنے عملہ کے ذریعے مرتب کرائے ۔ یواین ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر مارک انڈرے فرانچ اور ان کی ٹیم نے الیکشن امور میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مثالی معاونت کی تھی۔ ان کو ریٹرننگ آفیسران کی اندرونی خرمستیوں کا علم نہیں ہے۔11مئی 2013ء کے انتخابات ملکی تاریخ کے متنازعہ انتخابات قرار دیے جارہے ہیں۔ لہٰذا حقائق جاننے کیلئے اعلیٰ سطح کا الیکٹرول ٹروتھ کمیشن تشکیل دیا جائے جو مختصر عرصے میں حقائق کی چھان بین کر کے صدرِ مملکت کو رپورٹ پیش کرے۔
عمران خان کے مطالبے پر حکومت ووٹوں کی از سرنو گنتی کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم نہیں دے سکتی، کیونکہ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے بارے میں انتخابی عذر داریاں الیکشن ٹربیونلز میں زیر سماعت ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے الیکشن قوانین میں ترامیم کر کے ہی عمران خان کا مطالبہ پورا کر سکتی ہے۔ یہی صورتحال پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران پیدا ہو گئی تھی اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو انتخابی ترامیم متعارف کرانے پر آمادہ ہو گئے اور نگران سیٹ اَپ کی گنجائش آئین میں رکھی جارہی تھی لیکن ا ن کے غیر ملکی دورے پر چلے جانے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا اور وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ حکومت اپنے ارکان کو الیکشن ٹربیونلز کے مقدمات سے بچانے کے لئے عدالتی مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرا سکتی ہے۔ عمران خان کے قومی اسمبلی کے ارکان اگر قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ اٹھاتے اور بائیکاٹ کر دیتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ جس طرح پاکستان قومی اتحاد کے 35ارکان قومی اسمبلی نے 7مارچ 1977ء کی متنازعہ قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا اور حلف نہ اٹھائے ۔ علاوہ ازیں قومی اتحاد نے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بھرپور بائیکاٹ کر کے اپنی تحریک کواُبھارا۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی متعلقہ دفعات کے تحت الیکشن ٹربیونلز ہی دوبارہ جانچ پڑتال ، ووٹوں کی گنتی یا انتخابات سے متعلق دستاویزات کے مستند ہونے کی توثیق کر سکتے ہیں۔ حکومت کا اس مطالبہ میں کوئی کردار نہیں ہے۔آئین کے آرٹیکل 225کے مطابق مخصوص حلقوں میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کا قیام نہیں ہوسکتا۔ تحقیقات کے لئے آئین کے آرٹیکل 225میں ترمیم کرنا ہو گی یا پھر عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 103-AAیا پھر دفعہ 104میں ترامیم کر کے آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ تاہم اس ایکٹ کی موجودہ حالت میں حکومت ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتی۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کے مطالبات آئینی و قانونی سے زیادہ سیاسی ہوتے ہیں کیونکہ جب کوئی سیاستدان ایسے مطالبات کرتے ہیں تو وہ اس کے سیاسی مضمرات کو سامنے رکھتے ہیں اور اس کے قانونی پہلوئوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت عمران خان کے مطالبات تسلیم کرنا چاہتی ہے تو اسے عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 103-AAمیں ترمیم کرنا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں