"KDC" (space) message & send to 7575

قوم انتخابی اور آئینی بحران کی زَد میں

ریٹائرمنٹ پر جاتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے اپنے ایک غیر عدالتی بیان میں فرمایا ہے کہ انتشار کی بجائے متحد کرنے والی قوتوں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا جمہوری کلچر ہے۔ حیرت ہے کہ جسٹس تصدق حسین جیلانی کو ایسا بیان دینے کی ضرورت اچانک کیوں پیش آئی اور ان کا یہ بیان کن لوگوں کی حمایت میں تھا اور کون سے گروہ کے خلاف؟ 
جسٹس تصدق حسین جیلانی سے میرا نیاز مندی کا سلسلہ 1978ء سے قائم ہے‘ جب وہ ملتان میں پریکٹس کرتے تھے اور انہوں نے بڑی محنت، ذہانت اور قابلیت سے اپنا مقام بنایا تھا۔ پھر وہ اسی جانفشانی سے ترقی کی منازل طے کرتے گئے اور بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کے مذکورہ بیان کے حوالے سے ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا ہوگا۔ دنیا میں آج تک انسانی فلاح کی طرف ہر سفر کا آغاز تصادم سے ہوا۔ اس ضمن میں سب سے بڑی مثال حضرت امام حسین ؓ کی دی جاسکتی ہے۔ اگر حضرت امام حسین ؓ یزید کے ساتھ اتحاد قائم کر لیتے اور اس اصول پر عمل کرتے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا جمہوری کلچر ہے تو آج ''اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ کا نعرہ گونج رہا ہوتا؟ برائی کو برائی سمجھ کر برائی کی قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس کا راستہ روکنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہونا حضرت امام حسینؓ کی سنت ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی جس جمہوری کلچر کی بات کر رہے ہیں وہ ہماری منزل نہیں۔ اِسی طرح 31جولائی 2009ء کو بحال شدہ چیف جسٹس نے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے تقریباً 109ان ججوں کو برطرف کر دیا جنہوں نے 3نومبر2007ء کو پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی کو جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اس غیر آئینی قدم کی توثیق نہیں کرنی چاہیے تھی‘ معزز جسٹس صاحبان کو آئین کے آرٹیکل 209کی بھٹی سے گذارنا چاہیے تھا۔ 31جولائی 2009ء کے فیصلے میں ان معزز ججوں کی اکثریت تھی جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ پی سی او کے تحت 26جنوری 2000ء کو حلف لیا تھا پھر صدر جنرل پرویز مشرف نے 3نومبر2007ء کو بطور چیف آف آرمی سٹاف ملک کے وزیراعظم‘ ان کی کابینہ‘ کور کمانڈرز اور چاروں صوبائی گورنرز کی مشاورت سے محدود طور پر ایمرجنسی نافذ کی‘ بعدازاں 6نومبر2007ء کو پارلیمنٹ نے جس کی توثیق کر دی تھی۔ اس ایمرجنسی کے آرڈر کے تحت جنرل اشفاق پرویز کیانی 29نومبر2007ء کو آرمی چیف مقرر ہوئے۔ جنرل کیانی کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی ایمرجنسی اٹھا لینی چاہیے تھی۔ قومی مفاد کا یہ اہم نکتہ 31 جولائی 2009ء کو بحال شدہ چیف جسٹس کی نظروں سے اوجھل رہا۔
ہمارے فوجی افسران جرمن امپیریل جنرل سٹاف کے تربیت یافتہ ہیں۔ سٹیفن کوہن کی پاکستانی آرمی پر لکھی ہوئی کتاب کے یہ الفاظ ناقابل فراموش ہیں کہ ''ایک پاکستانی فوجی افسر بہت زیادہ عسکری حکمت عملی نہیں رکھتا کیونکہ بہرحال اس کا تعلق اسی پاکستانی معاشرے سے ہے جہاں سوچ بچار، تجزیے اور جائزے جیسی علتوں کی کوئی جگہ نہیں‘‘۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ ایک عام پاکستانی جنرل اپنے بالمقابل سیاست دان سے کہیںزیادہ ذی فہم ہوتا ہے کیونکہ سیاستدان مطالعے، سوچ بچار اور جہاں تک ممکن ہو سکے، عقل کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنی الوداعی تقریر میں مزید فرمایا کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ عوامی مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کا مکمل اختیار رکھتی ہے اور اس کے منظور کردہ قوانین کی تشریح و تعبیر عدلیہ کا کام ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ دونوں وہ بنیادی ستون ہیں جن پر جمہوریت کی عمارت قائم ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی 11مئی 2013ء کے قومی انتخابات میں عبوری چیف الیکشن کمشنر کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ مذکورہ انتخابات متنازعہ ہوتے جارہے ہیں اور اب چشم کشا انکشافات سامنے آرہے ہیں کہ انتخابات کی رات‘ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسران اور ریٹرننگ آفیسران نے 93حلقوں کی پولنگ سکیم تبدیل کر کے ہر حلقے میں تقریباً 15سے 20ہزار نئے ووٹوں کا اندراج کر کے ان حلقوں میں انتخابات کرائے۔ 
سوال یہ ہے کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے 28اپریل 2013ء کو گزٹ نوٹی فیکیشن کا اجراء ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسران نے 93حلقوں کی پولنگ سکیم 9یا 10مئی 2013ء کو کیسے تبدیل کر دی‘ جب کہ گزٹ نوٹی فکیشن کے اجراء کے بعد صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی تبدیلی کرنے کا مجاز ہے اوروہ سول سوسائٹیاں جو انتخابی عمل کا بغور جائزہ لیتی ہیں ان کی رپورٹ کے مطابق تبدیل شدہ پولنگ سکیم میں ہر حلقے میں 15سے 20ہزار ووٹوں کا فرق واضح نظر آتا ہے۔
24اکتوبر1990ء کے انتخابات کے انعقاد کے دوران سکھر کے حلقے سے انتخابات میں ناکام امیدواروں نے اس وقت کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین جسٹس نعیم احمد اور ارکان کمیشن جسٹس خلیل الرحمن اور جسٹس امیر الملک مینگل کے پاس عذرداری داخل کی کہ سکھر کے ڈسٹرکٹ سیشن جج رانا بھگوان داس نے پولنگ سٹیشن کی فہرست اور گزٹ نوٹی فیکیشن میں تبدیلی کی تھی۔ اس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رانا بھگوان داس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے طلب کر کے وضاحت مانگی۔ اتفاق سے رانا بھگوان داس کی طلبی کا نوٹس میری ہی وساطت سے جاری کیا گیا تھا۔ میں ان دنوں ایڈیشنل الیکشن کمشنر سندھ تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پورے ریکارڈ کی چھان بین کی۔ درخواست گزار کا موقف محض الزام تراشی پر مبنی پایا گیا۔ رانا
بھگوان داس نے پورا ریکارڈ کمیشن کے سامنے پیش کر دیا اور سکھر کے حلقے کے انتخابات گزٹ نوٹی فیکیشن کے عین مطابق پائے گئے۔ سماعت کے دوران عبدالحفیظ پیرزادہ، مرحوم سید اقبال حیدر، سید خورشید احمد شاہ اور رضا ربانی اور ان کے اس وقت کے مخالف امیدوار اسلام الدین شیخ اور دیگر سب موجود رہے‘ جب رانا بھگوان داس اپنی صفائی پیش کر رہے تھے۔ اسی سماعت کے دوران میرا رانا بھگوان داس سے احترام کا رشتہ قائم ہوا اور یہ تعلق ان کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے تک قائم رہا اور اب بھی ان سے بدستور نیاز مندی ہے۔ 
18فروری 2008ء کے انتخابات کے انعقاد سے پیشتر محترمہ بے نظیر بھٹو کے مطالبے اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ پولنگ سٹیشنوں کی فہرست ویب سائٹ پر جاری کر دی تھی تاکہ گھوسٹ پولنگ سٹیشنوں کے تصور کا ازالہ کیا جاسکے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ان اقدامات کو بین الاقوامی مبصرین‘ بالخصوص یورپی یونین کے مبصرین نے اپنی رپورٹوں میں سراہتے ہوئے صاف و شفاف الیکشن کی طرف اہم قدم قراردیا۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے عمل کے دوران ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسران نے 93 حلقوں میں پولنگ سکیم آخر کس قانون اور ضابطے کے تحت تبدیل کر دی۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسران نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات کو نظر انداز کر کے ان انتخابات کو ہی متنازع بنا دیا اور ان کی اس جانبداری کی وجہ سے ملک میں اضطراب و انتشار کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں