"KDC" (space) message & send to 7575

جنرل مشرف کے مستعفی ہونے کا پس منظر

سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے مطابق ان کے دور میں حکومت اور عسکری مقتدرہ کے درمیان جنرل پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا معاہدہ ہوا تھا اور اسی کے نتیجے میں جنرل مشرف صدارت کے منصب سے مستعفی ہو کر ملک سے باہر گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب صدر کے خلاف مواخذے کا فیصلہ کیا گیا تو عسکری قیادت سے صدر زرداری کے مذاکرات میں طے ہوا کہ اگر جنرل مشرف صدارت سے مستعفی ہو جاتے ہیں تو انہیں باوقار اور محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ ان حالات کو مدِنظر رکھا جائے تو بقول سابق وزیر اعظم، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان کے حوالے سے جو یقین دہانی کرائی‘ موجودہ حکومت کو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس حالات غماز ہیں کہ جنرل مشرف کے خلاف 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگانے کا جو مقدمہ زیر سماعت ہے‘ وہ ریاست کے کلیدی اِداروںکے درمیان کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 31جولائی 2009ء کو آئین کو نظر انداز کرکے جو فیصلہ دیا‘ وہ ریاستی اداروں کے مابین کشیدگی کا باعث بنا۔ آئینی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے لئے ملک کو اس خطرے سے بچانا لازم ہے‘ لہٰذا کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا ضروری ہے‘ جس سے ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی کا تاثر ختم ہو اور ملک عدم استحکام سے محفوظ رہے۔ ہماری سیاسی قیادت، آئینی ماہرین اور مقتدر حلقوں سمیت سب کو ایسا کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔ اس کے لئے وفاق کی جانب سے آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مذکورہ فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔ صدرِ مملکت فیڈریشن کی علامت ہیں، وہ آئین کے تحت اہم قومی مسائل کے حل کے لئے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج کی تمامتر ناروا صورت حال حکومت کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آتے ہی سکیورٹی ریاست کی طرح کردار ادا کرتا رہا اور ملک کا آئین‘ جو ایک برس کے اندر بن جانا چاہیے تھا، سکیورٹی کے نام پر نو سال کی تاخیر سے 23مارچ 1956ء کو نافذ ہوا۔ ملک میں مارشل لاء بھی سکیورٹی کے نام پر ہی لگتے رہے، لیکن اب ملک جس تیزی سے عدم استحکام کی طرف جا رہا ہے اور ریاست میں انتشار بڑھ رہا ہے‘ اس کی زیادہ ذمہ داری پنجاب کی حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کی موقع پرست بیوروکریسی اور ایک نادان صوبائی وزیر نے 17جون کو سانحہ ماڈل ٹائون کو دانشمندی سے ہینڈل نہیں ہونے دیا۔ 
سابق صدر جنرل مشرف کی صدارتی عہدے سے سبکدوشی کی ڈیل میں امریکی نمائندہ ایڈمرل شف ایلیسن، امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن اور مشرقی وسطیٰ کے بعض بااثر حکمرانوں کی مداخلت اس وقت زور پکڑ گئی‘ جب جنرل مشرف نے این آر او کے ضامنوں کو یہ باور کرایا کہ این آر او سے مستفید ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے صدر کا مواخذہ کرنے کے لئے ان کی تضحیک کر رہی ہے، لہٰذا وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس دوران این آر او معاہدہ کرانے والی اہم امریکی شخصیت وزیر خارجہ کونڈولیز رائس پاکستان کے حالات پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ ادھر امریکی سفیر پیٹرسن نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات صدر پرویز مشرف کے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ختم نہیں ہوں گے، اس لیے امریکہ پاکستان میں طالبان کا اثرورسوخ ختم کرنے کے لئے صدر پرویز مشرف پر انحصار نہیںکر سکتا۔
صدر پرویز مشرف کے خلاف مواخذہ کی تحریک محض دکھاوا تھی۔ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف پر دبائو بڑھاتے رہے۔ صدر پرویز مشرف کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ صدر پرویز مشرف عملاً ایوانِ صدر میں نظر بند ہو کر رہ گئے۔ ان کی کیفیت شاہِ ایران کی سی ہو گئی تھی، جب شاہِ ایران کو وزیر اعظم مصدق نے عملاً مفلوج کر دیا اور ان کے حامی مصدق کے خوف سے ان سے ملاقات کرنے سے گریز کر رہے تھے، حتیٰ کہ امریکی سفیر بھی کار کی پچھلی نشست پر لیٹ کر شاہی محل گئے تھے۔ صدر پرویز مشرف نے اپنی تنہائی ختم کرنے کے لئے حسبِ روایت 14 اگست 2008 ء کو ایوانِ صدر میں قومی ترانے اور محفل موسیقی کا اہتمام 
کیا اور پروٹوکول کے مطابق پاکستان ٹیلی ویژن نے اسے لائیو نشر کرنے کا بندوبست بھی کیا۔ یہ پروگرام وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے لائیو دکھایا گیا تھا۔ میں نے 14اگست کی ایوانِ صدرکی تقریب میں کبھی شرکت نہیں کی تھی لیکن چونکہ صدر مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے قریب تھا، اس لیے میں ان کی خواہش پر اس میں شریک ہوا۔ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ صدر مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی راہ تک رہے تھے لیکن آرمی چیف نے کمال ہوشیاری سے ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی میں خطاب کی نئی راہ نکالی اور صدر مشرف سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی۔ صدر مشرف نے اسی رات اپنے منصب سے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی 14اگست 2008ء کی رات کاکول اکیڈمی جانے کے بجائے ایوانِ صدر چلے جاتے تو قوی امکان تھا کہ صدر مشرف 18اگست 2008ء کو الوداعی خطاب کے بجائے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیتے اور یہ امکان بھی تھا کہ اس وقت کی سپریم کورٹ صدر مشرف کے اس اقدام کی آئین کے آرٹیکل 58 (بی) کے تحت توثیق کر دیتی۔ قارئین کرام کی توجہ کے لئے بتاتا چلوں کہ 18اگست کو قوم سے خطاب میں مدوجزر کا عنصر پایا جاتا تھا۔ ان کی تقریر کے شروع میں وفاقی حکومت کے خلاف مکمل چارج شیٹ نظر آتی ہے۔ بعدازاں انہوں نے اپنی تاریخی تقریر کا رُخ موڑ دیا اور اترائی
میں جاتے ہوئے نظر آئے اور آخر میں مستعفیٰ ہونے کا اعلان کر دیا۔ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے صدر مشرف سے تعاون کا ہاتھ اسی طرح کھینچ لیا جس طرح جنرل جہانگیرکرامت نے صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ سے نظریں چرالی تھیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کی نااہل اور وژن سے محروم کچن کیبنٹ کے ارکان انہیں ترکی کے وزیر اعظم طیب اردوان بنانے کی راہ دکھا رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ طیب اردوان صنعت کار اور سرمایہ دار نہیں، وہ گلیوں میں لیموں بیچنے والے وینڈر رہے جو ٹھیکے پر لیموں فروخت کرتا تھا، ان کے دل میں قوم کا درد تھا۔ انہوں نے تعلیم حاصل کی اور اپنی کوشش سے اقتدار تک پہنچے۔ انہوں نے جدید ترکی کا اس خواب‘ جو کمال اتاترک نے دیکھا تھا‘ کو عملی شکل دی اور اسے جدید جمہوریہ بنا دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے عوام کی عملداری کو بالادستی دلائی اور عسکری بالادستی کی قوت کا توازن آئین کے ذریعہ دلایا۔ آج ترکی خطے کا طاقتور ترین اور ہر طرح سے مستحکم ملک ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی گجرات کے ریلوے اسٹیشن پر چائے فروخت کرتے تھے۔ 
اس وقت پاکستان میں معاشی ابتری ہے، امن و امان کی صورت حال خراب ہے، کرپشن عروج پر ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی سے عوام دل برداشتہ ہو کر ریاست سے لاتعلق اور متنفر ہوتے جا رہے ہیں لیکن وزیر اعظم نواز شریف 3 نومبر 2007ء کی متنازع ایمرجنسی اور مخصوص ججز کے یک طرفہ فیصلے کی روشنی میں اپنی انا کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے عسکری قوت سے تصادم کی راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں