"KDC" (space) message & send to 7575

11مئی 2013ء کے انتخابات میں میڈیا کا کردار

ہمارا انتخابی نظام ایسا ہے جس میں علم یا مہارت کو سیاسی ضرورت پر ترجیح نہیں دی جاتی۔ اس نظام کو کسی حد تک جنرل ضیاء الحق نے اکتوبر1977ء اور 1985ء میں بدلنے کی کوشش کی کیونکہ انہوں نے سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی نشستیں متعارف کروائیں۔ عجب بات یہ ہے کہ غیر منتخب حکومتوں نے یہ بات محسوس کی ۔ ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے لئے کوئی خطرہ تصور نہ کریں‘ جن کی پیشہ ورانہ مہارت زیادہ ہے اور ووٹ لینے کی صلاحیت کم۔ آج کی دنیا میں مقبولیت اور مہارت اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ایک نئے نظام کی طرف ہمیں قدم بڑھانا چاہیے۔ انتخابی نظام میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مثلاً قومی اسمبلی میں بھی ماہرین یا ٹیکنو کریٹس کو نمائندگی کا موقع ملے۔ کئی ممالک میں پارٹیوں کی طرف سے حاصل کردہ کل ووٹوں کی بنیاد پر متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے۔ اگر ایک پارٹی کو دس فیصد ووٹ ملیں تو اسے حق ہوتا ہے کہ اسی تناسب سے نشستوں کیلئے قابل ترین ارکان نامزد کرے۔ اس سے ایک بڑی تبدیلی یہ آئے گی کہ قومی اسمبلی میں پالیسیوں پر ہونے والے بحث مباحثے میں ماہرین کی شرکت سے مزید بہتری آئے گی۔
میڈیا کمیشن کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذمہ داریاں سونپی تھیں کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات کی کوریج کے لئے 
فارمولہ تیار کیا جائے‘ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس پر عمل کیا اور نہ ہی پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن نے اپنے وعدے پورے کئے۔ پی بی اے کے وفد نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ملاقات کر کے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم سیاسی جماعتوں سے اشتہارات کے جو بھی نرخ طے کریں گے انہیں اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دیں گے تاکہ اس عمل میں شفافیت آجائے۔ ہمارے انتخابی ضوابط میں امیدواران کے لئے پندرہ لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی پابندی تو ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے انتخابی اخراجات کے لئے کوئی حد نہیں رکھی گئی۔ لہٰذا خفیہ ذرائع سے ملی ہوئی رقوم سے کوئی کتنا خرچ کر رہا ہے‘ اس کا کسی کو معلوم ہی نہیں۔ حالانکہ میڈیا کمیشن نے اس کے لئے ایک فارمولا دیا تھا جس کی مدد سے ایک لمحے میں پتا لگایا جاسکتا تھا۔ میڈیا کمیشن کی تجویز یہ تھی کہ سیاسی جماعتوں کے اشتہارات کی بکنگ وزارت اطلاعات و نشریات کے ذریعے کروائی جائے اور ادائیگی بھی پی آئی ڈی ہی میں کی جائے۔ اس طرح فوری طور پر یہ پتا لگایا جاسکتا تھا کہ کس سیاسی جماعت نے کس چینل اور اخبار کو کتنے اشتہار 
دئیے ہیں اور اس کی کیا ادائیگی کی ہے۔ انتخابی اصلاحات کی کمیٹی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے جواب طلبی کرے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے میڈیا کے حوالے سے سفارشات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائی تھیں مگر ان سفارشات پر انہوں نے عمل نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کو کچھ معلوم نہیں‘ کس نے کتنا خرچ کیا اور پیسہ کس حد تک اثرانداز ہوا۔ ایک اطلاع کے مطابق 11مئی 2013ء کے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں‘ بشمول پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ‘ نے 7ارب روپے کے لگ بھگ رقوم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر خرچ کیں۔ اب انتخابی اصلاحات کمیٹی کو چاہیے کہ سیاسی اشتہارات کے متن کو بہتر بنانے کے لئے بھی اصلاحات کرے۔ 
میرے نزدیک11مئی 2013ء کے انتخابات میں پاکستانی میڈیا کا کردار نامناسب رہا۔ کوریج میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کو نظر انداز کر دیا گیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کمزور قیادت نے اپنے ہی مرتب کردہ انتخابی ضوابط پر عمل درآمد نہ کرایا۔ کمیشن میں ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ عمومی طور پر کوریج میں بڑی پارٹیوں اور ان میں سے بھی خاص لوگوں کو نمایاں موقع دیا گیا۔ اشتہارات کے حوالے سے اس شعبے پر کوئی چیک ہی نہیں رکھا گیا؛ چنانچہ بھاری رقوم لے کر ہر طرح کے اشتہارات چلا دئیے گئے۔
پاکستان اور بھارت میں انتخابی نقائص پائے جاتے ہیں۔ یہاں اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ایک ووٹ کی برتری سے کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔ بھارت میں بڑے بڑے بزنس ہائوسز ہیں جن کا میڈیا پر بھی کنٹرول ہے۔ ان کا معاہدہ ہو چکاتھا کہ مودی کو کامیاب کرانا ہے۔ یہاں پر انڈین الیکشن کمیشن کی جانبداری اور کمزوری ظاہرہوتی ہے کہ انڈین الیکشن کمیشن نے اس بھیانک دھاندلی کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ بڑی مہارت اور چالاکی سے کمپیوٹر کو استعمال کر کے اندرونِ خانہ ووٹوں کا ٹرانسفر کرایا جاتا ہے اور اس مہم میں انڈیا کا میڈیا پراسرار طور پر خاموش رہتا ہے۔ اس لحاظ سے انڈیا کے میڈیا کا کردار منفی رہا ہے۔ انڈین الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی کو وہاں کا میڈیا بے نقاب کرنے میں ناکام رہا لیکن اس کے برعکس انٹرنیٹ، ویب سائٹ اور فیس بک پر 13لاکھ سے زائد شکایات موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے ہاں بزنس ہائوسز اور میڈیا میں عملاً کوئی معاہدہ یا گٹھ جوڑ نہیں دیکھنے میں آیا۔ میڈیا اور سیاسی جماعتوں میں شاید ہی کوئی ایسا معاہدہ پایا گیا ہو۔ ہمارے ہاں انتخابات میں بھارت کے مقابلے میں بزنس کا بڑا کردار نہیں تھا۔ لہٰذا مستقبل کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک متحرک کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ طاقت اور میڈیا کے بل بوتے پر انتخابات کے غیر متوازن نتائج برآمد نہ ہوں۔ پاکستان کا میڈیا اپوزیشن ، حکمران جماعتوں کے مابین خاموش مفاہمت کی حقیقت سے قوم کو آگاہ کرنے اور میگا کرپشن، فیڈریشن کی لرزتی ہوئی صورتحال ، چاروں صوبوں کا وفاق سے برائے نام تعلق اور دیگر بنیادی ایشوز پر مباحثے کی بجائے قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی تضحیک کی جا رہی ہے اور حکومت نے اس وقت آخری عباسی خلیفہ کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں