"KDC" (space) message & send to 7575

عدالتی گرداب کے بھنور میں

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے عمران خان کو ہتکِ عزت کا نوٹس دینا غیر معمولی اقدام ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا واقعہ ہے کہ کسی سابق چیف جسٹس کی جانب سے کسی سیاستدان کو ہتکِ عزت کا نوٹس اَرسال کیا گیا ہو۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 1990ء سے 2013ء تک عدلیہ میں طویل عرصہ گزارا۔ وہ پاکستان میں ہتکِ عزت کے دعوئوں کی حقیقت سے آگاہ ہیں،پھر بھی انہوں نے یہ راستہ اختیار کیا اور عمران خان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ غالباً اکتوبر نومبر1997ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے وزیراعظم نوازشریف کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ بین السطور میں یہ بھی ہتک عزت کا ہی نوٹس تھا اور میاں نوازشریف وزیراعظم کی حیثیت سے سپریم کورٹ میں پیش بھی ہوتے رہے ،لیکن جب فیصلے کی گھڑی قریب آنے والی تھی تو عدالت پر حملہ کر دیاگیا ۔بعدازاں سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنے ہی ساتھیوں کی سازش کا شکار ہو گئے اور جنرل کرامت جہانگیر کی چشم پوشی کی وجہ سے صدر فاروق خان لغاری اور سید سجاد علی شاہ کو اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونا پڑا۔
عمران خان نے سابق چیف جسٹس پر 11مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ سابق چیف جسٹس نے انتخابات میں نوازشریف کی پارٹی کو فائدہ اور تحریکِ انصاف کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان میں ہتک عزت کا قانون بظاہر متاثر کن ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کے طریق کار کے باعث یہ محض سیاسی سکورنگ کا عمل بن کر رہ گیا ہے۔افتخار محمد چوہدری اگر ہتک عزت کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے پر قائم رہتے ہیں تو اس مقدمہ کے دوررَس نتائج ایسے انداز میں آئیں گے کہ شاید پاکستان کی عدالتی نظام کی عمارت ہی لرز جائے۔ کیونکہ عمران خان نے اپنے مقدمہ کی پیروی کی تو وہ افتخار محمد چوہدری کے جج کی حیثیت سے عدالتی کنٹریکٹ اور ان کی بحالی کو چیلنج کریں گے۔
15مارچ 2009ء کے نام نہاد لانگ مارچ کی آڑ میں افتخار محمد چوہدری کو جس طرح بحال کروایا گیا، اس کی آئینی پوزیشن سوالیہ نشان ہے ۔ انہوں نے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی باقاعدہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے عہدے کا چارج لیا تھا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی رخصتی پر ان کو مکمل پروٹوکول دیا گیا تھا ۔ایوانِ صدر میں ان کے اعزاز میں الوداعی ڈنر بھی دیا گیا اور سرکاری طور پر ان کی عدالتی خدمات کا اعتراف کیا گیا تھا۔ افتخار محمد چوہدری نے 24مارچ2009ء کو جسٹس (ر) حامد علی مرزا سے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کے عہدے کا حلف لے کر اپنے عہد کا آغاز کیا تھا اور اسی دن عدالتی فرائض ادا کرتے ہوئے کئی مقدمات کی سماعت بھی کی ۔سماعت کے دوران حسب عادت انہوں نے وفاقی حکومت کے خلاف ریمارکس بھی دینے شروع کر دئیے۔ 26مارچ2009ء کو میری صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی تو میں نے افتخار محمد چوہدری صاحب کے ان ریمارکس کا ذکر کیا ۔ صدر آصف علی زرداری نے حسبِ معمول مسکراتے ہوئے فرمایا کہ حکومت ان کے رویہ ، طریق کار اور کنڈکٹ کا بغور جائزہ لے رہی ہوگی۔ ویسے بھی ان کو ہنگامی طور پر ایک ایگزیکٹوآرڈر کے تحت فرائض سنبھالنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا اور اس ایگزیکٹو آرڈر کی ابھی پارلیمنٹ سے توثیق بھی نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا ایگزیکٹو آرڈر واپس لینے میں کتنی دیر لگے گی؟ جب این آراو کیس سنگینی اختیار کرنے لگا اور صدرِ 
مملکت زرداری کا اقتدار خطرے کی زد میں آرہا تھا تو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنے خطاب میں اشارہ دیا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی وفاقی حکومت کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت عمل میں آئی ہے اور اس کی توثیق ابھی پارلیمنٹ سے کروانا باقی ہے تاکہ آئینی اور قانونی جواز فراہم ہو ۔ سید یوسف رضا گیلانی کے اس خطاب کے بعد افتخار محمد چوہدری کی عدالتی معاملات پر گرفت کمزور ہو گئی اور صدر آصف علی زرداری بھی محفوظ ہو گئے۔ 
عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے مقدمہ میں چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے خلاف 9مارچ 2007ء کا صدارتی جوڈیشل ریفرنس بھی زیر بحث آنے کا امکان ہے ۔ چوہدری اعتزاز احسن نے کمال ہوشیار ی سے اس ریفرنس کا رُخ ہی تبدیل کر دیا تھا۔ بہرحال جوڈیشل ریفرنس ابھی تک سپریم کورٹ میں موجود ہے اور اس کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 209کے تحت فیصلہ ہونا باقی ہے۔ لہٰذا ہتک عزت کے مقدمے میں اس کیس کی بھی شنوائی ہونی ہے اور اِسی طرح چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے سات رُکنی بینچ کی طرف سے جو فیصلہ سامنے آیا تھا ،اس کے بارے میں بھی جسٹس (ر) یاسمین عباسی نے ان کے خلاف جوڈیشل ریفرنس صدر ممنون حسین کو بھیجا ہوا ہے۔ وہ بھی اس مقدمے میں آگے بڑھے گا۔ اِسی طرح چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کا جاری کردہ صدارتی الیکشن شیڈول تبدیل کر کے آئین کے آرٹیکل 42کو نظر انداز کیا۔ جس پر سینیٹر اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آئین کے آرٹیکل 42کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی جسٹس افتخار محمد چوہدری کی 12دسمبر 2013ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد صدارتی الیکشن کو چیلنج کرے گی۔ جہاں تک قومی انتخابات میں سابق چیف جسٹس کی مداخلت کا تعلق ہے تو اس کی فہرست بہت طویل ہے ۔ان کے روّیے سے دل برداشتہ ہو کر ہی چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو مستعفی ہونا پڑا۔ انہی کے عدالتی دور میں جون 2004ء میں قاضی حسین احمد کے اہم کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاریخی فیصلہ صادر فرمایا تھا کہ صدارتی الیکشن میں صدارتی اُمیدوار آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے زُمرے میں نہیں آتے، جس سے صدر پرویز مشرف اور صدر زرداری مستفید ہوئے ۔جسٹس سردار رضا کے اعزاز میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے الوداعی ڈنر میں سید یوسف رضا گیلانی نے بغیر دعوت شرکت کی تھی۔ بعدازاں چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس ان کی آمد سے آگاہ تھے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈنر کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی اگلے دن ایوانِ قائداعظم میں وزیراعظم سے تین گھنٹے کی ملاقات کس عدالتی آداب کے تحت ہوئی ؟اور اس کے نتیجہ میں این آر او کیسے تین سال تک مؤخر رہا؟
اِسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کو آئین کے آرٹیکل 213اور 218کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجو ع کیا تو چیف جسٹس کا روّیہ ان کے شایان شان نہیں تھا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی انتخابی عمل میں شرکت کے لئے وطن واپسی پر ریمارکس دئیے تو فوراً بعد ان کے خلاف مقدمات کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا اور اُن کے کاغذاتِ نامزدگی جو انصاف پسند ریٹرننگ آفیسران نے آئین و قانون کے مطابق منظور کئے تھے ، متعلقہ ہائی کورٹ کے معزز ججوں نے مسترد کرنے شروع کر دئیے اور ایک معزز جج نے تو ان کو تاحیات ہی نااہل قرار دے دیا ۔ حالانکہ آئین میں پانچ سال کے لئے نااہل ہونے کی سزا کا ذکر ہے۔اِسی طرح موصوف نے 31جولائی 2009ء کو فیصلہ کرتے ہوئے 115سے زائد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کو آرٹیکل 209کے تحت کارروائی کیے بغیر یک طرفہ طورپر سبکدوش کر دیا جن میں چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر ،جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس نواز عباسی اور دیگر اعلیٰ پائے کے مستقل ججز شامل تھے۔ عمران خان کی وکلاء کی ٹیم کو ان تمام حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جامع طریقے سے مقدمہ کی پیروی کرنا چاہیے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سٹیل ملز کی نج کاری کے بارے میں فیصلے سے قبل صدر پرویز مشرف سے ملاقات کا بھی تجزیہ کرتے ہوئے اسے مقدمے کا حصہ بنانا چاہیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں