"KDC" (space) message & send to 7575

حالات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے

نادان، ناعاقبت اندیش وزراء کے مشورے سے وفاقی حکومت نے نام نہاد سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر تین ماہ کے لئے اسلام آباد میں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج طلب کر لی۔ حکومت کے اس فیصلے پر اپوزیشن سمیت بعض سیاسی پارٹیوں کی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے کسی نظام کی تشکیل ایک دن میں نہیں ہوسکتی۔ قائداعظم محمد علی جناح دنیا سے رخصت ہوئے تو اس کے بعد کوئی نظام نہیں بننے دیا گیا۔ پنجاب کے طاقتور جاگیرداروں اور سندھ کے بااثر سیاسی گھرانوں نے کوئی بھی نظام نہیں بننے دیا‘ حالانکہ قائداعظم نے 11اگست1947ء کی آئین ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر میں مملکتِ پاکستان کے خدوخال واضح کر دیے تھے۔ قائداعظم بنیادی طور پر لبرل، جمہوری اور اسلامی ترقی پسند فلاحی مملکت چاہتے تھے۔ ان کی وفات کے فوری بعد پاکستان کے حصول کے مقاصدکو تبدیل کر دیا گیا اور پاکستان کو ایک سکیورٹی ریاست بنا دیا گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ترجیحات بھی بدل گئیں اور سارا اقتدار سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں آگیا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سیاست دانوں سے ہمالیہ جیسی غلطیاں سرزد ہوئیں اور ان کی کوتاہ اندیشی کی وجہ سے عوام کی نظر میں سیاست دانوں کا امیج خراب ہو تا چلا گیا۔ ان کی نااہلی اور بدعنوانیوں کے چرچے کئے گئے اور اس طرح عوام کی نظر میں ان کا کوئی اعتبار یا اعتماد باقی نہ رہا۔ کچھ عرصہ بعد مقتدر قوتوں نے پنجاب اور سندھ میں نئی اشرافیہ کی تشکیل کی جس کی وجہ سے ایبڈو زدہ سیاست دان پسِ پردہ چلے 
گئے۔ بدقسمتی سے ایم آر ڈی کی قیادت یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب زادہ نصراللہ خان، خواجہ خیر الدین، ایئر مارشل محمد اصغر خان اور دیگر زعماء غیر جمہوری قوتوں کے جال میں پھنس گئے اور انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے نوازشریف فیملی کو ملک کی سیاسی قیادت سنبھالنے کا سنہری مواقع فراہم کر دیا‘ جس نے پاکستان پر خاندانی حکمرانی کو نئے روپ دئیے اور نئی اشرافیہ نے کسی نظام کو چلنے نہ دیا۔ 1985ء کے بعد سے سیاسی جماعتوں میں بداعتمادی تھی؛ چنانچہ وہ یعنی سیاسی جماعتیں بیورو کریسی کے ہاتھوں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوئیں اور سیاستدان‘ بشمول پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے‘ عوام کے مفادات پر مبنی ترقی پسندانہ اقدامات نہ کر سکے۔ 
انتخابات جمہوری نظام کا حصہ ہیں۔ آئین میں وسط مدتی انتخابات کا تصور نہیں ہے لیکن جب ملک کے انتخابی نظام کی کریڈیبلٹی متنازع ہو جائے‘ مشکوک قرار دے دی جائے اور پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت میں انتشار پیدا ہو جائے یا وہ مختلف گروپس میں تقسیم ہو جائے تو ایسا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ مارچ اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کے دورِ صدارت میں ہوا تھا‘ جب پاکستان مسلم لیگ کے 90سے زائد ارکان قومی اسمبلی نے فارورڈ بلاک بنا کر اپنے علیحدہ طاقتور گروپ کی تشکیل کی تھی‘ تو صدر غلام اسحاق خان نے 17اپریل 1993ء کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ یہ واضح ہے کہ اسلام آباد میں فوج طلب کرنے سے سول انتظامیہ کی ناکامی کا تاثر ابھرا ہے۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگلا اقدام کیا ہونا چاہیے۔ 
ملک میں سیاسی کشیدگی دور کرنے کے لئے حکمران جماعت کو کابینہ میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلیاں کرتے ہوئے کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رانا ثناء اللہ کی طرز پر وفاقی کابینہ کے چار وزراء کو سبکدوش کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کو تحلیل کر کے گورنر راج نافذ کرنے سے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے اس جارحانہ اقدام سے عمران خان کے 14اگست کے احتجاجی لانگ مارچ کی شدت ماند پڑ جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت فوج طلب کرنے کا فیصلہ واپس لے کیونکہ اسلام آباد میں آرٹیکل 245کے تحت فوج کو بلوانا درست نہیں۔ احتجاج کرنا، لانگ مارچ کا اہتمام کرنا اور جلوس نکالنا سیاسی جماعتوں کا حق ہوتا ہے اور وہ پُرامن رہنے کا وعدہ کر رہے ہیں ۔ صرف جلوس نکالنے کی وجہ سے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دینا کسی صورت مناسب نہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے نااہل مشیروں کی سازشی تھیوری کے تحت اقدام سے تصادم کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ جب تک آرٹیکل 245کا اطلاق رہے گا اس وقت تک بنیادی حقوق معطل رہیں گے۔ اس وقت آئین کے آرٹیکل 245کے خلاف عدالتوں میں دائر درخواستوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا‘ لیکن جیسے ہی یہ مدت ختم ہو گی‘ ماضی کی روایات کے مطابق یہ سب درخواستیں سماعت کے لئے منظور کر لی جائیں گی اور نواب اکبر بگٹی اور لال مسجد کے سانحات کی طرز پر سر پر تلوار لٹکتی رہے گی۔ افواجِ پاکستان کی طلبی کا قدم سنگین صورتِ حال میں ہی اٹھایا جاسکتا ہے اور یہی آئین کے آرٹیکل 245کی روح ہے۔ موجودہ نارمل حالات میں آرٹیکل 245کا نفاذ حقائق کے برعکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ سول انتظامیہ کی معاونت کے لئے صرف اسلام آباد میں فوج کیوں طلب کی گئی جبکہ خطرات تو پورے ملک میں ہیں۔ اگر 14اور 15اگست کے دوران عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لشکر انقلاب کے دبائو میں آکر مذاکرات کی دعوت مسترد کر دی اور غیر معینہ مدت کے لئے آزادی مارچ پر مصر رہے تو خطرناک منظرنامہ سامنے آنے کا خدشہ ہے۔ ڈیڈ لاک یا وزیراعظم کی جانب سے مستعفی ہونے یا قومی اسمبلی تحلیل کرنے سے انکار کی صورت میں فوجی مداخلت خارج ازامکان نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ہرگز مذاکرات نہیں کریں گے جنہیں سانحہ ماڈل ٹائون میں فریق تصور کیا جارہا ہے۔ شہباز شریف کا جوڈیشل کمیشن میں یہ بیان کہ وہ آپریشن کے بارے میں آگاہ تھے اور نہ ہی ان کی منظوری لی گئی‘ حیرت انگیز ہے۔ چیف ایگزیکٹو پنجاب کے حوالے سے افسران کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا تو وزیراعلیٰ مستعفی ہو سکتے ہیں جبکہ رانا ثناء اللہ کے گرد عدالتی گھیرا تنگ ہو جائے گا۔
وزیراعظم نوازشریف محفوظ راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں نادان دوستوں سے لاتعلقی اختیار کرنا پڑے گی۔ انہیں وفاقی کابینہ میں اپنی پارٹی کی درمیانی قیادت کو آگے لانا اور موجودہ کابینہ کے بیشتر وزرا کو فارغ کرنا ہو گا‘ وفاقی بیوروکریسی میں لاہور گروپ کو معطل کر کے انہیں او ایس ڈی بنا کر محبِ وطن، عوامی ترجمان کی حامل بیورو کریسی کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ ان تمام افراد کو حکومت سے علیحدہ کرنا ہو گا جو بالواسطہ ، بلاواسطہ ان کے رشتے دار ہونے کے دعویٰ دار ہیں۔ کابینہ میں کشمیری نژاد وزراء کو فوری طور پر سبکدوش کرنا ہوگا‘ سانحہ ماڈل ٹائون کو مدنظر رکھ کر اور ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے لاکھوں پیروکاروں کے غم میں شریک ہونے کے لئے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو مکمل اختیارات تفویض کرنا بھی بحران سے نکلنے کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم کے ان اقدامات سے ملک میں سیاسی ، انتخابی اور بدنظمی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں