"KDC" (space) message & send to 7575

قومی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات

تحریکِ انصاف اور رائے عامہ کے بعض ماہرین نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی میں مبینہ دھاندلی کا الزام اہم شخصیات پر بھی عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں تحریکِ انصاف کی دوسری صف کے رہنمائوں نے امریکہ، متحدہ عرب امارات ، برطانیہ کی ایم آئی اور بھارت پر بھی دھاندلی میں شریک ہونے کا الزام لگایا ہے۔ تحریکِ انصاف کے دوسرے درجے کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان رات گئے جنرل کیانی سے ملتے رہے ،جس کے نتیجہ میں انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کرنے کا موقع ملا ۔امید ہے کہ عمران خان 11مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کرانے والے مزیدکرداروں کو جلد بے نقاب کریں گے ،جس سے پاکستان کے قومی انتخابات کی عمارت زمیں بوس ہو جائے گی۔
جنرل (ر) کیانی کے بارے میںرائے عامہ کے بعض ماہرین کے تحفظات درست نہیں۔جنرل کیانی 11مئی 2013ء کے انتخابات میں، اکتوبر 1993ء کے انتخابات کی طرز پر الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا چاہتے تھے، لیکن کمیشن اور نگران حکومت نے آرمی چیف کو آئین کے آرٹیکل 245کے تحت اختیارات تفویض نہیں کئے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ،جنرل کیانی سے ملاقات کرتے رہے لیکن انہوں نے آرمی چیف سے انتخابات میں بااختیار طریقے سے معاونت نہیں لی۔ ان کے اس طرز عمل کے باعث فوجی دستے پولنگ سٹیشن سے دور کھڑے نظر آئے ۔انہیں پولنگ سٹیشن پر پولیس کی مبینہ کارروائی کو روکنے کے بھی اختیارات نہیں تھے۔ یورپی یونین کے مبصرین نے بھی مستقبل کی حکومت کے لئے راہ ہموار کی اور وہ بھی الیکشن میں آرمی کی معاونت کے خلاف ،سول سوسائٹیوں کے ذریعے ،راہ ہموار کرتے رہے۔ یورپی یونین کے مبصرین کا کردار بھی انتہائی پر اسرار رہا۔ جنہوں نے ان سول سوسائٹیوں کے ، جنہیں یورپی یونین سے مالی فوائد حاصل تھے ، ذریعے ایسا ماحول پیدا کرا دیا کہ فوج بے بس اور تنہا کھڑی نظر آئی۔ جنرل کیانی 18فروری2008ء کے انتخابات میں بھی شفاف اور غیر جانبدارانہ مانیٹرنگ کراتے رہے لیکن 11مئی 2013ء کے انتخابات میں نگران حکومت نے انہیں الگ تھلگ رکھا۔ 
شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آپریشن میں پاک فوج کو قوم کی بھرپور حمایت سے پے درپے کامیابیاں حاصل ہوتی چلی جارہی ہیں۔ یہ کامیابیاں ریاست کی کامیابی ہیں جن سے ریاست مضبوط و مستحکم ہو گی ۔وزیرستان اور شمالی علاقوں پر ریاستی رٹ قائم ہونے سے اس حسین خطے سے غیر ملکی افراد (دہشت گردوں )کی آماجگاہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ دوسری طرف میڈیا کے ایک حصے نے حسب روایت جنرل اشفاق پرویز کیانی کے چھ سالہ دور پر باقاعدہ تنقید شروع کردی ۔اسی سلسلہ میں انہوں نے مسلح افواج کے انتہائی فعال، دور اندیش اور دانشور سابق ترجمان میجر جنرل (ر) اطہر عباس کے ذریعے، جنرل کیانی کی چھ سالہ بحیثیت آرمی چیف کارکردگی کو متنازع بنانے کے لیے غیرملکی میڈیا سے گفتگو کا آغاز کرا دیا۔وزیرستان اور شمالی علاقوں میں فوجی آپریشن نہ کرنے پر جنرل کیانی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کی مہم شروع کر دی گئی ۔اس مہم کے پس پردہ مقصد کیا ہے ا س کا جائزہ لیا جانا چاہیے ۔کردار کشی کی اس مہم میں اسی میڈیا کے وہی طاقتور اور بااثر ماہرین شامل ہیں جو پاک فوج کی تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ میجر جنرل (ر) اطہر عباس کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کے متعلق اور ان کی اجتماعی سوچ پر مبنی قومی پالیسی کے متعلق بیان،غیر ملکی نشریاتی اِدارے پر نہیں دینا چاہیے تھا۔ جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو اس انٹرویو کے مضمرات کا جائزہ میمو سکینڈل کیس کی مانند لیناچاہیے۔ جب حسین حقانی نے فوج کی پالیسیوں میں ابہام پیدا کرنے کیلئے منصور اعجاز کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی ،جسے جسٹس افتخار محمد چودھری نے کمال ہوشیاری سے مفاد پرستانہ پالیسی کے تحت ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا۔ لہٰذا پاکستان کے حساس اِداروں کو جنرل اطہر عباس کے اِس طویل انٹرویو کے تمام مضمرات کا جائزہ
لیتے ہوئے سازش کو منظر عام پر لانا چاہیے۔ کیونکہ جنرل کیانی اوران کی قیادت کے حوالے سے ان کے بیان کی وجہ سے فوج کے اِدارے کو فائدہ ہو گا اور نہ ہی شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن میں کوئی مدد ملے گی۔ انتہائی اہم فیصلوں میں شامل سابق سینئر فوجی آفیسران کو رازداری سے کام لینا چاہیے اور موجودہ صورتحال میں زبان کی ذرا سی لغزش سے قومی وقار کو نقصان پہنچنے کا احتمال اور سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا میڈیا کو اطہر عباس کا یہ بیان نظر انداز کر دینا چاہیے تھا،کیونکہ انہوںنے اُس جنرل کے متعلق مضحکہ خیز بیان دیا جس کا جمہوریت ، قانون اور آئین کی بالادستی کے لئے کردار بے مثال رہا اور جس نے پاکستان کے خلاف عالمی اور علاقائی دشمنوں کے مخصوص عزائم کو موثر طور پر ناکام بنا دیا ۔ انہوں نے امریکہ کے اثر و رسوخ اور اس کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کو روک دیا تھا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا لب و لہجہ حکومت کیلئے انتہائی مشکلات پیدا کر دے گا۔ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹائون کی حکمت عملی کے بارے میں لا علم تھے ،انہوں نے گولی چلانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اگر میاں شہباز شریف اس سانحہ سے بے خبر تھے ، اگر یہ فیصلہ میاں شہباز شریف کا نہیں تھا تو کیا یہ فیصلہ اسلام آباد کا تھا؟ یہ بات کس قدر تشویش ناک ہے کہ بغیر کسی مجسٹریٹ کے پولیس نے گردنوں پر گولیاں چلائیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو کلاشنکوفوں سے بھون ڈالاگیا۔ گلو بٹ اور پولیس کی ہم آہنگی، کتنا وحشیانہ اور درد ناک منظر تھا۔ شریف برادران نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے جو حکمت عملی بنائی وہ کتنی سطحی ،وحشیانہ اور ظالمانہ تھی۔ سانحہ ماڈل ٹائون سے میاں شہباز شریف کے نادان دوستوں میں سے ''مسعود محمود ‘‘کھڑے ہوں گے اور پولیس کے جن اہل کاروں نے وحشیانہ فائرنگ کی تھی ان میں مسٹر بھٹو کے وعدہ معاف گواہ ''رانا ارشد ‘‘اور ''ایس پی عباس ‘‘سامنے آئیں گے ۔شریف برادران کے ارد گرد گھیرا تنگ ہو جائے گا، کیونکہ 17جون کو جو کچھ لاہور میں ہوا یہ سانحہ پنجاب حکومت کے لئے عبرت کا نشان بننے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ اس خونی سانحہ کے اصل کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے جس تیزی سے عبرت کا نشان بنانا چاہیے تھا، اب تک کچھ نہیں ہوا ۔ جب تک اصل کردار منظرِ عام پر نہیں آتے اس وقت تک وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے بارے میں گہرے سائے منڈلاتے رہیں گے ۔اگر حالات 12اکتوبر1999ء یا 5جولائی 1977ء کی نہج پر پہنچے تو گلو بٹ کی وعدہ معاف گواہی سے پاکستان کی سیاست سے ایک خاندان کی موروثی حکومت ہمیشہ کیلئے عبرت کا نشان بن جائے گی۔
پاکستان کے ایک میڈیا ہائوس نے جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کا الیکشن کے حوالہ سے جس انداز سے انٹرویو نشر اور شائع کیا ہے ۔ اس میں آف دی ریکارڈ کے حوالہ سے وہ صحیح حقائق بیان کر چکے ہوں گے ۔On the Record میں تو انہوں نے اہم معاملات پر سے پردہ اُٹھا دیا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں