"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا مستعفی ہونا قومی مفاد میں ہے

پاکستان کے بے بس، مجبور، افلاس زدہ اور لاچار عوام ہر دور میں اپنے رہنمائوں کے نعروں، وعدوں اور دعوئوں پر اعتبار کر کے بے بہا قربانیاں دیتے اور اپنے فولاد صفت ہونے کا حیرت انگیز مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن ماضی و حال کے آئینے میں بظاہر دکھائی یوں دیتا ہے کہ ان کے مقدر میں صرف تکالیف برداشت کرنا اور اچھے دنوں کے خواب دکھانے والے رہنمائوں کے ذاتی اور گروہی مقاصد کا ایندھن بنتے رہنے کے سوا کچھ نہیں۔ خوابوں کے سوداگروں نے ہر حسین عملی تعبیر صرف اپنے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔ برسوں سے یہی ہوتا آرہا ہے۔ عوام تحریکوں میں جان، مال ، وقت، صلاحیتوں اور توانائیوں کی قربانیاں دیتے ہیں، اچھے وقتوں کی اُمیدیں دلانے والے قومی رہنمائوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھاتے ہیں مگر اس تبدیلی کے ثمرات اور نتائج ایک خاص طبقے تک محدود رہتے ہیں۔ ہماری تقریباً سات عشروں پر محیط تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ لانگ مارچ، تحریکِ نجات ، ٹرین مارچ اور دوسرے احتجاجی مظاہرے کرنے والے لیڈر ملک کے طول و عرض سے آنے والے پارٹی کارکنوں اور ہمدردوں کو نامعلوم وجوہ سے آخری لمحوں میں تنہا چھوڑ کر غائب ہوجاتے رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریکیں چلانے والے قومی رہنمائوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے نتائج کے بعد ان سے خفیہ معاہدہ کرلیا۔ اِسی طرح ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ہماری اس وقت کی اپوزیشن خفیہ طور پر حمایت کرتی رہی۔
جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کے بعض رہنمائوں نے حکومت وقت سے ساز باز کر رکھی تھی۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ آمریت مخالف نعروں کو بنیاد بنانے والے اکابرین کا اپنا طرز عمل آمروں سے مختلف نہ رہا۔ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والوں کی امداد میں خورد برد کا سلسلہ سوات میں زلزلہ کی غیر ملکی امداد سے شروع ہوا اور وطنِ عزیز کی رسوائی ہوئی۔
تبدیلی، فطرت کا ایسا عمل ہے جو ہر لمحے جاری و ساری رہتا ہے۔ جمہوری نظام کو دنیا بھر میں پذیرائی اسی لیے حاصل ہے کہ اس میں تبدیلی اور اصلاح احوال کا نہ رکنے والا سفر جاری ہتا ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کو نعرہ بنانے والوں کی اپنی زندگی اور طرزِ عمل اگر ان نعروں سے ہم آہنگ نہ ہو تو عوام کے مقدر کے حوالے سے خدشات جنم لیتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں بیک وقت انقلابی اور آزادی مارچ کا مشترکہ طور پر یلغار کرناپاکستان کی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔ قائدین کے عزائم، ارادے اور مقاصد اپنی جگہ ٹھوس بنیادوں پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ حکمران کارکنوں کے جذبے اور ایثار کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں سیاسی سوچ یکساں پائی جاتی ہے۔ اسلام آباد میں برستی بارش میں لاکھوں کارکن جس 
استقامت سے اپنے قائدین کے دیدار اور گفتار کے لیے انتظار کرتے ہیں، اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان تاریخی لمحوں میں اب پاکستان کے نوجوانوں کی قربانیاں، جدوجہد اور ایثار کبھی رائیگاں نہیں جائیں گے، ان کے جذبے اور جدوجہد کے ثمرات جلد ملنے والے ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کے طرزِ حکومت سے ان کے بیشتر رفقا، کابینہ اور پارلیمنٹ میں ان کے اپنے ارکان بھی معترض ہیں۔ ان کے اپنے حلقہ نیابت کے علاوہ ان شہروں میں جہاں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کامیابیاں حاصل کی تھیں، کارکن اپنی قیادت کی لاتعلقی اور بے اعتنائی پر شاکی ہونے کے بعد اب مشتعل ہونے کی حد تک ناراض ہیں۔ چوہدری نثار علی خان مبینہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کے معاندانہ رویے سے شاکی ہیں،سننے میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ستر سے زائد ارکان اسمبلی ہیں۔ 
16اگست کی دوپہر چار بجے لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج نے ایک اہم فیصلہ د یاجس میں ماڈل ٹائون کی پولیس کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ سمیت اکیس افراد کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرے۔ قوم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے سے واقف ہے، وہ بخوبی جانتی ہے کہ کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں جسٹس مشتاق حسین ، شیخ آفتاب ، جسٹس چوہان، جسٹس نسیم حسن شاہ، بعدازاں چیف جسٹس پاکستان انوارالحق اور ان کے قریبی جج ان کو پھانسی گھاٹ تک لے گئے۔ اب جو مقدمہ نواز شریف اور ان کے رفقاء کے خلاف درج کرنے کا حکم صادر ہوا ہے اس کے اثرات اس وقت ظاہر ہوں گے جب میاں برادران اقتدار میں نہیں ہوں گے۔ تاریخ کا یہ فیصلہ ہے کہ جب بھی کوئی حکومت عوام سے ٹکرائو یا تصادم کا راستہ اختیار کرتی ہے تو نقصان میں ہمیشہ حکومت ہی رہتی ہے۔ جیسے جیسے یہ قافلے ایوانِ اقتدار کی طرف بڑھیں گے ویسے ویسے ان حلقوں کے مغالطے بھی ہوا میں تحلیل ہوتے جائیں گے جن کو حکمران جماعتوں کی طرف سے نوازا جارہا ہے۔ میڈیا سے وابستہ بعض حضرات قوم کو گمراہ کر کے مجرمانہ اور ضمیر فروشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ یہ تاریخی احتجاج اور لانگ مارچ ختم ہونے کے بعد سارے معاملات ختم ہو جائیں گے۔ ایسا سوچنے والے تاریخ سے نابلد ہیں۔ عوامی طاقت کے اتنے بڑے مظاہرے کے اثرات سے وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑے گا۔ صورت حال انتہائی خطرناک ہوتی جاری ہے۔ مشکل کے ان لمحات میں نواز شریف کی حکومت کا سورج غروب ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ماڈل ٹائون کا سانحہ موجودہ حکومت کا تعاقب کر رہا ہے۔ نوازشریف نفسیاتی طور پر منتقم مزاج شخصیت کے حامل ہیں، ان میں برداشت کا حوصلہ نہیں ہے اور جب وہ حکومت میں آجائیں تو انتقام لینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی لیے ان کے عسکری قیادت سے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی مشترکہ کاوشوں سے حکمران خاندان کی موروثی سیاست ختم ہونے کے قریب ہے۔ وزیراعظم نوازشریف جب یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو ان کی کیفیت دیدنی تھی اور یہی کیفیت ان پر اس وقت بھی طاری تھی جب وہ آرمی چیف کے ساتھ سلامی لے رہے تھے، ان کے چہرے پرحیران کن اداسی تھی۔ اندرونی طور پر ان کی حکومتی رٹ ختم ہوتی جارہی ہے، اگر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان ریڈزون کے مختلف سروں پر براجمان رہے تو پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی ادارے ان کے محاصرے میں رہیں گے اور حکومتی رٹ برائے نام رہ جائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں