"KDC" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش فارمولا آزمایا جا سکتا ہے؟

وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے بامقصد مذاکرات نہ کئے اور حالات خراب ہوئے تو تیسری قوت حرکت میں آسکتی ہے اور 2006ء میں بنگلہ دیش میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی طرز پر حکومت قائم کر کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو نگران صدر مملکت بنایا جاسکتا ہے۔ افواجِ پاکستان کے چوبیس گھنٹوں میں دو اہم بیانات سیاسی قائدین اور حکومت کے لئے ایک وارننگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 
تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سینئر ممبر جسٹس (ر) ریاض کیانی، نجم سیٹھی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چند سینئر افسران سمیت دیگر محکموں کے سینئر افسران 11مئی 2013ء کے قومی انتخابات کی ریکارڈ دھاندلی میں ملوث رہے ہیں‘ جنہیں آئین اور قوانین کے مطابق سزا دی جائے۔ عمران خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج خلیل الرحمن رمدے کو گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کا مرکزی کردار قرار دیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جسٹس رمدے کی زیر نگرانی الیکشن سیل قائم تھا‘ جس نے پنجاب میں ریٹرننگ افسران کو کنٹرول کیا اور انہوں نے ہی 11مئی 2013ء کی رات سوا گیارہ بجے وکٹری تقریر کروائی۔
بدقسمتی سے الیکشن کمیشن اپنی کارکردگی اور متنازعہ کردار کے حوالے سے مارچ 1977ء کے دہانے پر کھڑا ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کے سینئر افسران کے کردار پر انگلی اٹھائی گئی۔ ستم ظریفی یہ کہ الیکشن کمیشن بدستور حالتِ انکار میں ہے جب کہ دو اہم سیاسی جماعتیں مستقبل کے انتخابات کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے لانگ مارچ کر رہی اور دھرنے دے رہی ہیں‘ جن کے نتیجہ میں ایک ایماندار، شفاف، جوابدہ اور مؤثر انتخابی نظام کے لئے حقیقی اور وسیع تر اصلاحات کی اُمیدیں مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں۔ 
انتخابات کے پندرہ ماہ بعد الیکشن کمیشن بالکل اِسی جگہ کھڑا نظر آرہا ہے جہاں وہ 11مئی 2013ء کے بعد کھڑا تھا یعنی حالتِ انکار۔ وزیراعظم نواز شریف کے انتخابی حلقہ سرگودھا کے ایک پولنگ سٹیشن میں ڈالے گئے 8ہزار ووٹوں کو ٹائپ کی غلطی کہہ کر نظر انداز کر دینا، قطع نظر اس کے کہ انتخابی نتائج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ایک بد ترین فیصلہ تھا جو الیکشن کمیشن نے ایسے شکایت کنندہ کی شکایت پر کیا جو پاکستان میں دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت کا نمائندہ تھا۔ یہ وضاحت اس مؤقف سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے جو الیکشن کمیشن نے 4اپریل 2013ء کو کاغذاتِ نامزدگی داخل کروانے کے وقت اختیار کیا تھا اور ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ریٹرننگ افسران کا تعلق عدلیہ سے ہے اور وہ غیر جانبدارانہ طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن ہدایات یا احکامات جاری نہیں کر سکتا کہ کاغذاتِ نامزدگی پر کس طرح فیصلہ کرنا ہے۔ اس طرح ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے آزاد ہو گئے۔ اس موقف کے جو بھیانک نتائج نکلے‘ ان کا ذکر آگے آئے گا۔
عوامی نمائندگی ایکٹ76کی دفعہ (6) (5) 7 اور اِسی ایکٹ کی دفعہ 91کے تحت غلطی کے مرتکب افسران کو سزا دینے تک محدود ہے۔ پورے انتخابی عمل کے دوران الیکشن قوانین کی مذکورہ اور کئی دیگر شقوں کا یا تو نفاذ نہیں ہوا یاپھر اسے خفیہ رکھا گیا‘ جس کے نتیجہ میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ گئے۔ الیکشن میں بعض غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ہی ملک میں سیاسی اور انتخابی انتشار کی وجہ بنی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی زیر قیادت اپوزیشن جماعتیں اسلام آباد کی طرف مارچ کر چکی ہیں اور قوم الیکشن کمیشن کی بے عملی کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ یہ صورتحال الیکشن سے قبل‘ الیکشن کے روز اور الیکشن کے بعد ہونے والے ''کارناموں‘‘ کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی قانون تحت ایک حلقے سے جنرل پرویز مشرف کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو گئے اور دوسرے میں مسترد۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ (AA) 103کے تحت دوسرے نمبر پر آنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک اُمیدوار کی شکایت پر حافظ آباد حلقے میں دوبارہ الیکشن کا انعقاد لازمی ٹھہرا جب کہ اسی طرح کی دیگر الیکشن عذرداریوں کو الیکشن ٹربیونلز میں بھجوا دیا گیا۔ 266حلقوں میں سے 152میں ریٹرننگ افسران کی جانب سے نتائج کے کاغذات ہی فراہم نہ کیے گئے‘ پھر عوامی نمائندگی ایکٹ76کی دفعہ44کے تحت الیکشن کمیشن نے اب تک ان دستاویزات کو عوام کے لئے اپنی ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا۔ حالانکہ ان دستاویزات کو عوام کے سامنے لانے سے الیکشن میں بے قاعدگیوں کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ الیکشن کمیشن نے عوامی شکایات کے سلسلہ میں بے رخی کا رویہ اختیار کیا۔ اس لئے سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹیوں کی تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں رپورٹ کی گئیں۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعات 103اور 104الیکشن کمیشن کو بے پناہ اختیارات تفویض کرتی ہیں اور دھاندلیوں کے سد باب اور متاثرہ حلقوں کے نتائج کالعدم قرار دینے کے وسیع اختیارات اور طریقہ کار وضع کرتی ہیں۔ ریٹرننگ افسران نے الیکشن کے انعقاد سے ایک دن پہلے الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر تقریباً تمام حلقوں کے پولنگ سٹیشن کے مقامات میں تبدیلی کردی‘ چنانچہ بے چارے ووٹرز سارا دن اپنے اپنے پولنگ سٹیشنوں کی تلاش میں سرگرداں رہے اور اس دوران انتخابی عملے نے خان عبدالقیوم خان کے 1954ء کے انتخابات کی طرز پر جھرلو پھیر دیا۔ 93حلقوں میں پولنگ سکیموں کو حتمی شکل دینے کے بعد ان میں تبدیلی کی گئی۔ نتائج کے VIVفارمزکئی طرح کے پیش کئے گئے۔ یہ ایسے سنگین مسائل ہیں جن کی الیکشن کمیشن کے متنازعہ افسران سے تحقیقات کی جاسکتی ہے۔ 
11مئی 2013ء کے انتخابات میں ووٹوں کا ریکارڈ تعداد میں مسترد کیاجانا بھی دھاندلی کی ٹیکنالوجی کے زمرے میں آتا ہے ۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں تقریباً پندرہ لاکھ ووٹ ایک خصوصی حکمتِ عملی کے تحت مسترد کئے گئے۔ اس کی تجویز مجوزہ اور مبینہ الیکشن سیل کے ان ارکان نے دی تھی جن کی خدمات سول سوسائٹی کی ایک نام نہاد تحقیقی غیر سرکاری تنظیم کو حاصل ہیں اور جو الیکشن ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں۔ خاص طور پر 35حلقوں میں ایسا کیا گیا جن میں 15پنجاب، 7بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختون خوا کے 5اور فاٹا کے 3 حلقے شامل تھے۔ 
(باقی صفحہ 13پر)
ان حلقوں میں جتنے ووٹوں سے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی اس سے زیادہ ووٹ وہاں مسترد کر دیے گئے۔ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ 15لاکھ افراد ووٹ ڈالنے آئے مگر ان کے ووٹ شمار ہی نہیں کئے گئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اسسٹنٹ پریذائڈنگ افسران نے ان کے بیلٹ پیپرز کی پشت پر دستخط نہیں کئے تھے یا مہر نہیں لگائی تھی۔ ایسی صورت حال میں متعلقہ ریٹرننگ افسران کے حلقے کے پریذائڈنگ افسران کو طلب کر کے اصل حقائق جاننے کے لئے الیکشن کمیشن نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 91کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ اور جن حلقوں کی پولنگ سکیمیں الیکشن سے ایک دو روز قبل تبدیل کر دی گئیں‘ ان حلقوں کے ریٹرننگ افسران کو دفعہ 91کے تحت سزا کیوں نہیں دی گئی؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی انا ختم کرتے ہوئے انتخابی نظام میں موجودہ خامیوں کا اعتراف کر لیتا تو 14اگست کے احتجاج کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
نواز شریف‘ سردارایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کے حلقوں میں پولنگ سٹیشنوں پر ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ نے ایل ڈی اے کا عملہ تعینات کروا دیا اور متعلقہ ریٹرننگ افسران نے ایل ڈی اے کے تقریباً40ہزار کے لگ بھگ اہلکاروں کی تعیناتی میں الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کر دیا۔ اِس پُر اسراریت کا اہم پہلو یہ ہے کہ ایل ڈی اے کے عملہ کی بطور پولنگ سٹاف کی تعیناتی کے بعد ان کو خفیہ ہدایات ڈیفنس اتھارٹی کے قریب کسی فارم میں دی گئیں۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں ان کے تمام کوائف موجود ہیں کیونکہ سرکاری طور پر جو اعزازیہ دیا جاتا ہے اس کے مطابق ان کے ریکارڈ کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے جو خصوصی سیاہی پی آر سی بنوائی تھی اس کے پیکٹ کھولنے کے بعد اس کی میعاد 6گھنٹے رکھی گئی تھی جب کہ پولنگ کے اوقات 9گھنٹے تھے۔ جونہی خصوصی سیاہی کا پیڈ کھلتا ہے‘ چھ گھنٹے کے بعد اس کی افادیت ختم ہوجانا ٹیکنیکل مجبوری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ خصوصی سیاہی اور عام پیڈ کے پیکٹ ایک جیسے تھے۔ خصوصی سیاہی کے پیکٹ کی علیحدہ شناخت نہ ہونے کی وجہ سے دونوں پیکٹ آپس میں خلط ملط ہو گئے۔ اب اگر دیانتداری سے پولنگ بیگ کھولے جائیں تو ان دونوں پیکٹوں کے نمونوں کی جانچ پڑتال کروائی جاسکتی ہے۔ لیکن پندرہ مہینوں کے بعد متنازعہ پولنگ سٹیشنوں اور حلقوں کے ریکارڈ میں نادرا کے ڈائریکٹر جنرل آپریشن کے ذریعے بنیادی تبدیلیاں کروائی جاچکی ہیں۔ موصوف نے 12جولائی 2013ء کو ان حلقوں کے متنازعہ وزراء سے خفیہ ملاقات کی اور منسٹر کالونی جانے کے لئے تین گاڑیاں تبدیل کیں۔ اِسی طرح الیکشن کے ریکارڈ کا بغور جائزہ لیا جائے تو بیلٹ پیپرز اکائونٹ کے مجوزہ فارم اور پولنگ سامان کی ترسیل اور واپسی کے ریکارڈ سے دھاندلیوں کے ثبوت سامنے آسکتے ہیں۔ بشرطیکہ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں تاریخی دھاندلیوں کا اِدارک کرنے کے لئے وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو جنرل ضیاء الحق نے 7مارچ1977ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کا کھوج لگانے کے لئے اپنایا تھا اور چھ ماہ کی محنت و کاوش سے ایک ہزار صفحات پر مبنی رپورٹ تیار کروائی تھی۔
وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جوڈیشل کمیشن کا جو عندیہ دیا ہے‘ اب معاملات اس کے اختیارات سے باہر ہیں۔ تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے اسلام آباد میں لانگ مارچ اور انقلابی مارچ کے باعث وفاقی دارالحکومت مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اسلام آباد کا بیرونی دنیا سے حکومتی سطح پر رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ اگر یہ احتجاج چند روز باقی رہ گیا تو تیسری قوت کے لئے خاموش تماشائی بنے رہنا مشکل ہو جائے گا اور یہ سپریم کورٹ سے بھی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ریفرنس بھجواسکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں