"KDC" (space) message & send to 7575

پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے نام

جنرل یحییٰ خان نے یکم جولائی 1970ء کو ایل ایف او کے تحت انتخابی نظام بدنیتی اور مخصوص سیاسی جماعتوں کے مفاد میں نافذ کیا۔ اُن کا یہ نظام متحدہ پاکستان کے عوام میں بے چینی‘ انتشار اور مایوسی پیدا کرنے کا سبب بنا۔ ون یونٹ کی تحلیل کے بعد چار صوبوں کی بحالی اور صوبوں کی ازسرنو حد بندی سول بیورو کریسی کے ڈومی سائل کے مطابق تبادلے، اثاثوں کی تقسیم اور چاروں صوبوں میں گورنرز کا تقرر اور ان کی کابینہ کے ایسے مرحلے درپیش تھے جن کی وجہ سے انتخابی نظام عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ مرکزی وزیر اطلاعات و قومی امور نواب زادہ شیر علی نے ملک میں انتہا پسند دائیں بازو کی جماعتوں کی سرپرستی کی۔ موصوف کی ''نظریاتی سرحدیں‘‘ کے نام سے نئی اصطلاح نے مشرقی پاکستان کے عوام میں بدگمانی اور شکوک و شبہ کی بنیاد ڈالی۔ مغربی پاکستان میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں باہم متصادم ہو گئیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکاتی پروگرام کو نظریہ پاکستان کے تصور سے ٹکرا دیا گیا۔ اِسی وجہ سے انتخابی عمل شہریوں اور سیاسی جماعتوں میں دلچسپی کے فروغ کا سبب نہ بن سکا۔ 7دسمبر 1970ء کے انتخابات کے بعد سے ہونے والے آٹھ انتخابات کے نتائج سیاستدانوں کے لئے قابل قبول نہیں رہے اور ان الیکشنوں کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومتوں کی قانونی حیثیت متنازع رہی۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے کہ پاکستان کا انتخابی نظام‘ غیر شفاف، جانبدار اور غیر مؤثر ہے۔ حکومت کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدواروں کو جتوا سکے۔ 
انتخابی عمل عموماً غیر مساوی ہوتا ہے کیونکہ فرض کیا گیا کہ غیر جانب دار چیف الیکشن کمشنر ہمیشہ کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کا کام جمہوریت کی بقاء اور ملکی استحکام کے لئے نہایت اہم ہے اور اسحاق ڈار کو بطور چیئرمین انتخابی اصلاحات کا ادراک بھی ہے۔ انہیں چاہیے کہ 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے انتخابات کے نقائص کو مدنظر رکھے۔ اس وقت سیاسی عدم استحکام جمہوریت پر سایہ فگن ہے۔ تحریکِ انصاف‘ پاکستان عوامی تحریک، مسلم لیگ (ق) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے الیکشن 2013ء کے حوالہ سے حکومت کی برطرفی کے لئے دارالحکومت کو مفلوج کر رکھا ہے۔ الیکشن انتظامیہ کی نا اہلی اور بے ضابطگیوں کے باعث الیکشن کمیشن صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے میں ناکام رہا۔ بعد ازاں ہارنے والے امیدواروں کی شکایات کے ازالے میں ناکامی اور الیکشن ٹربیونلز میں عدالتی مداخلت بھی اس سیاسی انتشار کا سبب ہیں۔ سیاسی قوتیں ایک بار پھر غیر شفاف ، غیر جواب دہ اور غیر مؤثر انتخابی عمل کا بوجھ برداشت کر رہی ہیں۔ انتخابات میں عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 91اور 104کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال نہیں کیا گیا۔ اس قسم کا سیاسی بحران پہلے بھی پیش آچکا ہے۔ جب محترمہ 
بے نظیر بھٹو نے 1990ء کے انتخابات کو چمک کا نام دیا تھا اسلامی جمہوری اتحاد کو مالی فوائد دلوائے گئے۔ 
اب انتخابی اصلاحات کمیٹی اور پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ انتخابی عمل کے قواعد کی از سر نو تشکیل کریں تاکہ کامیاب ہونے والے‘ ووٹروں کے حقیقی نمائندے اور اُن کی خواہشات کا عکاس ہوں۔ اصلاحات کا عمل آسان نہیں ہو گا‘ کیونکہ انتخابات کروانے والے قانون میں سقم ہیں۔ موجودہ تمام انتخابی قوانین کو نظر ثانی اور ترامیم کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان آرڈر2002ء، چیف ایگزیکٹیو آرڈر نمبر1، 2002ء کنڈکٹ آف الیکشن کمیشن آرڈر 2002ء، چیف ایگزیکٹیو آرڈر نمبر 7، 2002ء، پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء، چیف ایگزیکٹیو آرڈر نمبر 74، رولز ایکٹ74، حلقہ بندی ایکٹ74، سینٹ الیکشن 75ایکٹ شامل ہیں۔ ان مختلف قوانین کو ملا کر ایک جامع یکساں انتخابی قانون بنانا ضروری ہے جو عوام کی رسائی میں ہو اور شفافیت میں ممدو معاون ثابت ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی مزید معاملات بھی قانون سازی کی توجہ کے مستحق ہیں۔ ان میں انتخابی اِدارے کی خودمختاری، آزادی ، شفافیت، جواب دہی اور قابلِ احتساب ایسے معاملات بھی شامل ہیں۔ ان قوانین میں عوام کی یکساں نمائندگی کو یقینی بنانا، اقلیتوں اور خواتین کو درپیش اِدارہ جاتی رکاوٹوں کا خاتمہ‘ سینٹ کے الیکشن کا طریقہ کار تبدیل کرنا، سیاست و انتخابات میں بھاری رقوم کے لین دین کے کردار کو ختم کرنا‘ آئین کے آرٹیکل 226میں سینٹ کے حوالہ سے ترامیم کرنا۔ جمہوری رویہ اور انداز کے حوالے سے نوجوانوں کی انتخابی تربیت کرانا، سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو عملی تربیت دینا، سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور میڈیا کے لئے بامعنی ضابطہ اخلاق کا نفاذ اور سول سوسائٹی کی جانب سے آزاد انتخابی اصلاحات کا مقصد ایسے انتخابی نظام اور اِدارے کا قیام ہونا چاہیے جو عوام کا اعتماد حاصل کر سکے۔ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے آئینی‘ قانونی اور طریقہ کار میں تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔ 
جمہوریت صرف امریکہ میں ہی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بلکہ کم و بیش ہر ملک میں یہی صورتحال ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت میں چائے فروخت کرنے والے کا بیٹا وزیراعظم بن گیا‘ لیکن وہاں بھی ''سیاست برائے فروخت‘‘ کاروبار بن چکی ہے۔ حالیہ الیکشن کے دوران‘ بی جے پی نے مودی کو غریب عوام کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کے لئے انتخابی مہم پر پانچ کھرب روپے پھونک دیئے۔ ٹائم میگزین کے مطابق بھارت کے حالیہ الیکشن‘ امریکہ کے بعد دنیا کے مہنگے ترین تھے۔ جن میں مختلف امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر 5ارب ڈالر کے اخراجات کئے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے لوک سبھا کی نشست پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے لئے انتخابی اخراجات کی حد 70لاکھ روپے مقرر ہے۔ مگر ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ہر امیدوار نے تقریباً 20کروڑ رپے خرچ کر کے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کی۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ارب پتی سرمایہ دار متوسط طبقے کے کسی فرد پر سرمایہ کاری کرکے ا ُسے پارلیمنٹ میں پہنچاتے ہیں تو نہ صرف انتخابی اخراجات منافع سمیت وصول کرتے ہیں بلکہ اگلے الیکشن کیلئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں کارپوریٹ ڈیموکریسی ہے۔ لیکن مغربی جمہوریت اور ترقی پذیر ممالک میں نافذ بدترین جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ وہاں جمہوریت کے اثرات نچلی سطح تک پہنچتے ہیں۔ جب کہ بھارت جیسی سب سے بڑی جمہوریت میں بھی اس کے ثمرات برہمنوں اور سیاسی پنڈتوں تک محدود ہیں۔ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کو ان تمام امور پر گہری نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرنا ہوگی تاکہ عام آدمی بھی‘ انتخابات میں حصہ لے سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں