"KDC" (space) message & send to 7575

کیاحکمرانوںکا زوال قریب ہے؟

میرے خیال میں ملک کو اس غیر یقینی صورت حال سے نکالنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت کو چاہیے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کی خاطر موجودہ پارلیمنٹ سے آئین کے آرٹیکل 224میں ترمیم کروا کے نگران حکومت قائم کی جائے‘ جس کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان کو مقرر کیا جائے۔ ان کی نگرانی میں آئین کے آرٹیکل 219کی حقیقی روح کے مطابق قومی انتخابات کرائے جائیں اور یہ انتخابات انتظامیہ کے اچھی شہرت کے حامل افسران کی نگرانی میں کروائے جائیں۔ نگران صدر مملکت کی سربراہی میں مختصر ترین کابینہ بنائی جائے اور کابینہ میں کسی ریٹائرڈ جج کو شامل نہ کیا جائے۔ 
علاوہ ازیں الیکشن 2013ء کے حوالے سے تحقیقی اداروں کو ملکی اور بین الاقوامی سول سوسائٹیوں کے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ اور امریکی امداد سے چلنے والی سول سوسائٹی کی بعض تنظیمیں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سٹریٹ پاور استعمال کرتے ہوئے نوازشریف کی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکہ اور یورپی یونین کے دانشمندانہ مشوروں سے مستفید نہیں ہو رہے۔ کینیڈین حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے جس سے بقول انٹرنیشنل کرائسز گروپ شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز کو بعض دوسرے قائد نظر نہیں آ رہے‘ جنہوں نے غیرملکی شہریت حاصل کر رکھی ہے۔ 
مظاہرین سے شاہراہِ دستور کو خالی کر دینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ریمارکس دئیے گئے ''کھیل میں ایک کینیڈین شہری ہے۔ جس نے ملکہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے‘‘۔ میری ناقص رائے میں یہ ریمارکس غیر ضروری تھے۔ ان سے ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مندوں کی دل آزاری ہوئی ہوگی اور پھر وہی سوال کہ غیر ملکی شہریت تو کئی سیاستدانوں‘ ان کی اولادوں اور دیگر بڑی شخصیات نے بھی لے رکھی ہے۔ کیا وہ سب اپنے وطن کے معاملات میں حصہ نہیں لے سکتے؟ کیونکہ انہوں نے برطانیہ کی شہریت کے حوالہ سے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے‘ یا دوسرے ممالک کی وفاداری ان پر فرض ہے؟ بڑی مضبوط اور مستحکم دلیل دی جاتی ہے کہ ملک کے بنیادی ستون یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں آزاد‘ مضبوط اور مؤثر ہیں‘ جبکہ امر واقع یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے شروع ہی سے ان اداروں کو جمہوری اصولوں کے تحت اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کرنے دیا ۔ پارلیمنٹ جو جمہوریت کی علامت ہے‘ مفاد پرست سیاسی آمروں کے تسلط میں رہی جبکہ ماضی میں انصاف کے ادارے بھی آمروں‘ خودپسند حکمرانوں اور بالادست طبقوں کے حلقہ اثر سے پوری طرح باہر نہیں نکل سکے تھے۔ 
بہرحال پاکستانی عوام کو موجودہ سیاسی، انتخابی اور معاشی بحران کے گرداب سے باہر نکالنے کے لئے موجودہ پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات کی تیاری اور منظوری کی غرض سے قائم رکھا جائے‘ جبکہ وزیراعظم کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ وزیراعظم کی موجودگی میں انتخابی دھاندلی کی حقیقی معنوں میں تفتیش نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ وزیراعظم کی حیثیت سے ان کے سپریم جوڈیشل کمیشن کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کا قوی امکان ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دارالحکومت میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاجی جلسے جلوسوں سے پیداصورتحال پر عسکری حلقوں کی تشویش کے بارے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو گزشتہ روز نرم الفاظ میں آگاہ کرنے کی روایت پر عمل کیا جو جنرل ضیاء الحق کی جون 1977ء میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات سے شروع ہوتی ہے۔ آرمی چیف نے یقینا ملک میں افراتفری اور شاہراہ دستور پر احتجاجی دھرنوں کے معاملات کو جلد از جلد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہو گا۔ اس ملاقات کے فوراً بعد وزیراعظم نواز شریف نے نام نہاد جمہوریت کے تحفظ کے نام پر عاصمہ جہانگیر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ حالانکہ وژن اور خلوص کا تقاضا تھا کہ وہ فوراً عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کے لئے خود ڈرائیونگ 
کرتے ہوئے چلے جاتے۔ جیسا کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاء الحق کی ملاقات کے بعد مولانا مودودی اور مولانا مفتی محمود سے ملنے کے لئے آمادہ ہو گئے تھے۔
سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے متعلق سنگین ریمارکس سے حالات کافی خراب ہو گئے ہیں۔ وزارتِ اعلیٰ اور پنجاب کی حکومت پر خطرات کے بادل چھاگئے ہیں۔ ہائی کورٹ نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت 21افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ اگر وزیراعظم اور دیگر افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو موجودہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون اور الیکشن میں خیانت کے باعث ن لیگ کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ عروج سے زوال کی طرف سفر شروع ہو چکا ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے حامیوں نے سپریم کورٹ، ایوانِ صدر ، ایوان وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی کی تو سانحہ ماڈل ٹائون کی طرز پر کارروائی ناممکن نظر آتی ہے کیونکہ پولس کا مورال نچلی سطح پر ہے اور لال مسجد اور نواب اکبر بگٹی کے سانحہ کے بعد افواج پاکستان بھی آگے بڑھنے کے لئے قانونی جواز طلب کریں گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں