"KDC" (space) message & send to 7575

قومی مفاد

افواجِ پاکستان نے حکومت کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی صورت اپنے ہم وطنوں کے خلاف انتہائی اقدام نہیں کریں گی کیونکہ یہ ملک کا دفاع کرنے والی قومی افواج ہیں۔ واضح رہے کہ جنوری تا مارچ 1969ء فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ملک گیر عوامی احتجاج‘ مولانا بھاشانی کی گھیرائو جلائو تحریک اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک کے دوران بھی افواجِ پاکستان نے عوام پر گولیاں نہیں برسائیں اور فوجی حکام غیر جانبداری سے حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ موجودہ سنگین صورتِ حال کے پیشِ نظر عسکری قیادت نے وزیراعظم نواز شریف کو پریس ریلیز کے ذریعے ملکی مفادات میں مشورے بھی دئیے اور بعدازاں انہیں بتا دیا تھا کہ فوج خون ریزی سے گریز کرے گی اور جاری سیاسی کشمکش میں کسی صورت ملوث نہیں ہو گی کیونکہ یہ سیاستدانوں کا اپنا دائرہ عمل ہے۔ 
غیر ملکی ذرائع نے خبر نشر کی تھی کہ 28اگست کو جنرل راحیل شریف سے اپنی ملاقات کے دوران وزیراعظم سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالہ سے ایف آئی آر درج ہوجانے پر کافی پریشان تھے۔ قتل کے مقدمہ میں دفعہ 302 کے بارے پنجاب کے مرحوم انسپکٹر جنرل پولیس رائو عبدالرشید نے ایک بار کہا تھا کہ اگر دفعہ 302کی ایف آئی آر کسی تن آور درخت پر چسپاں کر دی جائے تو وہ بھی چند دنوں میں سوکھ جاتا ہے۔ لہٰذا اسی خوفناک کیفیت میں وزیراعظم نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاجی دھرنوں کا مسئلہ حل کرنے کے لئے آرمی چیف سے مدد مانگی تھی۔ بادی النظر میں آرمی چیف نے یہ سمجھتے ہوئے سہولت کاری کا کردار قبول کیا کہ وزیراعظم کشیدگی کے خاتمے کے لئے ان کی خدمات کو خیر سگالی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے وزیراعظم نوازشریف کی فہم و فراست کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ عسکری قیادت نے یہی تصور کیا کہ آرمی چیف کو مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات کی سہولت کاری کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ آرمی چیف نے یہ سمجھتے ہوئے کہ عمران خان ، طاہرالقادری اور وزیراعظم ان کی کوششوں کے نتائج کو تسلیم کریں گے‘ قومی مفاد میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ آرمی چیف کی سہولت کاری کے نتیجے میں ممکن تھا کہ وزیراعظم نوزاشریف، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایک میز پر بیٹھ کر مسئلہ کے حل کا راستہ نکال لیتے۔
29اگست کو پارلیمنٹ میں وزیراعظم نے اس حوالے سے جو بیان دیا‘ اسے فوجی حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے خیال میں وزیراعظم نے نازک وقت میں پارلیمنٹ کے فورم پر‘ اور اپنے پسندیدہ میڈیا ہائوسز کے اینکر پرسنز اور مخصوص اخبارات کے صحافیوں‘ جو ان سے 1980ء سے وابستہ ہیں‘ کے ذریعے ڈس انفارمیشن پھیلا کر عسکری اداروں اور حکومت کے درمیان خلیج کو وسیع کر دیا ہے۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں جو پالیسی بیان دیا وہ بادی النظر میں درست قدم نہیں تھا۔ اس سے قبل کارگل جنگ میں بھی انہوں نے یوٹرن لیا تھا اور غالباً اسی کے نتیجہ میں 12اکتوبر1999ء کا واقعہ پیش آیا تھا۔
دارالحکومت اس وقت شدید سنگین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ایسے موقع پر سیاسی ایشو کے لئے فوج سے رجوع کرنے اور جنرل راحیل شریف جیسے مکمل و جامع پروفیشنل سے‘ جن کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں اور جو آئینی حدود میں رہتے ہوئے بحران کا حل چاہتے ہیں‘ سے مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے متنازعہ نتائج کے حوالے سے ملک کو چند ہفتوں سے جس قسم کی تشویش ناک صورتحال کا سامنا ہے‘ وہ صرف ملکی سطح پر سنجیدہ سیاسی ، عوامی حلقوں ہی کے لئے اضطراب کا باعث نہیں ہے، بلکہ اس سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی حکومتی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ افواجِ پاکستان تصادم کی صورتحال سے بچنے کے لئے آئین کے دائرے میں مثبت سمت کی طرف بڑھ رہی ہیں؛ جبکہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اصلاحاتی فارمولے پر عمل درآمد پر اسی صورت میں آمادہ ہوں گے کہ نوازشریف مستعفی ہو جائیں اور شہباز شریف کی حکومت کو تحلیل کر کے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے سانحہ ماڈل ٹائون کے نامزد ملزموں کو گرفتار کر کے جاں بحق ہونے والوں کی داد رسی کی جائے اور عدالتی کمیشن کی سفارشات میں اگر انتخابی دھاندلیوں میں حکومت ملوث پائی جاتی ہے تو دھاندلی کے مرتکب قومی و صوبائی کے ارکان کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 77اور 82کے مطابق سزا دی جائے۔ دھاندلی کے مرتکب اشخاص کو تین سال کی سزا بھگتنی پڑے گی اور کم و بیش سات سال کے لئے وہ نااہل ہو جائیں گے۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں دسمبر 2014ء میں قومی انتخابات کا انعقاد ہو سکتا ہے۔
افواجِ پاکستان کی سہولت کاری کے ذریعے سیاسی بحران حل ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں لیکن وزیراعظم نوازشریف کے اتحادی بشمول پاکستان پیپلز پارٹی ان کو 12 اکتوبر 1999ء کی شاہراہ پر دھکیل رہے ہیں۔ حالات تصادم کی طرف جارہے ہیں۔ مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ اب مبینہ طور پر حکمران پارٹی کے اندر قیادت کی تبدیلی کی بات بھی سرگرمی سے چل رہی ہے اور ہماری اطلاع کے مطابق 98 ارکان نوازشریف سے سخت نالاں ہیں۔ وزیراعظم نے ایف آئی آر کے خوف سے آرمی چیف کو سہولت کاری کی دعوت دے کر وہی کام کیا تھا جو وزیراعظم بھٹو نے مارچ 1977ء میں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران جنرل ضیاء الحق ، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہوں کو اپنے ساتھ مذاکراتی ٹیم کی میز پر بٹھا کر کیا تھا اور قومی مفاد میں فیصلے کرنے کی سعی کی تھی۔ انہی حالات میں ہمارے بعض میڈیا پرسنز‘ جن کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں‘ نوازشریف کی حکمت عملی اور فوج کے سہولت کاری کے کردار میں ابہام پیدا کر کے ان بین الاقوامی قوتوں کے مفاد میں کام کر رہے ہیں‘ جنہوں نے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں مداخلت کی تھی۔ ان میڈیا پرسنز کو بھی ایک دن جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام جو غربت کی چکی میں پس رہے تھے‘ کے مفادات کے برعکس راہِ عمل کیوں اختیار کی؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں