"KDC" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوائیں!

موجودہ پارلیمنٹ ایک ایسے الیکشن کمشن کے ذریعے معرضِ وجود میں آئی ہے جس کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213اور 218کے مروجہ طریقِ کار کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔ 24جنوری 2013ء کو جناب ایس ایم ظفر اور ان کی ٹیم نے ڈاکٹر طاہر القادری کی نمائندگی کرتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک ،اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، چوہدری شجاعت اور دیگر اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے یہ اہم آئینی نکتہ اٹھایا تھا کہ موجودہ الیکشن کمشن کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ہی الیکشن کے 28 سالہ تجربہ کی روشنی میں محترم ایس ایم ظفر کی توجہ ادھر مبذول کرائی تھی۔ جناب فاروق نائیک پاکستان کے قابل ترین ماہر قانون ہیں۔ انہوں نے ایس ایم ظفر کی باریک بینی پر غور و خوض کرنے کے لئے چند روز کی مہلت مانگی اور جو معاہدہ ڈاکٹر طاہر القادری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے علاوہ دیگر اتحادی جماعتوں کے مابین ہوا تھا، اس کی اہم شق یہی تھی کہ الیکشن کمیشن غیر آئینی ہے۔ اسی معاہدہ کے تحت ڈاکٹر طاہر القادری اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کا اہم اجلاس لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کے سیکرٹریٹ میں 27 جنوری 2013ء کو منعقد ہوا۔ جہاں خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، مخدوم امین فہم، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری اور سید مشاہد حسین کی موجودگی میں حکومتی وفد کے سربراہ 
خورشید شاہ نے ڈاکٹر طاہر القادری کے دلائل سن کر تسلیم کیا تھا کہ الیکشن کمشن کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213 کے طریق کار کے مطابق نہیں ہوئی ؛تاہم وہ اس پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں ،اس لیے کھلم کھلا اس کا اعتراف کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔چنانچہ ڈاکٹر طاہر القادری کو مشورہ دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کر کے اس غیر آئینی تشکیل کی طرف توجہ دلائیں۔ وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل عرفان قادر مخالفت نہیں کریں گے۔دونوں اطراف کے رہنمائوں کی رضا مندی سے میں نے اس اہم میٹنگ میں غیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ لہٰذا ڈاکٹر طاہر القادری نے غالباً 22 فروری 2013ء کو سپریم کورٹ میں الیکشن کمشن کی غیر آئینی تشکیل کے بارے آرٹیکل 184(3)کی رُو سے آئینی پٹیشن دائر کر دی۔ بدقسمتی سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری قومی مفاد کے برعکس ان کی آئینی درخواست کو دوہری شہریت کی لپیٹ میں لے کر علامہ صاحب کی تضحیک کرتے رہے۔ حالانکہ دوہری شہریت کی حامل شخصیت معین قریشی کوبھی22جولائی 1993ء کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی آئینی 
پٹیشن پر فیصلہ نہیں دیا ،حالانکہ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ڈاکٹر طاہر القادری کے مؤقف کی تائید کی تھی۔ 
ان حالات میں 11مئی 2013ء کے انتخابات کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آئینی ماہرین کی نظر میں سوالیہ نشان ہیں۔ اگر سپریم کورٹ بار کونسل ملک کو آئینی بحران سے نکالنے کے لیے محفوظ راستہ دینا چاہتی ہے تو الیکشن کمشن کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کر کے اس کی آئینی حیثیت پر رولنگ حاصل کرے۔ اگر سپریم کورٹ الیکشن کمشن کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دے تو پھر قومی انتخابات کو غیر آئینی قرار دے کر از سر نو انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔ 
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے صبر آزما احتجاجی دھرنوں سے ملک کے عوام جاگ گئے ہیں۔ عسکری قیادت نے بھی حکومت کو وارننگ دے دی ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔ میاں نواز شریف نااہل وزراء کے نرغے سے نکل کر حالات کا جائزہ لیں ۔دونوں بڑی پارٹیوں کے احتجاج کو کچل دینا حکومت کے پاس آخری حربہ تھا، لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن پنجاب بھر سے منگوائی ہوئی چالیس ہزار پولیس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ۔ مظاہرین پر کبھی کسی آمر جرنیل نے بھی اس طرح طاقت کا کھلا استعمال نہیں کیا تھا جو موجودہ حکومت نے کیا۔ اس وقت پاکستان عوامی تحریک کے کارکن فاتحانہ انداز میں میدان میں موجود ہیں۔ ان کا عزم دیکھتے ہوئے میاں نوازشریف اسی طرح اقتدار سے دستبردار ہو جائیں جس طرح فیلڈ مارشل ایوب خان صدارت سے مستعفی ہو گئے تھے۔
آئین کے آرٹیکل 168کے مطابق الجھے ہوئے ریاستی معاملات کو سلجھانے کیلئے سپریم کورٹ سے رہنمائی اور مشاورتی کردار ادا کرنے کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے۔موجودہ حالات میں صدرِ مملکت کو بھی چاہیے کہ میاں نوازشریف کے سحرسے نکل کر خاموشی توڑیں ۔ اگر انہوں نے کوئی کردار ادا نہ کیا تو موجودہ فضا میں ان کی حیثیت بھی متنازع ہو جائے گی۔ انہیں چاہیے کہ سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کریں۔
پاکستان کو فرقہ واریت ،لسانیت اور دہشت گردی کا سامنا ہے، پھر غیر ملکی اور ملکی میڈیا کے منفی رویے کا چیلنج درپیش ہے۔ سی آئی اے بھی یہاں مصروف عمل ہے‘ جب کہ افغان انٹیلی جنس کی اپنی حرکتیں ہیں اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے لے کر برطانوی اور یورپی خفیہ ایجنسیوں تک نے اپنے کارندوں اور سرمائے کا رخ ادھر موڑ دیا ہے۔ ان حالات میں صدر مملکت کو چاہیے کہ سپریم کمانڈر کی حیثیت سے آئین کے آرٹیکل 168کے مطابق اپنا آئینی کردار ادا کرکے پارلیمنٹ کے بارے میں سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کریں۔
پاکستان ایک عرصے سے یورپی یونین اور دیگر بڑی طاقتوں کے مخالفانہ عزائم کا نشانہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس کا عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ایسے فرضی نقشے چھپوا کر تقسیم کر رہے ہیں جن میں آنے والی وقتوں میں پاکستان کے حصے بخرے دکھائے جاتے ہیں۔ اس لئے صدرِ مملکت کے علاوہ سیاستدانوں، مذہبی رہنمائوں، سماجی مفکروں، تاجروں، صحافیوں ، ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کو ملک کی بقا کے لیے سوچنا چاہیے۔ ملک میں جاری بحران کی وجہ سے پوری قوم فکر مند ہے۔ اس معاملہ کو جتناطول دیا جائے گا‘ جتنی تاخیر ہو گی اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور وزیراعظم نوازشریف اورپنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بالآخر مستعفی ہونا پڑے گا۔ اگر ضد اور ہٹ دھرمی جاری رہی تو یہ ملک کے لیے اچھا نہ ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں