"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات

پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے انتخابات کا جو طریقہ رائج ہے‘ وہ آہستہ آہستہ اس قدر فرسودہ ، ناکارہ اور از کار رفتہ ہو گیا ہے اور اس میں سیاسی قوت، دولت و ثروت اور برادری ازم نے اس قدر اہمیت اختیار کر لی ہے کہ اب محض اہلیت و صلاحیت کی بناء پر کسی عام ووٹر کا ایوانِ اقتدار میں پہنچنانا ممکن ہو گیا ہے کیونکہ بڑے بڑے صنعتکار، جاگیردار اور لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والے کھرب پتی کروڑوں روپوں کی اشتہاری مہمات چلا کر رائے عامہ کو جس طرح اپنے حق میں تبدیل کر سکتے ہیں‘ اس کا عام ووٹر تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس پسِ منظر میں11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اس میں شکست کھانے والی پارٹیاں ہی نہیں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتیں بھی عام جلسوں اور جلوسوں بلکہ پارلیمنٹ کے فلور پر بھی پوری قوت سے یہ نعرہ بلند کر رہی ہیں کہ یہ انتخابات دھاندلی سے پاک نہیں تھے اور حکمران جماعت سمیت سب یک زبان ہیں کہ ہمارے انتخابی نظام میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں پاکستان میں آئندہ ہر قسم کے انتخابات کو صاف، شفاف اور نقائص سے پاک کرنے کے لئے مردم شماری نہایت ضروری ہے۔ حکومت کی نیت ٹھیک ہو تو الیکشن کمیشن کی 10نکاتی تجاویز پر عمل کر کے انتخابی عمل کو پاک صاف بنایا اور دھاندلی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے وفاقی سیکرٹری شپ کے دور میں پارلیمنٹ کو پیش کی گئی اصلاحاتی تجاویز کو نئی انتخابی کمیٹی اپنی سفارشات کا حصہ بنا سکتی ہے۔ میں نے 11مارچ2009ء کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی منظوری سے 45ترامیم پر مشتمل مسودہ پیش کیا تھا جس کی پارلیمنٹ کی کمیٹی نے تین مرتبہ خواندگی بھی کرنی تھی۔ موجودہ انتخابی کمیٹی ان 45سفارشات کو شامل کر کے انتخابی نقائص دور کر سکتی ہے۔ 
حکومت، تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان مفاہمت کرانے کے لیے فرینڈلی اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی جرگہ نے تینوں فریقوں سے مسلسل رابطہ رکھا ہوا ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ نام نہاد مشاورت جاری رہے اور عوام میں یہ تاثر پھیلایا جائے کہ موجودہ بحران ختم ہونے کے قریب ہے اور خوش آئند بیانات جاری کر کے عوام کو احتجاجی دھرنوں میں شرکت سے روکا جائے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام کے دونوں گروپس اور پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ سب کی حکمت عملی یہی ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھ کر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاجی دھرنوں میں عوام کی واضح اکثریت کے شامل ہونے کے عمل میں ابہام پیدا کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے قائد سراج الحق مخلصانہ کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن ان کے ہمراہ جن جماعتوں کا ہجوم ہے‘ وہ عوام کے مفاد کے برعکس کرپٹ مافیا کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ چند روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر چوہدری اعتزاز احسن میں پیدا ہونے والی تلخی بھی ذاتی مفاد کے تحت ٹال دی گئی۔ چوہدری نثار علی خان کی آئندہ کی سیاسی سرگرمیوں کو گرہن لگ گیا ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے چوہدری نثار علی خان کو سیاسی طور پر ناک آئوٹ کر دیا اور گمان اغلب ہے کہ چوہدری نثار علی خان کے خلاف مواد حکمران جماعت کے ان عناصر نے فراہم کیا جو چوہدری اعتزاز احسن کے ریمارکس پر مسکرا رہے تھے۔
عمران خان وزیراعظم نوازشریف کے خلاف پارلیمنٹ میں ایک اہم مسئلے پر ان کے جھوٹ بولنے پر سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63-62 کے تحت ریفرنس دائر کر سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دانشور اینکر پرسن اور کالم نویس نے اپنے کالم میں آئین کے آرٹیکل 66اور68کا حوالہ دیا ہے‘ جس کے مطابق پارلیمنٹ میں تقاریر کو عدالتی فورم پر پہنچانے کی ممانعت ہے۔ ان کا مؤقف درست نہیں ہے۔ نومبر1997ء میں چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ نے پارلیمنٹ کے فورم پر عدلیہ کے خلاف تقاریر کرنے پر وزیراعظم نوازشریف کو توہینِ عدالت کے الزام پر طلب کر کے ان کو نااہل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ لیکن نوازشریف کے حامیوںنے سپریم کورٹ پر حملہ کر کے چیف جسٹس کو ان کے خلاف فیصلہ نہیں کرنے دیا اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں فارورڈ بلاک بنوا کر سید سجاد علی شاہ کو فارغ کروا دیا۔ اِسی بحران کے دوران صدر فاروق خان لغاری بھی نوازشریف کی حکمت عملی کا مقابلہ نہ کر سکے اور 2دسمبر1997ء کو مستعفی ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62اور63کے حوالے سے عام ووٹر سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کروا سکتا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت ہر شہری کو حق دیا گیا ہے کہ وہ آئینی حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کے بارے میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ کم و بیش تین دہائیوں سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ چوہدری صاحب 9اپریل 1977ء کو صوبائی وزارت اور صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے تھے اور بعد ازاں تحریکِ استقلال میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں ان کی دوبارہ شمولیت محترمہ بے نظیر بھٹو کی 10اپریل 1986ء کو وطن واپسی کے بعد ہوئی تھی۔ 
جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا‘ عوام کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان کا کرپٹ مافیا خود کو بچانے کے لئے یکجا ہو گیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں متوسط طبقے کے نمائندے تو ہیں نہیں۔ لوئر مڈل کلاس اور غریب کلاس کے عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امیر طبقہ کی پارلیمنٹ ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جمہوریت کا نام استعمال کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر فوج پر تنقید کی جارہی ہے اور ملکی حالات کا ادراک رکھنے والے پارلیمنٹ میں آ نہیں رہے۔ مشترکہ اجلاس میں کسی دن بھی حاضری 33فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی۔ دعویٰ کرنے والے پچاس فیصد حاضری بھی ممکن نہیں بنا سکے۔ موجودہ حکومت کے بہت سے وزراء‘ جن میں سینیٹر پرویز رشید، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال شامل ہیں‘ ایک عرصے سے فوج پر تنقید کر رہے ہیں اور اعتزاز احسن نے بھی جو شدید تنقید کی تھی وہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ حالات بدلنے والے ہیں۔ حساب ہونے والا ہے۔ مشترکہ اجلاس کرپٹ مافیا کو نہیں بچا سکتے۔
قومی احتجاج کے تاریخی دھرنوں کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سے بھی ملاقات رہی اور ان کے عزم کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ وہاں پاکستان کے روشن چہرے ہیں۔ قوم اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اس میں 6ستمبرکا جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ 6ستمبر1965ء کو قوم بھارتی جارحیت کے خلاف فرد واحد کی طرح اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ آج قوم کرپٹ، بددیانت، خائن، اقربا پرور اور مفادپرست حکومت اور اپوزیشن کے خلاف جاگ اٹھی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے قوم کے ضمیر کو جگا دیا ہے۔ آزمائش کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اب کرپٹ مافیا پر زمین تنگ ہو جائے گی۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کے نام نہاد رہنمائوں کے محلاّت کانپتے ہوئے نظر آئیں گے۔ دو ہفتوں سے پہلے پہلے بہت کچھ بدل جائے گا۔ چند روز میں صور پھونکنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ای سی ایل میں بہت سے نام ڈال دئیے جائیں گے۔ بہت کچھ ہونے والا ہے۔ وقت قریب آن پہنچا ہے‘ جب سازشیوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں گی اور جن صحافیوں نے غریب عوام کے مفاد کا سودا کیا ہے‘ ان سے بھی حساب لیا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں