"KDC" (space) message & send to 7575

حکمران جماعتوں کو دیوار پر لکھا کیوں نظر نہیں آ رہا؟

انتخابی اصلاحات کمیٹی کو انتخابی نظام میں پائی جانے والی کمزوریوں اور اسقام کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کر کے قوم کو انتخابی بحران سے نکالنے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ گزشتہ انتخابات میں تین مختلف اقسام کی سیاہی استعمال ہوئی تھی۔ نادرا کی سفارشات کے تحت مقناطیسی سیاہی کے ساتھ عام سیاہی بھی استعمال ہوئی‘ جس کی وجہ سے انتخابی عمل سے متعلق کئی ابہام اور شکوک پیدا ہو گئے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے سرکاری ریکارڈ‘ جس کے مطابق مقناطیسی سیاہی کی سپلائی کا آرڈر جاری کیا گیا تھا‘ حاصل کرنا چاہیے۔ کمیٹی کو نادرا کے ان خطوط کا بھی جائزہ لینا چاہیے‘ جن میں مقناطیسی سیاہی کے بارے میں ماہرانہ رائے کا اظہار کیا گیا تھا۔ پاکستان کونسل آف سائنٹفک ریسرچ کے حکام سے دریافت کرنا چاہیے کہ مقناطیسی سیاہی کی میعاد چھ گھنٹے مقرر کرنے کے احکامات کہاں سے موصول ہوئے تھے جبکہ ووٹ ڈالے جانے کا وقت 9 گھنٹے پر محیط ہوتا ہے۔ مقناطیسی سیاہی کی میعاد چھ گھنٹے تک محدود کرنے کے معاملے سے پردہ اٹھانے کے لئے نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک سے تحریری جوابات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان سائنٹفک ریسرچ کونسل نے انتخابات میں استعمال ہونے والی سیاہی اور متعلقہ عملے کی تربیت سے متعلق انکشاف کیا کہ ان کے محکمہ نے انتہائی دیانتداری سے اور الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق سیاہی تیار کر کے الیکشن کمیشن کے حکام کے حوالے کر دی تھی۔ میں پی سی ایس آر کی کارکردگی کا چشم دید گواہ ہیں۔ 1977ء سے 2008ء تک کے عام انتخابات اور لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے تمام مراحل میں اس کی کارکردگی مثالی رہی۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے معزز ارکان اور سینیٹر اسحاق ڈار کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انتخابی عملہ مقناطیسی سیاہی کے استعمال کے طریقہ کار سے واقف ہی نہ تھا‘ نہ ہی انتخابی عملے کو مقناطیسی سیاہی کے پیڈز کے استعمال سے متعلق کوئی تربیت دی گئی تھی۔ 
اس تاثر کی حقیقت کو جاننے کے لئے انتخابی اصلاحات کمیٹی کو یو این ڈی پی سے جواب طلب کرنا چاہیے‘ جنہوں نے لاکھوں ڈالر کے اخراجات سے انتخابی عملہ کی تربیت کا اہتمام کیا تھا۔ قوم بیدار ہو رہی ہے اور انتخابی دھاندلیوں کی حقیقت کے بارے جاننا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے یو ایس ایڈ، انٹرنیشنل فائونڈیشن برائے الیکٹران سسٹم (I.F.E.S) کے پاکستان میں مقیم امریکی اہل کاروں کو بھی طلب کرنا چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو نگران حکومت کے دور میں پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے بھی بیلٹ پیپرز کی کسی نجی ادارے سے پرنٹنگ کے بارے میں بھی حلفیہ بیانات حاصل کرنے چاہئیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور یو این ڈی پی نے ریٹرننگ افسران کی معاونت کے لئے کمپیوٹر کا جو عملہ مہیا کیا تھا‘ ان کے فرائض کے متعلق Term of Reference بھی منگوانے چاہئیں اور تقریباً ایک ہزار کے عملے‘ جن کی خدمات حاصل کی گئی تھیں‘ سے بھی حلفیہ بیانات حاصل کرنے چاہئیں کہ انہوں نے انتخابی مورچہ کس کے حکم کے تحت خالی کیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کمیٹی کے شرکا کا مجموعی تاثر یہی تھا کہ الیکشن کمیشن اور نادرا کے درمیان رابطے کا فقدان تھا اور اسی وجہ سے وسیع پیمانے پر بدانتظامی ہوئی۔ کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار کو نواز شریف کی وکٹری تقریر کا مسودہ بھی حاصل کرنا چاہیے تاکہ حالات کا اِدارک کرنے میں سہولت ہو۔
ہمارے انتخابی نظام میں بنیادی نقائص کی پیوند کاری عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء میں بڑی مہارت سے کی گئی۔ ان کی درستی کے لئے آئینی، انتظامی اور اقتصادی سطح پر اہم تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ یہ ریٹرننگ افسران، پولنگ کے عملے اور الیکٹرانک مشینوں سے کہیں زیادہ گہرے، حساس اور نازک معاملات ہیں۔ دراصل مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے انتہائی زیرک مشیران‘ جو انتخابی نظام کی ٹیکنالوجی کو سمجھتے تھے‘ نے مختلف طریقوں اور حربوں سے پاکستان کی برہمنی اشرافیہ سے بچ کر قومی اسمبلی اور سینٹ پر اپنا سخت کنٹرول قائم رکھنے کے لئے ریٹرننگ افسران کا نظام چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن سے بالا تر رکھا؛ اس کی خاطر بھٹو حکومت کی انتہائی شاطر، چالاک اور تیز ذہن کی حامل ٹیم نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کا ڈرافٹ تیار کرا کے پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا۔ عوامی نمائندگی ایکٹ میں جنرل ضیاء الحق، صدر غلام اسحاق خان اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر تبدیلیاں کی گئیں‘ لیکن بنیادی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بین الاقوامی الیکشن مبصرین کی سفارشات پر جون 2008ء میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کی منظوری سے انتخابی اصلاحات کمیٹی میری سربراہی میں بنائی گئی۔ ہم نے انتخابی قوانین کی خرابیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے 45 سے زائد ترامیم کی سفارشات تیار کیں اور الیکشن کمیشن کی منظوری سے 11 مارچ 2009ء کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس کی رپورٹ پیش کی۔ میں نے جناب اسحاق ڈار کی توجہ اس رپورٹ کی طرف مبذول کرائی تھی لیکن انہوں نے غیر ملکی امداد سے پرورش پانے والی این جی اوز کی ارسال کردہ سفارشات کو ترجیح دینا زیادہ مناسب سمجھا اور حقیقی ماہرین کی تجاویز کو خاطر میں نہ لائے۔ 
موجودہ انتخابی نظام میں عام باصلاحیت شہری کے لئے ان اداروں تک رسائی ممکن نظر نہیں آتی۔ عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے‘ مگر سب سے بڑی کمزوری اس کی تشکیل میں پائی جاتی ہے۔ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز صاحبان سے لیے جاتے ہیں‘ جو انتظامی صلاحیت اور تجربے سے محرومی اور پیرانہ سالی کے باعث ایک روز میں انتخابات کرانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم نے چیف الیکشن کمشنر کے اختیارت بھی محدود کر دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم 2013ء کے انتخابات میں حد درجہ بے بس ، کمزور، لاچار اور لاتعلق نظر آئے۔ اسی بے بسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کو آئین میں ترامیم کر کے الیکشن کمیشن کو ججزسے نجات دلا کر یہ ذمہ داری انتظامی صلاحیت رکھنے والوں کے سپرد کرنی چاہیے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن ایک چیف الیکشن کمشنر اور محض دو ارکان پر مشتمل ہے‘ جن کا تعلق انڈین سول سروس سے ہے۔ بھارتی حکومت نے غیر معمولی انتظامی قابلیت اور اعلیٰ روایات کے تحت ایک ایسا قابلِ اعتماد انتخابی نظام قائم کیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں الیکشن کے متعلق بے قاعدگی کی بہت کم شکایات سامنے آئیں۔ 
جناب اسحاق ڈار کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ بھارت کے الیکشن کمیشن کے ہاں الیکشن ٹربیونلز اور الیکشن اپیلٹ کا تصور نہیں ہے۔ اگر کسی کو انتخابی شکایات ہیں تو اپنے صوبہ کی ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ انڈین الیکشن کمیشن کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسی طرح حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھارت میں حلقہ بندی کمیشن ایک علیحدہ آئینی، انتظامی ادارہ ہے‘ جس کا سربراہ بھی انڈین سروسز سے ہی لیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ سال بھر اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں ضرورت کے مطابق حلقہ بندیاں کرتا رہتا ہے۔ ریفرنڈم کرانے کی ذمہ داری بھی انڈین الیکشن کمیشن کے دائیرہ اختیار میں نہیں ہے۔
ہمارے انتخابی نظام میں ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اس میں ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں اور کامیاب ہونے والا امیدوار عوام کا حقیقی نمائندہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ بالعموم تیس فیصد سے کم ووٹ لیتا ہے۔ لہٰذا انتخابی اصلاحات کمیٹی کو 51فیصد ووٹ حاصل کرنے کے لئے قانون سازی کرنا چاہیے۔ Run of Electionکا طریقہ اختیار کرنے سے پارلیمنٹ حقیقی معنوں میں فعال اور مضبوط تصور کی جائے گی اور سیاسی جماعتیں بھی اپنا کردار صحیح طور پر ادا کر سکیں گی۔ خواتین کی تیس فیصد مخصوص نشستوں نے سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی طاقت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اس طرح مصنوعی طور پر خاندانی عورتوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ پارلیمان کو حقیقی طور پر مؤثر 
بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سینیٹ کو براہِ راست انتخاب اور متناسب نمائندگی کے ذریعے منتخب کیا جائے‘ اسی طرح خواتین کا بھی براہِ راست انتخاب ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کرائے جائیں تاکہ عام شہری بھی سیاسی جماعتوں میں کلیدی حیثیت تک پہنچ سکے۔
جنرل پرویز مشرف کے کوتاہ اندیشن مشیران نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلا ف سپریم جوڈیشل کمیشن کو ریفرنس بھجوا کر عوام کی اندرونی کیفیت کو اجاگر کر دیا۔ وکلاء تحریک نے جنرل مشرف کی حکومت کا تختہ نہیں الٹا تھا‘ بلکہ اسے کمزور کر دیا تھا اور ان کی حکومتی رٹ سوالیہ نشان بن گئی تھی؛ جبکہ آرمی کی اعلیٰ قیادت جنرل پرویز مشرف کو بطور چیف آف آرمی سٹاف قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔ آج تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک بھی وزیراعظم سے استعفیٰ لینے میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کی توقیر تو چوہدری اعتزاز احسن نے بڑی خوبصورتی سے عیاں کردی۔ وزیراعظم نواز شریف کو مظفر آباد موٹروے پر سیال موڑ اور ملتان میں شیر شاہ کے مقام پر عوام کے مشتعل جذبات کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھاری مینڈیٹ کے حامل وزیراعظم کو تقریر ادھوری چھوڑ کر جانا پڑا۔ طاہر القادری اور عمران خان کی تحریک کی بدولت ہمارے حکمران طبقہ کو جھوٹ، فریب اور منافقت پر مبنی تقریروں سے اجتناب کرنا پڑے گا۔
وزیراعظم نوازشریف نے پارلیمنٹ میں مایوس کن، حوصلہ شکن اور عوام کے جذبات کے برعکس تقریر کر کے پارلیمنٹ کے مفاد پرست گروپس کی ترجمانی کی۔ گویا وہ 18کروڑ عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔ انہوں نے الیکشن ٹیکنالوجی کے ذریعے جو ووٹ حاصل کئے ہیں اس کا بھرم جوڈیشل کمیشن کے رو برو کھل جائے گا بلکہ الیکشن کمیشن کے افسران ہی پول کھول دیں گے۔ شاہراہِ دستور کو صاف کرانے کے لئے ربڑ کی اتنی گولیاں چلائی گئیں جو اسلام آباد کی تاریخ میں کبھی نہیں چلائی گئی تھیں‘ پھر بھی عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے 30 اگست کی رات کو وزیراعظم کی پولیس کو پسپا کر دیا۔ اصولی طور پر وزیراعظم کو یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر قوم سے خطاب میں پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے عوام کی عدالت میں چلے جانے کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں