"KDC" (space) message & send to 7575

نئے انتظامی یونٹس

پارلیمانی کمیٹی‘ جو جنوبی پنجاب کو صوبہ کا درجہ دینے کے بارے میں سپیکر قومی اسمبلی نے بنائی تھی‘ کے سربراہ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی خصوصی دعوت پر میں نے بھی بریفنگ دی تھی۔ اس بریفنگ میں میں نے شرکاء کو باور کرایا تھا کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی نئے صوبے بنا دئے جائیں‘ تاکہ پاکستان کی فیڈریشن مضبوط ہو جائے۔ جنرل محمد ایوب خان کمانڈر انچیف پاکستان آرمی نے اس وقت کے تناظر میں وحدت پاکستان کے لئے ون یونٹ کا تصور پیش کیا تھا۔ لہٰذا صدر سکندر مرزا نے آئین ساز اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں یکم جنوری 1955ء میں اس وقت پاکستان کے 12انتظامی صوبائی درجہ رکھنے والے علاقوں کو ختم کر کے ون یونٹ بنا دیا جس کو مکمل یک جہتی کا نام دیا گیا۔ ون یونٹ کی تشکیل کی سید حسین شہید سہروردی اور مشرقی پاکستان کے دیگر تمام رہنمائوں نے تائید و حمایت کی تھی اور 23مارچ1956ء کے آئین نے صوبہ مغربی پاکستان اور صوبہ مشرقی پاکستان کو آئینی تحفظ دیا تھا اور وحدانی طرزِ حکومت کی بنیاد پر ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت کی توثیق کی تھی۔
یکم جولائی 1970ء کو جنرل یحییٰ خان نے اس وقت کے قومی رہنمائوں بشمول مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے مطالبے پر یکم جولائی1970ء کو مارشل لاء کے آرڈر کے تحت ون یونٹ کو ختم کر دیا۔ نواب زادہ نصراللہ خان جیسے دور اندیش قومی رہنما نے جنرل یحییٰ خان نے اس کی شدید مخالفت کی۔ راقم الحروف ان دنوں لاء کالج پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ میں نے اس قومی سانحہ کے بارے میں مغربی پاکستان کے گورنر ائرمارشل نور خان سے ملاقات کر کے احتجاجی مراسلہ پیش کیا اور بطور طالب علم لیڈر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے قومی یک جہتی کے منافی قراردیا تھا۔ ائرمارشل نور خان نے بلوچستان کے قومی رہنما قاضی عیسیٰ مرحوم کی موجودگی میں جنرل یحییٰ خان کے یک طرفہ فیصلہ کو ملکی سا لمیت کے خلاف قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل یحییٰ خان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد مسٹر بھٹو صوبہ سندھ کے بے تاج بادشاہ بننا چاہتے ہیں اور شیخ مجیب الرحمن صوبہ مشرقی پاکستان میں اپنی حکومت کو تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بدقسمتی سے ون یونٹ کی مخالفت میں تحریک چلانے میں بائیں بازو کے سیاسی رہنمائوں کا بھی بڑا دخل تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے قومی یک جہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہوئے یکم جولائی 1970ء کو 12صوبائی علاقوں‘ جن میں سندھ کے تین یعنی سندھ‘ فیڈرل کیپیٹل کراچی اور ریاست خیر پور، صوبہ پنجاب اور بہاول پور‘ سرحد کے پانچ؛ سوات، فاٹا ، ہنزہ ، دیر ، چترال اور بلوچستان کے دو صوبے بلوچستان اور قلات شامل تھے‘ کو ختم کر کے مغربی پاکستان کو چار صوبوں، سندھ ، بلوچستان، سرحد اور پنجاب میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان مارشل لاء آرڈیننس کے ذریعے عوام کی رائے پوچھے بغیر جاری کر دیا ۔ یوں گویا 12صوبائی زندہ ثقافتیں ختم کر کے صرف چار ثقافتوں کو ابھارا گیا اور جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات و قومی امور نواب زادہ شیر علی خان نے اس کا زور شور سے پرچار کیا‘ جبکہ دیگرآٹھ ثقافتیں زندہ درگور کر دی گئیں۔ جنرل یحییٰ خان کا فیصلہ بادی النظر میں درست قدم تھا لیکن طریقہ کار بدنیتی پر مبنی تھا۔ جنرل یحییٰ خان کو دسمبر 1970ء کے انتخابات کے بعد آئین ساز اسمبلی کے ذریعے ون یونٹ کو ختم کرانا چاہیے تھا۔ اگر ون یونٹ کی بحث آئین ساز اسمبلی میں شروع ہوتی تو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات اسی ہنگامے میں اپنی اہمیت کھو دیتے۔ صوبے بنانے سے ملک کمزور نہیں مضبوط ہوتے ہیں بشرطیکہ سیاسی قیادت کے ارادے نیک اور ملک کی نظریاتی بنیادوں پر استوار ہوں۔ 
بھارت میں آزادی کے وقت 12صوبے تھے ۔ آج بڑھتے بڑھتے 28ہو گئے اور اس کے علاوہ سات سے گیارہ آزاد یونٹ وجود میں آچکے ہیں۔ ان کو بھی انڈین آئین کے شیڈول میں شامل کر کے آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔ اسی لئے بھارت نے نئے صوبے بنانے کے لئے عدلیہ، بیورو کریسی اور عوامی نمائندوں پر مشتمل ایک مستقل کمیشن بنا رکھا ہے جو بدقسمتی سے پاکستان کے مفاد پرست سیاستدانوں نے آئین کے آرٹیکل 1-(a)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں بننے دیا۔ بھارت نے صرف ڈھائی فیصد عوام کے لئے بھی الگ صوبے بنا دئیے۔ صوبہ بہار ، صوبہ اتر کھنڈ، حیدر آباد (دکن) کو تقسیم کر کے وہاں صوبہ بنایا گیا۔ مشرقی پنجاب کی تقسیم در تقسیم کر کے ہریانہ صوبہ بنایا گیا اور راجستھان کا کچھ علاقہ ہریانہ کو دیا گیا۔ دہلی کو صوبہ بنانے کی مثال بھی موجود ہے‘ جس کی آبادی دو کروڑ ہے اور دہلی کو آج تک دارالحکومت بھی رہنے دیا گیا ہے۔
پاکستان کے مفاد پرست گروہوں نے پاکستان کی جمہوریت کو کمزور کرنے کے لئے صوبے بنانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ سندھ 1935ء تک بمبئی کا حصہ رہا اور قائداعظم محمد علی جناح کی آئینی جنگ کے نتیجہ میں علیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ اسی طرح قائداعظم کی کوششوں سے ہی بلوچستان کو بھی صوبہ بنایا گیا۔ خلیل احمد نینی تال کی کتاب ''صوبے کیوں ضروری ہیں‘‘ سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ خانہ جنگی کی طرف بڑھنے کے آثار کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صوبوں اور انتظامی یونٹس کے لئے آزاد اور غیر جانبدار کمیشن بنانے کے لئے قانون سازی کی جائے اور فیڈریشن کو مضبوط کرنے کے لئے دہلی کی طر ز پر کراچی کو انتظامی یونٹ کی حیثیت دے کر اس کو پاکستان کا دوسرا دارالحکومت بنایا جائے۔ 
سیاسی طور پر بلوچستان اور کراچی فیڈریشن کے دائرہ کار سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ یہاں پر وفاق کی رِٹ عملاً ختم ہو چکی ہے۔ پنجاب اس لئے وفاق کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے کہ وفاق میں نوازشریف کی حکومت ہے۔ جونہی پنجاب اور وفاقی حکومت میں تبدیلی آتی ہے‘ فیڈریشن مزید کمزور ہو جائے گی۔ ان حالات میں فوری طور پر پاکستان کو انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے کے لئے اعلیٰ سطح کا کمیشن بنایا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں