"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات کی آئینی حیثیت

ایک جہاں دیدہ صحافی نے اپنے کالم میں درست لکھا ہے کہ جمہوریت کے نام پر11مئی 2013ء کے انتخابات کے ذریعے جو پارلیمنٹ قائم ہوئی اس کی قانونی اورآئینی حیثیت مشکوک ہو چکی ہے۔ مختلف سماجی طاقتیں باہم برسر پیکار ہیں۔ بلوچستان اورکراچی اس وقت بھی وفاق یا صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ مذکورہ صحافی نے قوم کو مستقبل قریب کے خطرات سے آگاہ کر دیا ہے۔ الیکشن 2013ء کو ڈیڑھ سال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، لیکن دھاندلی کے بارے میں قومی سیاسی جماعتوں کے تحفظات کم نہیں ہوئے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ کے انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے سرگرم ہے۔
مئی 2013ء کے انتخابات کو شفاف بنانے میں نگران حکومتیں آئینی اور قانونی فرائض ادا کرنے میں ناکام رہی ۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218، 219اور 224 کے تحت الیکشن غیر جانبدار نہیں کروائے۔ نگرانوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل درآمد نہیںکروایا جس کی وجہ سے پورا انتخابی عمل بدنظمی اور شکوک و شبہات کی نذر ہوگیا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا یہ سب سے بے ہنگم الیکشن تھا۔ ستر ہزار پولنگ اسٹیشنوں اور دو لاکھ اسی ہزار پولنگ بوتھوں کے لیے تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ پولنگ سٹاف کی خدمات لی گئیں۔ وہ تقریباًسب ایجوکیشن، ہیلتھ، ریونیو اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا عملہ تھا جو سب کے سب سیاست زدہ تھے کیونکہ ان کا تقرر سیاسی بنیادوں پر کیا گیا تھا۔ ریٹرننگ افسروں کے تقرر میں مجرمانہ چشم پوشی کا مظاہرہ کیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ بیلٹ پیپر جرمنی سے درآمد کیا جائے گا،لیکن بیلٹ پیپرز عام کاغذ پر شائع کئے گئے جو اپنے پیچھے ایک سوالیہ نشان چھوڑگئے ۔ 
19نومبر1984ء کے جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم اور 3 فروری1985ئکے انتخابات میں دھاندلی کا کوئی خدشہ نہیں تھا کیونکہ متحدہ اپوزیشن (ایم آر ڈی) نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس وقت بیلجیم سے بیلٹ پیپرزکے لیے کاغذ درآمدکیا گیا۔سوال یہ ہے کہ اب ایسا کرنے میں کیا قباحت تھی؟ پھر مقناطیسی سیاہی کے معاملے میں بھی شفافیت نہیں تھی۔ ریٹرننگ افسرعوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 7,8کے تحت مقرر کئے جاتے ہیں۔ ان کے تقررکے بعد الیکشن کمیشن ان کے انتخابی عمل پر اعتراض کا مجاز نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن صرف انہیں اپنی پالیسی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے روبرو ریٹرننگ افسرون کا محاسبہ کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی سفارش کی ہے۔ حالیہ انتخابات ریٹرننگ افسروںکی ملی بھگت سے ہوئے اور یہی الزامات صدر زرداری نے 11مئی کے انتخابات کے فوراً بعد عائد کئے تھے جبکہ راقم الحروف نے الیکشن سے ایک ماہ پہلے ہی تمام ٹیلی ویژن چینلز پر انکشاف کر دیا تھا کہ آئندہ انتخابات کے لئے ریٹرننگ افسروں کے ذریعے میچ فکسنگ ہو چکی ہے۔ راقم الحروف نے اہم شخصیات کے طرز عمل پر بھی شدید تنقیدکی تھی۔
93 ریٹرننگ افسروں نے الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر الیکشن کی رات کو پولنگ سٹیشن تبدیل کر دیے؛ حالانکہ الیکشن لاء کی دفعہ 33کے مطابق الیکشن سے پندرہ دن پہلے گزٹ نوٹی فکیشن کے ذریعے امیدواروںکو ان کے حلقہ کے پولنگ سٹیشنوں کی اطلاع دی جاتی ہے۔ اگر تبدیلی ناگزیر ہو تو الیکشن کمیشن کے ارکان کی منظوری سے تبدیلی ممکن ہوتی ہے، لیکن 11مئی 2013ء کے انتخابات میں 93کے لگ بھگ حلقوں کے پولنگ سٹیشن مخصوص اشارے پر تبدیل کر دیے گئے جس کی وجہ سے ووٹروں کو پریشانی کا سامناکرنا پڑا اور ووٹروںکی بڑی تعداد ووٹ کاسٹ کرنے سے محروم رہے۔ الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس کے ذریعے عوام کو متعلقہ پولنگ سٹیشن سے آگاہ کرنے کی مہم سبوتاژ ہوئی۔ جن ریٹرننگ افسروں نے پولنگ سٹیشن الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر تبدیل کیے ان کے خلاف عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ91کے تحت ضابطہ کی کارروائی کی جانی چاہیے جو ابھی تک نہیں کی گئی۔ اکتوبر1990ء کے انتخابات میں جناب رانا بھگوان داس سکھر میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تھے، اس وقت وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سکھر کے عہدہ پر تھے، ان کے خلاف غالباً پاکستان مسلم لیگ کے اسلام الدین شیخ نے شکایت کی تھی کہ ان کے حلقے کے بعض پولنگ سٹیشن تبدیل کیے گئے تھے۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین اور ارکان کمیشن جسٹس خلیل الرحمن اور جسٹس امیر الملک مینگل نے انکوائری خود کی تو وہ الزامات غلط ثابت ہوئے۔ جناب رانا بھگوان داس نہایت ایماندار، غیر جانبدار جج رہے ہیں اور بعد ازاں قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اس وقت ایک ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے بارے میں شکایت ہوئی تو ایکشن لیا گیا۔ 2013ء کے انتخابات کے موقع پر تو بے شمار ریٹرننگ افسروں کے خلاف یہ شکایت کی گئی لیکن کوئی انکوائری نہیں ہوئی ۔ 2013ء کے الیکشن میں نگران وزیراعظم ایسے شخص کو بنایا گیا جوکٹھ پتلی تھے۔ ان کی دیکھنے سننے کی صلاحیت ہی کم تھی۔ وہ کیا شفاف الیکشن کا انعقاد کراتے۔ انہوں نے تو صرف تقرر، تبادلوں اور ترقیوں پر زور رکھا۔ ان کا نہ تو اپنی منہ زور کابینہ پر کوئی اثر تھا اور نہ ہی صوبائی نگران حکومتیں ان کے دائرہ اختیارمیں تھیں۔ نگران وزیراعلیٰ کا انتظامی تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا۔اس وقت پنجاب میں بیورو کریسی رائے ونڈ سے ہی پالیسی کے احکامات حاصل کر رہی تھی اور اس کا اعتراف بھی کیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2013ء کے عام انتخابات کی شفافیت کو چیلنج کر دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری آئین کے آرٹیکل 219کے مطابق پوری نہ کر کے انتخابات کی شفافیت مشکوک بنا دی ہے۔ درخواست گزار سپریم کورٹ کے سابق سینئر ترین جج محمود اختر شاہد صدیقی ہیں اور مقدمے کی پیروی لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں اللہ نوازکریں گے۔ جسٹس (ر) شاید صدیقی کا موقف یہ ہے کہ مقناطیسی سیاہی اور دیگر سامان فراہم کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی، اس نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کر کے انتخابات کی شفافیت مشکوک بنا دی ۔ جسٹس (ر) شاہد صدیقی کا موقف ہے کہ الزامات کی تحقیقات کی جائے اور الزامات ثابت ہونے پر 11مئی 2013ء کے انتخابات کوکالعدم قرار دیا جائے، غفلت کے ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وہ توقع کر رہے تھے کہ سپریم کورٹ انتخابات میں دھاندلی کا از خود نوٹس لے گی، لیکن سپریم کورٹ کے نوٹس نہ لیے جانے پر انہوں نے درخواست دائر کی ہے۔ صدیقی صاحب کی اس اہم اور حساس نوعیت کی آئینی درخواست کے مثبت نتائج آنے پر پارلیمنٹ کی بساط لپیٹ دیے جانے کے قوی امکانات ہیں اور اس کے نتیجہ میں الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت مشکوک ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں