"KDC" (space) message & send to 7575

جسٹس کارنیلس کی انتخابی اصلاحات پر عمل کیاجائے!

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کی وساطت سے حکومت پاکستان کو سفارشات بھجوائی ہیں کہ آئندہ انتخابات سے قبل دور رس انتخابی اصلاحات، نئی مردم شماری اور حلقہ بندیاں کی جائیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک سسٹم کا استعمال یقینی بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے آئین کے آرٹیکل 224میں ترامیم کر کے ضروری قانون سازی کی جائے۔ سفارشات کا مسودہ حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ا س میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جلد از جلد ووٹ کا حق دینے کا اہتمام کیا جائے اور پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد 90دن کی بجائے 120دن میں انتخابات کرانے کا بندوبست کیا جائے۔ 
آئین کے آرٹیکل 213اور 217میں پابندی نہیں ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کوئی جج ہی ہو۔ مفہوم یہ ہے کہ ایسے شخص کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جا سکتا ہے جو سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو۔ سابق ججوں کے علاوہ اچھی شہرت رکھنے والی کسی شخصیت کو چیف الیکشن کمشنر بنانا قابل عمل تجویز ہے۔ لہٰذا آئندہ کے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں چیف جسٹس آف پاکستان سے غیر رسمی مشاورت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 
انتخابات میں دھاندلی پاکستان کی انتخابی ثقافت کا جزو بن کر رہ گئی ہے۔ 1947ء سے 1958ء تک تمام انتخابات میں دھاندلی کا الزام بڑے زور شور سے عائد کیا جاتا تھا اور خان عبدالقیوم خان کے دور وزارت اعلیٰ میں جھرلو کی مقبول عام اصطلاح بھی مشہور ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کے انتخابی عمل میں پاکستان مسلم لیگ مشرقی پاکستا ن میں بری طرح ناکام ہو گئی اور حسین سہر وردی، شیخ مجیب الرحمن، مولوی فضل حق اور دیگر قد آور سیاسی رہنمائوں کی الیکشن میں کامیابی کو تسلیم نہیں کیا گیا اور چند مہینوں میں مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ 
1958ء سے 1965ء تک کے عرصے میں جتنے بھی سیاسی انتخابات ہوئے ،وہ دھاندلی سے پاک نہ تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح 2جنوری 1965ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی الیکشن میں ناکام قرار دی گئیں۔ 7دسمبر 1970ء کو صدر جنرل یحییٰ خان کے عہد حکومت میں دھاندلی سے پاک اور غیر جانبدارانہ انتخاب کروانے کیلئے انتخابی قوانین مرتب کے گئے،جنہیں لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت تحفظ فراہم کیاگیا۔ ان قوانین کے تحت 7دسمبر 1970ء کو انتخابات منعقد ہوئے جو مغربی پاکستان کی حد تک شفاف تھے۔ مشرقی پاکستان میں ریکارڈ دھاندلی کروائی گئی اور اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار نے مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا۔ 30نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو متوسط طبقے اور غریب عوام نے ان کی قیادت کو تسلیم کر لیا۔ ملک میں پولیس گردی کا دور دورہ تھا اور پولیس دفعہ 109کے تحت آوارہ گردی کا چالان کر کے معصوم شہریوں کو رات گئے گرفتار کرتی تھی۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وفاقی وزیر داخلہ خا ن عبدالقیوم خان کو ہدایت جاری کی کہ سوویت یونین اور چین کی طرز پر شہریوں کا ڈیٹا جمع کر کے نئے شناختی کارڈ کا اجراء کیا جائے۔ جونہی شناختی کارڈ کے اجراء کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری ہوا، جماعت اسلامی نے شدید مخالفت کی اور عوام کو جلسے ، جلوسوں اور اخباری تشہیر کے ذریعے ترغیب دی کہ شناختی کارڈ نہ بنوائے جائیں۔ مزید یہ کہ شناختی کارڈ کے اجراء کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن درج کرا دی گئی۔ 
7مارچ 1977ء کے انتخابات میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے نادان مشیروں نے ایوان وزیر اعظم میں الیکشن سیل قائم کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات محدود کر دئیے اور اپوزیشن کو انتخابات کو مشکوک قرار دینے کا موقع مل گیا۔ 7مارچ 1977ء کے انتخابات میں چالیس نشستوں پر گڑ بڑ کروانے کا انتظام پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب صادق قریشی نے کروایا تھا اور انہوں نے پنجاب کے مخصوص اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو خفیہ ہدایات جاری کی تھیں۔بد قسمتی سے الیکشن سیل کے نادان ارکان، جن کی حیثیت محض گریڈ 18کے آفیسران کے مساوی تھی،نے وزیر اعظم بھٹو کی جانب سے پنجاب کے کمزور اورناتواں کمشنروں کو فون کر کے انتخابی عمل میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو محفوظ راستہ دینے کے احکامات جاری کئے۔ 
سابق چیف جسٹس کار نیلس کے مرتب کردہ انتخابی قوانین کے مطابق: قومی اسمبلی کا انتخاب ختم ہونے کے بعد تیسرے دن متعلقہ حلقہ کا ریٹرننگ آفیسر اپنے اپنے حلقوں کے تمام امیدواروں کو، بمع ان کے پولنگ ، الیکشن ایجنٹس کے ،اپنے دفتر میں طلب کرے گا۔ ان کو مزید ہدایات دے گا کہ انگوٹھوں کی تصدیق کے لئے اپنے ساتھ فنگر پرنٹس کے ماہر بھی لائیں۔ اگر کسی الیکشن ووٹرز کائونٹر فائل سے زیادہ انگوٹھے جعلی ثابت ہوئے، تو ریٹرننگ آفیسر ایک کمیشن کے ذریعے وہیں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کروائے گا ۔ وہ ہر پولنگ سٹیشن کے تھیلے کھول کر تمام ووٹوں کی فہرستوں کے مطابق دوبارہ ووٹوں کی گنتی کرا ئے گا۔ دس دن تک دوبارہ پڑتال اور چیکنگ کے بعد ریٹرننگ آفیسر الیکشن کمیشن کو 
کامیاب امیدواروں کے نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے لئے سفارش کرے گا ۔ راقم الحروف نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن اور چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیشن کے ،انتخابی اصلاحات پر مبنی جو سفارشات مرتب کی تھیں،ان میں تجویز دی گئی تھی کہ جسٹس کارنیلس رپورٹ کے مطابق عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 39 میں ترمیم کر کے ریٹرننگ آفیسر کو پابند کیا جائے کہ وہ پریزائڈنگ آفیسر کے مرتب کردہ فارم XIVکے مطابق تمام بیلٹ پیپرز کی از سر نو گنتی امیدوار ان کی موجودگی میں کروائے، مسترد شدہ ووٹوں کی جانچ پڑتال کی جائے اور کائونٹر فائل پر بیلٹ پیپرز کے انگوٹھوں کا بھی مطالعہ ہوکہ آیا ووٹر کے انگوٹھے اس دستاویز پر لگے ہوئے ہیں یا نہیں۔ اس عمل سے الیکشن ٹربیونلز کا کام کافی حد تک برائے نام رہ جائے گا۔ کیونکہ دھاندلی اور بے ضابطگی ریٹرننگ آفیسر کے ہاں ہی معلوم ہو جائے گی اور انتخابی نتائج میں ردوبدل کے امکانات معدوم ہو جائیں گے ۔اس سرکاری گنتی کی روشنی میں فارم XVIاور XVIIمرتب کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے جائیں اور انہی کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کامیاب امیدواروں کا سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرے۔ بدقسمتی سے گزشتہ پارلیمنٹ کی کمیٹی نے ان اہم تجاویز کو نظر انداز کر دیا ۔ اب بھی اگر چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیٹی اور ارکان کمیٹی چاہیں تو جسٹس کارنیلس کے مرتب کردہ انتخابی قواعد و ضوابط کے مطابق آئین کے آرٹیکل 219کے تحت آزادانہ، شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کا انعقاد ممکن ہے،اگر حکومت ، الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ ان قوانین کی روح کے مطابق ان پر عمل درآمد کروائے ۔
پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارے اداروں میں اعتماد کا فقدان ہے۔ان مشینوں کے استعمال میں بھی بہت سی خامیاں ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک سسٹم کے نفاذ سے قبل ملک میں عوامی اور سیاسی سطح پر مکالمہ ہونا چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی اس مسئلہ پر تفصیلی بحث مباحثہ کر ے اور جن ممالک میں یہ سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے ان ممالک کے ماہرین سے مشورہ کر ے۔ دنیا میں صرف چھ ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک سسٹم استعمال کر رہے ہیں۔ بائیو میٹرک سسٹم میں لوگوں کے پرسنل ڈیٹا کو محفوظ رکھنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ الیکن کمیشن آف پاکستان پہلے بیلٹ پیپر کے موجودہ سسٹم کو تو سنبھال لے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین تو دور کی بات ہے‘ ہم سے تو مینول سسٹم نہیں سنبھل رہا اور ہم ایک ایسا سسٹم لے کر آرہے ہیں جس میں شفافیت کے شدید مسئلے کھڑے ہو جائیں گے ۔ لوگوں کے پرسنل ڈیٹا کی پرائیویسی کو ہم پبلک ڈومین میں ہر پولنگ سٹیشن پر لارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حوالے سے صرف تکنیکی تجویز پیش کرے۔ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کافیصلہ انتخابی اصلاحات کمیٹی اور سیاسی جماعتیں کریں۔ الیکشن کمیشن فیصلہ نہ کرے کہ ہمیں کون سی ٹیکنالوجی آئندہ الیکشن سسٹم میں لانی ہے۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں اور الیکشن کمیشن کو ادراک ہونا چاہیے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال میں بھی بہت سی خامیاں ہیں۔ اس مشین میں خفیہ طریقے سے چپ لگا دی جائے تو جس پارٹی کو چاہیں گے ووٹ کاسٹ ہو جائے گا اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہو گا۔ بہت سے ممالک اس سسٹم کو ترک کر کے دوبارہ مینول سسٹم پر آ گئے ہیں۔ بھارت میںسول سوسائٹیوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر لاکھوں شکایات درج ہوئی ہیں کہ ایک خاص پارٹی کو اقتدار میں لانے کے لئے بھارت کے کارپوریٹ سرمایہ کاروں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابی عمل میں اپنی مرضی و منشا کے نتائج حاصل کیے۔ یہ امر قابل غور ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں