"KDC" (space) message & send to 7575

چیف الیکشن کمشنر کا تقرر

ضمنی انتخابات کے نتائج عام انتخابات کا متبادل نہیں ہوتے؛ البتہ رائے عامہ کا رخ سمجھنے میں مددگار ضرور ہوتے ہیں ۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ رائے عامہ تحریک انصاف کی طرف مائل ہو رہی ہے اور یہ تبدیلی پاکستان کے تناظر میں جمہوریت کے لئے حوصلہ افزا ہے۔ ضمنی انتخابات میں عوام کی رائے لی جاتی ہے۔ اس میں مقامی عوامل کا بھی دخل ہوتا ہے۔ امیدواروںکی شخصیت اور مقامی سیاست کرنے والے نمائندے قابل فہم طور پر اپنے حلقے سے دور ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں الیکشن کمیشن کا غیرجانبدار ہونا ملک کے مفاد میں ہے۔ طاقتور، فعال، غیر جانبدار الیکشن کمیشن بیوروکریسی اور حکومت کو لگام ڈال سکتا ہے بشرطیکہ اس کے سربراہ کی قوت ارادی بے مثال ہو۔ 
انتخابی اصلاحات اور سیاسی سطح پر فیصلہ سازی میں غیر معمولی تاخیر کے باعث جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کے 31 جولائی 2013ء کو استعفیٰ کے بعد ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ملک کے نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں ہو سکا۔ آئینی تقاضا پورا کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 217 کے تحت اب تک سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو وقتاً فوقتاً قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جاتا رہا ہے۔ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کے بعد پہلے جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس ناصرالملک اور اب جسٹس انور ظہیر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ تینوں جج صاحبان انتہائی معزز، دور اندیش اور پاکستان کا قابل فخر قومی اثاثہ ہیں۔ اب سپریم کورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کو مستقل چیف الیکشن کمشنر کے تقرر اور تین صوبائی حکومتوں کو مقامی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے دیے جانے والے احکامات کے بعد برسوں سے موخر کئے گئے بلدیاتی انتخابات کا جلد انعقاد بظاہر ناگزیر ہو چکا ہے، مگر بعض حلقے محسوس کرتے ہیںکہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے مخالف عناصر نے معاملات کو اتنا الجھا دیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں التوا کے لئے نت نئے مسائل اور مشکلات کا عذر بار بار سامنے لایا جاتا رہے گا۔ اب سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لئے محدود مہلت دی ہے۔ ملک میں کسی بھی لمحے کسی بھی سطح پر الیکشن کے انعقادکے لئے ہمہ وقت تیار رہنے کی غرض سے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عملی و آئینی ضرورت ہے‘ جبکہ بلدیاتی انتخابات جمہوری نظام اور دستور پاکستان کے آرٹیکل 140-A اور 132 کا تقاضا ہیں۔ تمام مہذب جمہوری ملکوں میں نچلی سطح کی مقامی حکومتوں کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ جمہوریت کا حقیقی تصور یہ ہے کہ گراس رُوٹ سطح پر رو بہ عمل لائے جانے والے اقدامات اور فیصلوں میں عام آدمی کی براہ راست شرکت و شمولیت کو یقینی بنایا جائے‘ اسی لئے بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کو جمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے جن پر جمہوری نظام کی پوری عمارت استوار ہوتی ہے۔ مقامی حکومتوںکو جمہوریت کی نرسری بھی کہا جاتا ہے‘ جہاں برگ و بار لانے والی قیادت کے پودے صوبے اور ملک کی سطح پر شجر سایہ دار بنتے ہیں۔ برٹش انڈیا میں جمہوریت سے تعارف مقامی حکومتوں کے ذریعے اس وقت ہوا تھا‘ جب 1863ء میں کلکتہ اور ممبئی میں محدود نمائندہ حکومتیں قائم کی گئیں۔ برطانوی ماہرین انتخابات نے یہ نظام اکبر اعظم کے وزیر ٹوڈرمل کے مقامی نظام حکومت سے حاصل کیا تھا اور راجہ ٹوڈرمل نے اسے چندر گپت موریہ کے نظام پنچایت سے مستعار لیا تھا۔ 
قیام پاکستان کے بعد 1950ء کی دہائی میں انتخابات کے ذریعے قائم اداروں نے عوام میں شراکت اقتدار کا احساس اجاگر کیا اور 1956ء میں دیہات سدھار سکیم کے ذریعے دیہی علاقوں میں مقامی سطح پر صحت، تعلیم، پانی سکیم، منڈیوں کے قیام اور سڑکوں کی تعمیر سے خوشحالی کا دور شروع ہو گیا تھا۔ جناب ملک معراج خالد ابتدائی دور میں دیہات سدھار پروجیکٹ میں معمولی سے اہل کار کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں مقامی حکومتوں کی ارتقائی صورتیں سامنے آئیں اور انہوں نے عام آدمی کو اس کے دروازے پر سہولتیں پہنچانے کا کام بھی کیا۔ 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات کے بعد بلدیاتی نظام کے طریقہ کار پر مختلف صوبوں میں پھر سے الگ الگ بحث شروع ہوئی اور 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی سطح پر نئی قانون سازی بھی ناگزیر ہو گئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کے نظام کے تحت دو انتخابات ہو چکے ہیں۔ اگست 2009ء میں عوام کو پھر مقامی قیادت کے انتخاب کا موقع ملنا چاہیے تھا‘ جو تین صوبوں میں اب تک نہیں دیا گیا جبکہ امن و امان کی سنگین صورت حال سے دوچار بلوچستان میں مقامی انتخابات کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے مگر باقاعدہ مقامی حکومتیں قائم نہیں کی جا سکیں۔ دیگر تین صوبو ں میں مقامی حکومتوں اور قیادتوں کی غیر موجودگی کے باعث سیلابوں اور قدرتی آفات کے مواقع پر امدادی مشکلات پیدا ہوئیں۔ اب صدارتی آرڈیننسوں کے تحت بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوںکی تیاری کا کام الیکشن کمیشن کے سپرد کیا جا چکا ہے‘ جو راقم الحروف کی رائے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 224 سے متصادم ہے۔ اگر کسی سول سوسائٹی کے ادارے یا ماہر قانون نے صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تو حکومت کی بدنیتی کے مناظر سامنے آ جائیں گے۔ حکومت کو صدارتی آرڈیننسوں کی منظوری پارلیمنٹ سے لینے کے لئے آرٹیکل 224 میں ترمیم کرنا ہو گی۔ 
مستقل چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لئے حکومت کی رضامندی سے اپوزیشن لیڈر‘ جن کے نواز حکومت سے گہرے تعلقات ہیں اور مفادات بھی وابستہ ہیں، سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جس میں استدعا کی جائے گی کہ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے فیصلے تک چیف الیکشن کمشنرکی تقرری موخر کرنے کی اجازت دی جائے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کے بقول حزب اختلاف اس حوالے سے پارلیمنٹ کے اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 213 اور 217 میں ایک آئینی ترمیم پیش کرنے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لئے صرف ریٹائرڈ جج ہی نہیں بلکہ تجربہ کار اور ہر لحاظ سے قابل اعتماد ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور سیاستدان کو بھی تقرری کے اہل قرار دیا جائے گا۔ سید خورشید شاہ کی یہ تجویز مناسب ہے۔ بھارت میں سینئر بیوروکریٹس کو ہی چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جاتا ہے‘ جس کی بدولت وہاں انتخابی دھاندلیوں کی شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ملک میں 11 مئی 2013ء کے انتخابات کو غیر موثر اور متنازع بنا دیا گیا ہے، لہٰذا مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کو بھارت اور دوسرے مسلم جمہوری ممالک کی طرح مکمل طور پر بااختیار بنایا جائے۔ گزشتہ انتخابات کے دوران بھارت میں نئے چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر کا مسئلہ درپیش تھا۔ ملک میں من موہن سنگھ وزیر اعظم بھی موجود تھے مگر حتمی فیصلے کے لئے اسے چیف الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا پڑی۔ پاکستان میں نگران حکومتوں کے قیام میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے آئینی مشاورت کے ذریعے جو حکومتیں قائم کی گئیں ان کے نتائج آج قوم لانگ مارچ، آزادی مارچ اور جلسے جلوسوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو اس طرح کے اختیارات دینا ہوں گے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم اور سیاسی رہنمائوں کو ضابطہ اخلاق اور آئین کی خلاف ورزی پر الزامات کی وضاحت کے لئے اپنے ہاں طلب کر سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں