"KDC" (space) message & send to 7575

ایک قابلِ غور معاملہ

پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی احتجاجی تحریکوں نے اور پاکستان پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کی سرگرمیوں نے انتخابی ماحول بنا دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے رابطوں نے نظریاتی خلیج کو ختم کر دیا ہے۔ اب وہ پارلیمانی جماعتیں جنہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کو سپورٹ کیا تھا‘ عمومی طور پر ملک میں از سر نو انتخابات کی حامی نظرآرہی ہیں۔اس پس منظر میں بعید نہیں کہ آئندہ چند مہینوں میں پارلیمنٹ، وزیر اعظم نوازشریف کے ہاتھوں 18جولائی 1993ء کی طرز پر تحلیل ہوجائے۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اندرونی اختلافات کے علاوہ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی میں دوریاں دراصل اپنے اپنے ووٹرز کو واپس لانے کے لیے ہیں۔ ایم کیو ایم کواپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے نئے صوبے کا نعرہ مل گیا ہے۔ 
ملک میں سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ پرائیویٹ کارپوریٹ کارپوریشنوں میں تبدیل ہو چکا ہے، سیاسی پارٹیاں پرائیویٹ کمپنیوں کا روپ دھار چکی ہیں جو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ سردارذوالفقارخان کھوسہ نے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی آئینی حیثیت کو ہی چیلنج کردیا ہے۔ پولیٹیکل پارٹیزآرڈر 2002ء کی دفعہ 3 میں سیاسی پارٹیوں کے خدوخال بیان کئے گئے ہیں اور اسی آرڈر کی دفعہ 4 اور5 سے 12تک پارٹی کے اندر انتخابات کرانے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اس آرڈرکی دفعہ 4 میں پارٹی میں اندرونی اختلافات کے حل کے لئے پارٹی کے دستور میں واضح طریقہ اختیارکرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے بارے میں ادراک ہی نہیں، اس کا سنجیدگی سے نوٹس ہی نہیں لیا گیا۔ الیکشن 2002ء کے آرڈر میں بھی سیاسی جماعتوںمیں آمرانہ روش کی بارے میں حکمت عملی طے کی گئی تھی ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے بارے میں عوام کو دلفریب نعروں سے فریب دیتی رہی ہیں؛ حالانکہ یہ خاندانوں یا افرادکی پرائیویٹ کمپنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ جو خاندان یا افراد پارٹی کو چلا رہے ہوتے ہیں، وہ پارٹی میں شامل لوگوں کو اپنی پرائیویٹ کمپنی کے ایسے بلا تنخواہ ملازم سمجھتے ہیں جو مخصوص مفادات کے لئے کمپنی میں شامل ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے راستے بھی مسدود ہو گئے ہیں۔ ہر پارٹی سربراہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے متعلقہ آرٹیکلز کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ایک مخصوص ٹیم مقرر کرتا ہے جس کے انتخابات کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ کچھ غیر معمولی قسم کے خوشامدی جو پارٹی سربراہ کے منظور نظر ہوتے ہیں،پارٹی انہی ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوتی ہے۔ اب انہی خوشامدی پر منحصر ہوتاہے کہ وہ پارٹی کے سربراہ کو ایمانداری سے مشورہ دیں یا پارٹی کو بیرونی قوتوںکے ایجنڈے پر چلائیں۔ 
موجودہ پارٹی سسٹم میں کسی کی کوئی عزت اور اہمیت نہیں ہوتی، جسے پارٹی میں رہنا ہے رہے اور اگر پارٹی چھوڑنا چاہے توکوئی مضائقہ نہیں۔گلوبل صورتحال میں تبدیلی کے باعث پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی اپنے نظریات پر مکمل سمجھوتہ کر چکی ہیں۔ مذہبی، لسانی، قوم پرست اور مڈل کلاس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کے نظریات صرف یہ ہوتے ہیں کہ اپنے کارکنوں اور حامیوں میں یہ خوف پیدا کیا جائے کہ ان کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں یا پھر مخصوص سیاسی تعصبات کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ادھر حکمرانوں نے 2008ء سے اپنے مفادات کے تحت ملک میں مردم شماری ہی نہیں ہونے دی۔ مشترکہ مفادات کونسل میں سب اتحادی جماعتیں مردم شماری پر رضا مند تھیں، میاں نواز شریف نے تاخیر کی درخواست کی ۔ پیپلز پارٹی اپنے ووٹروں کو یکجا کرنے کے لئے دبائو ڈال رہی ہے کہ مہاجر صوبہ پر بات نہیں ہو سکتی۔ ایم کیو ایم کو غالباً شناخت کے بحران کا سامنا ہے ،اس لئے اس نے سندھ کے شہری علاقوں میں موجود اپنے روایتی مہاجر ووٹ بنک کاتحفظ کرنے کے لئے سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 
ایم کیو ایم نے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو متعدد مرتبہ چھوڑا؛تاہم اس بار اس نے غیر معمولی طور پر نظریاتی پہلو کو اجاگر کر تے ہوئے اختلاف کیا ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ کے لہجے سے سندھی نسل پرستی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی اجارہ داری کی لہر نظر آرہی تھی۔ وزیراعظم نے عندیہ دیا ہے کہ پاکستان میں مزیدصوبوں کی گنجائش ہے جس پر مثبت پیش رفت ہونی چاہیے۔ 
سندھ کی تاریخی ریکارڈ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت صوبہ سندھ کی اسمبلی کی 73نشستوں میں سے 37 نشستیں ہندوئوں کی تھیں۔ قائد اعظم نے سندھ کے ہندوئوں سے کہا تھا کہ وہ سند ھ نہ چھوڑیں اور پاکستان میں برابری کی بنیاد پر رک جائیں کیونکہ سندھ کے کراچی سے سکھر تک 30شہروں میں سے 24 میں ان کی اکثریت تھی اور وہ 80 فیصد زرعی زمینوں کے مالک تھے جو متروکہ وقف املاک قانون 1947ء کے تحت یعنی چھ ماہ قبل بھارت سے معاہدے کی شکل میں متروکہ املاک بن چکی تھیں یعنی بھارتی مسلمانوں کی تمام جائدادیں سرکاری طور پر مغربی پاکستان سے جانے والے ہندو شرنارتھیوں کو ملنا طے پائی تھیں اور پاکستانی ہندوئوں کی تمام جائیدادیں بشمول زرعی اراضی جوکروڑوں ایکڑ پر مشتمل تھیں بھارتی مسلمانوں کو بدلے میں ملنی تھیں۔ یہ معاہدہ آج بھی بھارت کی قانونی کتابوں میں محفوظ ہے اور اسی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناح نے آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں 11اگست 1947ء کو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں وژن پیش کیا تھا کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق میسر آئیں گے۔ لیکن پنجاب کے طاقتور مشیروں، چودھری محمد علی، ملک غلام محمد، فیروز خان نون اور ممتاز دولتانہ نے ان کی تاریخی تقریرکو سینسرکروادیا۔ بھارت نے اول روز سے انسانوں کو دیمک کی طرح چاٹ جانے والے جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑکر پھینک دیا جبکہ ہمارے ہاں آج یہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ 
متروکہ املاک قانون کے معاہدے کے مطابق متروکہ املاک پر صرف مہاجروں کا حق تھا، مقامی باشندوں کا نہیں۔ میں نے جون 2010ء میں بھارت میں اپنے آبائی ضلع روہتک کا نجی دورہ کیا تھا۔ اپنے آبائی گائوں کا ہنور اورکلانور میں اپنے آبائی گھروں میں جانے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تو ان گھروں میں مقیم ہندو مہاجروں نے جو جھنگ، چنیوٹ اور سرگودھا سے آئے تھے، بتایا کہ بھارتی متروکہ املاک کے قانون کے مطابق ان کو مسلمانوں کے چھوڑے ہوئے گھر الاٹ کئے گئے اور زمینیں بھی اسی طرح ایک زرعی فارمولہ کے تحت ان کو دی گئیں، مقامی ہندئووں کو متروکہ زمین اور جائیدادیں نہیں دی گئیں اور نہ ہی لوٹ مارکرنے کی اجازت دی گئی۔ 1951ء میں نہرو لیاقت معاہدہ کے تحت طے پایا تھا کہ پاکستا ن میں متروکہ املاک بورڈ کی سربراہی ہندو کو سونپی جائے گی تا کہ وہ اقلیتی آبادی کے مفادکو ملحوظ خاطر رکھے، لیکن اس معاہدے پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔
پاکستان میں اقلیتی متروکہ بورڈ میں لوٹ مارکو روکنے کے لئے محترم صدیق الفاروق کو جنگی بنیادوں پرکام کرنا ہوگا۔ متروکہ املاک بورڈ کو جنرل رائو ذوالفقار علی خان نے بھی انتہائی دیانتداری سے چلایا، ان کا دور مثالی دورکہلاتا ہے۔ صدیق الفاروق کی رہنمائی کے لئے مختصراً کہتا چلوں کہ مارچ 1977ء کے انتخابات میں لاہورکی قد آور سیاسی شخصیتوں کے انتخابی اخراجات بھی متروکہ ٹرسٹ بورڈ کے ذریعے ہی ادا کئے گئے تھے جس کی تفصیل میں نے اپنی کتاب میں دی ہے۔ 
پاکستان میں بھارت سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے 1972ء میں متروکہ املاک کے قانون کو ختم کر کے پاکستانی مہاجروں کے حقوق ضبط کئے گئے مگر بھارت نے آج تک شرنارتھی ہندئووں یا سکھوں کاجو پاکستان سے گئے تھے کچھ بھی ضبط نہیں کیا۔ پنجا ب میں ہندئووں کی چھوڑی ہوئی زرعی زمینوں میں سے سات لاکھ ایکڑ پنجاب کے جاگیردارانہ طبقہ نے چوری کرکے ریکارڈ غائب کروا دیا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو ملک کی گم شدہ زرعی زمینوں کا کھوج لگانے کے لئے متروکہ املاک کمیشن بنانا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں