"KDC" (space) message & send to 7575

آرٹیکل باسٹھ‘ تریسٹھ

دستورِ پاکستان کے آرٹیکلز 62 اور 63 میں ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت کی جو شرائط درج ہیں، ان کے مطابق دہری شہرت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن بیرون ملک مقیم بیشتر پاکستانی ملک کے معاملات اور اس کی ترقی و خوشحالی میں جتنی گہری دلچسپی رکھتے ہیں اس کی بنا پر پاکستان کی سیاسی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ دہری شہریت رکھنے والے اشخاص کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا جانا چاہیے۔ چند روز پیشتر قومی اسمبلی میں اس مقصد کے لئے آئینی ترمیم کا باقاعدہ بل بھی پیش کیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم دہری شہریت رکھنے والے پاکستانی قیمتی زرمبادلہ بھجواتے ہیں اس لئے انہیں ملکی انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا جانا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بیرونِ ملک مقیم دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی بھاری اکثریت پاکستان سے گہری محبت رکھتی ہے اور اس کی تعمیر و ترقی میں زیادہ سے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کی آرزو مند ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ انہی پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں میں کام کر کے تجربہ اور تربیت حاصل کی ہے۔ پاکستان کے معاملات میں ان کی سرگرم شمولیت کے راستے کھول دیے جائیں تو بہتر تعلیم و تربیت کے حامل یہ پاکستانی ملک کی خوشحالی میں پہلے سے کہیں زیادہ مفیدکردار ادا کر سکتے ہیں۔ 
جہاں تک زرمبادلہ بھیجنے کا تعلق ہے وہ اپنے اہل خانہ کو رقوم بھجواتے ہیں، اس کا پاکستان کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دہری شہریت کے حامل شہریوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت سے محترم الطاف حسین اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یقیناً سیاسی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ لندن میں مقیم رہنما پاکستان کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو سکتے ہیں۔ دہری شہریت اوراسمبلی کی رکنیت کے مسئلے کے منفی پہلوئوں کو بھی نظر میں رکھا جانا چاہیے۔ 14اگست1973ء کوجو آئین نافذ ہوا تھا اس کی حقیقی روح میں آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے یہ آرٹیکل شامل کرا یا تھا کہ دہری شہریت کے حامل کسی بھی فرد کو پاکستان کے انتخابات میں حصہ لینے کی پابندی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ایک مدت سے مطالبہ کے باوجود دہری شہریت کے حامل ہندوستانیوںکو انتخابات میں بحیثیت امیدوار شرکت توکیا ووٹ دینے کا حق بھی نہیں دیا گیا ہے۔ بھارت میں دہری شہریت کے حامل افراد کو ووٹ دینے، ووٹ کے اندراج اور انتخاب لڑنے کا حق حاصل نہیں ہے جبکہ پاکستان میں دہری شہریت کا حامل آئینی طور پر انتخاب میں ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔ بیرون ملک مقیم بھارتی شہری ہر سال 70ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ بھارت کی اس مثال کے باوجود ہمیں پاکستان کے معروضی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے حالات کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ پاکستان بیرونی ایجنٹوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور وہ دشمن ممالک کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے لئے ملک کی تعمیر و ترقی میں شرکت کی راہیں ضرور کھولی جانی چاہئیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کا حق بھی اگر اس کے لئے ضروری سمجھا جائے تو آئین میں اس مقصد کے لئے ترمیم کی جانی چاہیے مگر ایسی سخت شرائط کے ساتھ کہ پاکستان کے معاملات میںکسی بیرونی مداخلت کا راستہ ہموار نہ ہو اور پوری جانچ پڑتال کے بعد صرف انہی لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے جن کی پاکستان اور نظریہ پاکستان سے وفاداری تمام شکوک و شبہات سے بالا تر ہو۔ ملک اس وقت جن بحرانوں سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپس میں ہم آہنگی کی فضا پیدا کی جائے۔ بدقسمتی سے ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کی فکری وراثت کو چھوڑکر یہاں تھیوکریسی، آمریت ، سوشلزم اور جمہوریت کے نام پر ایسے ایسے ناکام تجربات کئے کہ ہماری معیشت و سیاست ہی نہیں عزت و توقیر بھی قصہ پاربند بن کر رہ گئی ہے، اس لئے اب ہمارے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار باقی نہیں کہ ہم یہاں صرف قائداعظم کے نظریات کو ترویج دیں اور ان کی تابندہ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ملک کو بام عروج تک پہنچائیں۔ کسی شخصی ازم کا پرچارکرنا آئین کے منافی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 2-A دستور پاکستان کی روح ہے۔ شخصی ازم کے نفاذ کا وعدہ کرنا دستورِ پاکستان کی روح کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ بلاول زرداری کو چاہئیے کہ وہ ماضی کی سیاسی وراثت کو خیر باد کہ کر عوام دوست حکمرانی کی پالیسی ترتیب دیں اور پارٹی کی ساکھ بحال کریں۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 37,3اور 38 میں معاشرے کے تمام طبقات کے لئے یکساں شہری حقوق کی ضمانت دی گئی ہے مگرا س کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ عام آدمی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہا ہے، روزگار میرٹ پر نہیں ملتا، سرکاری ملازمتیں رشوت کے بغیر نہیں مل سکتیں ، قدم قدم پر اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے مگر نوازشریف حکومت نے غریب عوام کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے ۔ قومی خزانے کو بے دردی سے لٹایا جارہا ہے۔ عوام کو ماتحت عدلیہ کے بارے میں مختلف النوع شکایات ہیں۔ 
جمہوریت عوام کے انتخابات میں اپنی مرضی کے لوگوں کو منتخب کرنے کا موقع دیتی ہے مگر 11مئی 2013ء کے انتخابات متنازع ہو چکے ہیں ، لہٰذا 11مئی 2013ء کے انتخابات سے بھی عوام کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ سیاست زدہ ادارے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور موقع پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں جو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے اسیر ہیں اور اجتماعی مفادات کو اپنی طبقاتی مصلحتوں پر قربان کرنے سے ذرا بھی نہیں شرماتے۔ انتخابی نظام میں اتنی خرابیاں ہیں کہ صاف، شفاف ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات ایک سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ پاکستان میں 1977ء سے لے کر 2013ء تک کے عام انتخابات پر دھاندلیوں کے الزامات لگے۔ عوام کو اس نظام سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اس میں امیدوار اہلیت سے زیادہ ذات ، برادری ، روپے ، پیسے ، اثر و رسوخ، پولیس گردی، ریٹرننگ افسروں کی آشیرباد، دھونس، دھاندلی سے کامیاب ہوتے ہیں اور اقتدار میں آکر عوام سے اس لئے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ وہ عوام کے حقیقی ووٹوں سے اقتدار میں نہیں آتے۔ ملک میں موجودہ سیاسی بحران بھی انتخابی نظام کی خرابیوں کا نتیجہ ہے۔ 
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کوئی جھوٹا عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتا اور سچ کا معیار مقررکرنا پڑے گا۔ نتائج کچھ بھی ہوں، عدالت صادق و امین کی تشریح کرے گی۔ اگر عوامی نمائندوں کے صادق اور امین ہونے کے اصول پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو شاید پارلیمنٹ کی موجودہ نشستوں کے لئے آدھے امیدوار بھی نہ مل سکیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا ہے کہ کیس کے فیصلے سے پیدا ہونے والے نتائج کی پروا نہیں ہے۔ نتائج کچھ بھی ہوں عدالت صادق و امین کی تشریح کرے گی ، چاہے ایک ممبر فارغ ہو یا آدھی اسمبلی ہی فارغ ہو جائے۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر، آئین کے مطابق قوم سے سچ بولنا اور حق کی بات کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے کیونکہ آئین کہتا ہے کہ عوام کی نمائندگی کوئی جھوٹا شخص نہیںکر سکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں