"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی آئینی و قانونی حیثیت

سردار ذوالفقار کھوسہ نے اصل مسلم لیگیوں کا کنونشن بلانے کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ نوازشریف خود کو قائداعظم ثانی کہلواتے ہیں۔ وہ قائداعظم کی مسلم لیگ کی وارث نہیں ہیں۔ سردار ذوالفقار کھوسہ کے نزدیک ان کو قائداعظم اور فاطمہ جناح کی اصل اور حقیقی مسلم لیگ کا اِدراک ہی نہیں ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دسمبر1947ء میں کراچی میں خالق دینا ہال میں آل انڈیا مسلم لیگ کو تحلیل کر دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ ان کا مقصد پاکستان کا قیام تھا‘ جو آل انڈیا مسلم لیگ نے حاصل کر لیا ہے‘ لہٰذا اب ان کا آل انڈیا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ کالعدم آل انڈیا مسلم لیگ کے سینئر رہنمائوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو نئی مسلم لیگ کا سربراہ بنانے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے وہ سیاسی پارٹی کی سربراہی قبول نہیں کر سکتے۔ بعدازاں مسلم لیگ کے سینئر رہنمائوں نے فاطمہ جناح کو نئی سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو قائداعظم شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے خالق دینا ہال سے باہر تشریف لے گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سابق رہنمائوں نے پاکستان میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے نئی جماعت کی تشکیل کا فیصلہ کیا اور کئی ناموں پر بحث ہوتی رہی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد 'آل پاکستان مسلم لیگ‘ نام رکھا گیا اور اس کے پہلے سربراہ چوہدری خلیق الزمان نامزد ہوئے۔ آئین ساز اسمبلی کے تمام ارکان آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ بعد میں پاکستان میں سیاسی انتشار، محلاتی سازشوں‘ مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ اور مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے عناصر کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بہ حالت مجبوری آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنی پڑی جو قائداعظم کے ارشادات اور اصولوں کے منافی فیصلہ تھا۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ تبدیل ہوتے رہے۔ خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر اور خان عبدالقیوم خان بھی سربراہ بنے۔ محترمہ فاطمہ جناح پاکستان مسلم لیگ میں مادرِ ملت اور رہبر کی حیثیت سے شامل ہوتی رہیں۔ 8اکتوبر 1958ء کے مارشل لاء کے وقت پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ کی حیثیت شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ جیسی تھی کیونکہ پاکستان میں ری پبلکن پارٹی حکومت کر رہی تھی جس کے سربراہ سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان تھے‘ جو صوبہ مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ تھے۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جب 8جون 1962ء کو ملکی دستور نافذ کر کے ملک سے مارشل لاء اٹھانے کا اعلان کر دیا تو چوہدری خلیق الزماں اور درپردہ ممتاز دولتانہ، نواب مشتاق گورمانی، مخدوم حسن محمود اور مشرقی پاکستان سے محمد علی بوگرا جیسے رہنمائوں کی مشترکہ کاوشوں سے پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے نام پر نئی جماعت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو اس جماعت میں اہم کردار سونپا گیا۔ مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے پنجاب کے تمام رہنمائوں کو پاکستان مسلم لیگ کنونشن میں جوق در جوق شامل کروا دیا‘ جن میں ملتان کی سرکردہ شخصیات سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ اسی دوران محترمہ فاطمہ جناح کے ایماء پر ممتاز محمد خان دولتانہ اور ان کے ہم نوا سیاسی رہنمائوں نے پاکستان مسلم لیگ کونسل کا احیاء کر دیا۔ پاکستان مسلم لیگ کونسل میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تسلسل میں قائم کی گئی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ کونسل کے پلیٹ فارم سے محترمہ فاطمہ جناح ، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی اور مشرقی و مغربی پاکستان کی قد آور سیاسی شخصیات نے قائداعظم محمد علی جناح کے مشن کو آگے بڑھایا اور پیر پگاڑا کی سربراہی میں اس جماعت کو زندہ رکھا۔
بد قسمتی سے پاکستان مسلم لیگ کنونشن 7دسمبر1970ء کے قومی انتخابات میں ہمیشہ کے لئے تحلیل ہو گئی اور ان کے فنڈز‘ جو اس دور میں چار کروڑ روپے تھے‘ کو جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء آرڈر کے تحت منجمد کر دیا۔ بقول رائو عبدالرشید خان‘ جو اس وقت ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو پشاور تھے‘ ان کی وساطت سے جنرل یحییٰ خان کے برادر خورد آغا محمد علی خان‘ جو انٹیلی جنس بیورو پاکستان کے ڈائریکٹر تھے‘ کے ایماء پر ان فنڈز میں سے خان عبدالقیوم خان کی پاکستان مسلم لیگ کو بیس لاکھ روپے دیے گئے۔ 
جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان مسلم لیگ کونسل کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی‘ جس کے صدر چوہدری ظہور الہٰی تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں غیر فعال قرار دے دی گئی تھیں لیکن درپردہ پاکستان مسلم لیگ کونسل کو جنرل ضیاء الحق اور گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی کی سرپرستی حاصل رہی۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان مسلم لیگ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی سربراہی میں فعال ہو گئی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل پاکستان مسلم لیگ کا احیاء کر دیا گیا جو تاریخی طور پر پاکستان مسلم لیگ کونسل کا تسلسل تھا۔ جناب نواز شریف چونکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے لہٰذا غلام حیدر وائیں پنجاب مسلم لیگ کے صدر رہے۔ اسی دوران پاکستان مسلم لیگ میں بغاوت ہو گئی۔ ان دونوں محمد خان جونیجو پاکستان مسلم لیگ کے صدر تھے۔ پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور ایک گروپ کے میاں محمد نوازشریف صدر بنے جو پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) کہلائی۔ محمد خان جونیجو کے انتقال پر پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ میں‘ جماعت کے صدر حامد ناصر چٹھہ، اقبال احمد خان (مرحوم) اور منظور وٹو نمایاں رہے‘ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نوازشریف، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، غلام حیدر وائیںاور دیگر رہنمائوں پر مشتمل تھی۔ 
ستمبر1993ء میں قومی انتخابات کے لئے جب پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) نے پارٹی کے انتخابی نشان کے لئے لالٹین کا نشان لینے کے لئے الیکشن کمیشن کو درخواست دی تو پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ کے صدر اقبال احمد خان (مرحوم) نے بھی انتخابی نشان لالٹین کے لئے دستاویزات پیش کر دیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان دلچسپ، تاریخی اور عبرت آموز تاریخی مکالمے ہوئے۔ سیشن کی سربراہی اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) نعیم احمد‘ ارکان کمیشن جسٹس بشیر جہانگیری اور جسٹس شیخ ریاض احمد کر رہے تھے۔ میں نے بطور ڈپٹی سیکرٹری الیکشن کمیشن کے اس کارروائی میں حصہ لیا تھا اور الیکشن کمیشن کے سیکرٹری ایم ایم کاظم تمام کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) کی جانب سے سرتاج عزیز نے موقف اختیار کیا کہ ان کی جماعت ہی آل پاکستان مسلم لیگ کے دستور اور منشور پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت ہی قیامِ پاکستان کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔ 
 
انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دستور الیکشن کمیشن کو پیش کر دیا۔ پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ کے صدر مرحوم اقبال احمد خان نے اپنے دلائل میںموقف اختیار کیا کہ ان کی جماعت ہی پاکستان مسلم لیگ کونسل کا تسلسل ہے اور انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کا دستور پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ دستور ہے‘ جسے دسمبر1947ء میں آل پاکستان مسلم لیگ کا دستور بنایا گیا تھا اور جس کی قائداعظم محمد علی جناح نے منظوری دی تھی اور آج بھی اسی دستور پر پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ کام کر رہی ہے؛ چنانچہ پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ ہی قائداعظم کی جماعت کی وارث ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا جو دستور الیکشن کمیشن میں بطور دستاویزات جمع کرایا گیا ہے‘ وہ وہی دستور تھا جو پاکستان مسلم لیگ کنونشن کا تھا جو فیلڈ مارشل ایوب خان کی سربراہی میں 1963ء میں مرتب کیا گیا تھا۔ جسٹس نعیم احمد چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ کو حقیقی مسلم لیگ تسلیم کرتے ہوئے لالٹین کا نشان الاٹ کر دیا اور پاکستان مسلم لیگ کو ہی قائداعظم کی جماعت قرار دے دیا۔
جناب سرتاج عزیز پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مقدمہ ہار گئے۔ لالٹین کے انتخابی نشان سے محرومی کے بعد انہوں نے ٹریکٹر کا نشان لینے کی استدعا کی، لیکن وہ انتخابی نشان غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی کو چند گھنٹے پہلے الاٹ ہو چکا تھا۔ اسی بد حالی اور پریشانی میں شیر کا انتخابی نشان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا اور دو گھنٹے کے بحث مباحثے کے بعد ان کو شیر کاانتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا۔ 
جناب حامد ناصر چٹھہ اب بھی پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ کے صدر ہیں۔ انہوں نے بعض مصلحتوں کی خاطر اپنی جماعت کو پاکستان مسلم لیگ میں ضم کر دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کو (قائداعظم) لگانے کی ضرورت قانونی طور پر نہیں ہے۔پاکستان مسلم لیگ کا صحیح جانشین جاننے کیلئے مرحوم مجید نظامی کی نظریہ پاکستان فائونڈیشن اور جناب زاہد ملک کی نظریہ پاکستان کونسل کو تحقیق کرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں