"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی دھاندلیاںاور جوڈیشل کمیشن

11مئی 2013ء کے عا م انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی یا نہیں، اس کا فیصلہ کرنے کے لیے آئین میں جو طریق کار متعین کیا گیا ہے‘ اس کے مطابق وزیراعظم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تحریری طورپر جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کیلئے کہتے ہیں۔ کمیشن کی تشکیل چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار ہے۔ اس میں عدلیہ سے غیر متعلق اداروں کے نمائندے شامل نہیں ہوتے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس میں صرف ججوں کو شامل کیا جائے۔ جب ایسا با اختیار کمیشن قائم ہوگا تو کوئی اس پر تنقید نہیں کر سکے گا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اورسول سوسائٹی کے اداروں کابھی یہی کہنا ہے کہ اگردھاندلی ہوئی ہے تو مئی 2013ء کے انتخابات کوایسے طریقے سے کالعدم قرار دیا جائے‘ جیسے یہ انتخابات سرے سے ہوئے ہی نہیں۔ 7مارچ 1977ء کے انتخابات کومارشل لاء آرڈر کے تحت 5جولائی 1977ء کوکالعدم قراردیاگیا تھا اور انتخابی انکوائری کی رپورٹ کی روشنی میں گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے فیصلہ دیا گیا تھا کہ ملک میں 7مارچ 1977ء کو سرے سے انتخابات ہی نہیں ہوئے ۔
پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کا نظام بکھر چکا۔ سیاسی جماعتوں کے دیرینہ رہنمائوں اور کارکنوں کی حیثیت ختم ہو کے رہ گئی۔ سیاست میں پیسے کا عمل دخل بہت زیادہ ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ قربانیاں دینے والے سیاسی رہنمائوں اورکارکنوں کی نسبت ان لوگوں کوسیاسی جماعتوں میں زیادہ اہمیت مل گئی ہے جوسرمایہ کاری کرسکتے ہیں یا فنڈز لاسکتے ہیں۔ سیاست کا عوام پر انحصار بھی ختم ہو چکا۔ میرے خیال میں اقتدار کے حصول کے لئے ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے لابنگ کرناپڑتی ہے۔ لابیسٹس کے گروہ بھی سیاسی جماعتوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ حکومتوں میں بھی انہیں اہم عہدے ملتے 
ہیں۔ ان حالات میں11مئی2013ء کے انتخابات سے قبل ہی یہ خدشات کھل کرسامنے آگئے تھے کہ انتخابی عمل کواپنے حق میں کرنے کے لئے جن سیاسی قوتوں نے سرمایہ کاری کی تھی ان کو ناکامی کے آثار نظرآنے لگے ہیں۔ میرے خیال میں انہوں نے ان انتخابات کومشکوک بنانے میں اہم کردار اس لیے ادا کیا کہ جن قوتوں نے فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنوایا تھا‘ ان کومعلوم تھا کہ وہ الیکشن کروانے کی اہلیت نہیں رکھتے اور ریٹرننگ افسران جوحرکات کررہے تھے اس سے بھی انتخابات کے آزادانہ اور غیرجانبدارانہ ہونے کے بارے میں خدشات بڑھ گئے۔ نتائج آنے کے بعد حکمران جماعت اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کی اس متفقہ رائے میں وزن تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی اقتدار چھوڑنے کیلئے آمادہ تھی کہ دھاندلی کے ساتھ ساتھ اسے عوام نے جو سزا دی تھی‘ وہ اس کی سچائی پر یقین رکھتی تھی۔ ویسے بھی صدر زرداری احتساب سے بچنے کے لئے حکومتی دور کی مفاہمت کی پالیسی کوجاری رکھناچاہتے تھے؛ پیپلزپارٹی احساس کمتری میں مبتلا ہوگئی اوراپوزیشن لیڈر نے صدر زرداری کے ایماء پر فرینڈلی اپوزیشن کی حیثیت اختیار کرلی تو تحریک انصاف اورعوامی تحریک نے وزیراعظم نوازشریف کے اقتدار کوچیلنج کردیا۔ نوازشریف نے عمران خان اورڈاکٹر طاہر القادری کے دبائو میں آکر 11مئی2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں جوڈیشل کمیشن بنانے کے پیش کش کردی۔ 
انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ماتحت عدالتی کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو نمائندگی دینے کے بارے میں عمران خان کے مطالبے اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے اس کی مخالفت سے ملک کے سیاسی بحران میں مزید شدت پیدا ہونے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت نے عمران خان کی پیش کردہ تجاویز کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہناہے کہ عدالتی کمیشن صرف ججوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے ناموں کافیصلہ بھی عدالت عظمیٰ خود کرتی ہے ۔ حکومت کا کام انکوائری کیلئے سہولت فراہم کرنا ہے، البتہ جوڈیشل کمیشن کی بجائے تحقیقات کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم مقرر کرنا مقصود ہوتو اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کوشامل کیا جاسکتا ہے۔ اسحاق ڈار کی تجویز میں وزن ہے۔ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم مقرر کی جاسکتی ہے اور عمران خان اور حکومت باہمی مشاورت سے جسٹس ناصر اسلم زاہد کو اس کا سربراہ مقرر کر سکتے ہیں۔ بادی النظر میں عمران خان نے جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کی شمولیت کا جوعندیہ دیا تھا‘ وہ حقیقت میں جوڈیشل کمیشن کی معاونت کے زمرے میں آتاہے ۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کواس ابہام کے ازالے کیلئے براہ راست عمران خان سے مذاکرات کیلئے آگے بڑھنا چاہیے‘ کیونکہ 28اگست اور30اگست کے دوران جب حکومتی ٹیم تحریک انصاف کی ٹیم سے مذاکرات کررہی تھی تو اس میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سینئر افسران بھی شامل تھے ۔ اسحاق ڈار کے ساتھ وہ کنونشن سنٹر بھی گئے تھے ۔ ان مذاکرات میں دو سینئر افسر تو وردی سمیت شامل ہونا چاہتے تھے مگر ایک سینئر فوجی آفسر نے انہیں روک دیا۔ پھروہ بغیر وردی کے مذاکرات کاحصہ بنے۔ جہانگیر ترین اوراسحاق خاکوانی کے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔ میرے ذاتی دوست اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ نہ صرف کنونشن سنٹر میں بلکہ جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر بھی جتنی مرتبہ مذاکرات ہوئے‘ ان اداروں کے افسران ان میں شریک ہوئے۔ چارٹر آف ڈیمانڈ میں‘ جوعمران خان کی ہدایات پر عبدالحفیظ پیرزادہ اوران کے قانونی ماہرین کی ٹیم نے تیارکیاتھا‘ انتخابی معاملات کی نوک پلک کی درستی کیلئے راقم الحروف کو بھی 30 اگست کو مدعو کیا گیاتھا ۔اسحاق ڈار ، پرویز رشید ، احسن اقبال حکومتی ٹیم کی جانب سے مذاکرات کیلئے آرہے تھے تو میں نے بھی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم کے ہمراہ دیکھا تھا۔
بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ حکومت کو اپنے رویے میں اسی طرح لچک پیدا کرنی چاہیے‘ جس طرح وزیراعظم بھٹو نے پاکستان قومی اتحاد کی عوامی تحریک کے اصرار پر انتخابی دھاندلیوں کی انکوائری کرنے اور ازسرِ نو انتخابات کرانے کے لئے مذاکرات شروع کردیئے تھے۔ بدقسمتی سے اس قومی بحران کے دوران الیکشن کمیشن انتہائی بے بسی سے حکومت کے احکامات کا منتظر رہا اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کوپورا کرنے میں ناکام رہا۔ عمران خان نے دھاندلیوں کی تحقیقات سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کرانے کامطالبہ کیاتھا جس پر حکومت نے کمیشن کے قیام کے لئے عدالت عظمیٰ کو 13اگست کو ریفرنس بھجوا دیا تھا۔ یہ کمیشن اگرابھی تک قائم نہیں ہوا تو اس کی دوسری وجوہ میں سے ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قانونی ماہرین کے مطابق سپر یم کورٹ آئین کے تحت انتخابی تنازعات میں اپیل کورٹ کادرجہ رکھتی ہے ۔ تمام انتخابی عذر داریاں الیکشن ٹربیونل میں سماعت کی جاتی ہیں اوران کے فیصلوں کے خلاف کوئی اپیل ہو تو اس کی سماعت سپریم کورٹ کرتی ہے۔ شاید اسی آئینی تقاضے کے مطابق عدالت عظمیٰ نے تاحال حکومت کی درخواست پر کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے ، لیکن ملک کے موجودہ بحران کے ازالہ کیلئے آئین کی کسی بھی تشریح کے مطابق عدالتی کمیشن قائم کردیا جائے تو اسے سپریم کورٹ کی اتھارٹی کا درجہ حاصل ہوگا‘ جب کہ آئی ایس آئی اورایم آئی کے حکام کی شمولیت کے ساتھ ساتھ نادرا، الیکشن کمیشن، پرنٹنگ پریس کارپوریشن آف پاکستان ، پاکستان سائنٹیفک ریسرچ کونسل اور متعلقہ اداروں کی معاونت میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ کراچی کی بدامنی کے حوالہ سے سپریم کورٹ نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور رینجرز کے حکام بھی تو شامل کیے تھے۔ تحریک انصاف نے وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے میں لچک پیدا کر کے مثبت پیغام دیاہے۔اس کی روشنی میں ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے وزیراعظم نوازشریف کو عمران خان سے براہ راست مذاکرات کرنے چاہئیں۔ ملک کے پالیسی ساز اداروں پر قوم کااعتماد اسی طرح اٹھ گیا ہے جس طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے موقع پر صدر زرداری کو اقوام متحدہ کی ٹیم سے انکوائری کرانا پڑی تھی۔ جب اقوا م متحدہ کی ٹیم کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیںتو عدالتی کمیشن کی معاونت اور رہنمائی کیلئے ایم آئی اور آئی ایس آئی کی شمولیت پر اعتراض کیوں ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں