"KDC" (space) message & send to 7575

با اختیار چیف الیکشن کمشنر‘ وحدتِ پاکستان کی علامت

دستور پاکستان کے آرٹیکل بڑے واضح ہیں۔ ان آرٹیکلز میں اپنی پسند اور ذاتی مفادات کے پیش نظر جب بھی پیوندکاری کی گئی‘ ملک سیاسی اور انتخابی انتشار کے گرداب میں پھنستا رہا۔ آئین کے آرٹیکل 42کے تحت صدارتی الیکشن کا پروگرام جاری ہونے کے بعد اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ اِسی آرٹیکل میں واضح کر دیا گیا ہے کہ صدارتی الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اسی آرٹیکل کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 6اگست کو صدارتی الیکشن پروگرام جاری کر دیا۔ بعض اندیشوں کے تحت حکمران جماعت کے لیے یہ تاریخ موزوں نہ تھی۔ لہٰذا راجہ ظفر الحق نے الیکشن کمیشن میں صدارتی الیکشن کے پروگرام میں تبدیلی کے لئے درخواست داخل کی۔ الیکشن کمیشن نے ان کی استدعا کو آئین کے آرٹیکل 42کے تحت مسترد کر دیا گیا تو راجہ صاحب نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف آئینی درخواست دائر کر دی۔ چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے اس کی آئینی درخواست کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے صدارتی الیکشن کے پروگرام میں تبدیلی کے احکامات جاری کر دیے۔ اس فیصلے کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنے نمائشی عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تو چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج تصدق حسین جیلانی کو آئین کے آرٹیکل 213کے تحت چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا۔ لہٰذا جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے صدارتی انتخاب کروایا۔ بدقسمتی سے ملکی آئین کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیل کرنے کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے اور صدارتی الیکشن کا انعقاد بھی اسی فہرست کا حصہ ہے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا تھا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی 12دسمبر2013ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد وہ صدارتی الیکشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے‘ کیونکہ بقول ان کے‘ صدارتی الیکشن آئین کے آرٹیکل 42 سے انحراف کرتے ہوئے کروایا گیا؛ تاہم اعتزاز احسن اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا مسئلہ ابھی تک طے نہیں کر سکیں اور اب سپریم کورٹ نے 24نومبر تک حتمی مہلت دے دی ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں دیکھنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اس معاملہ پر کوئی اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ماضی کی طرح چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عدلیہ کرے گی۔ اگر معاملہ عدالت تک نہ پہنچا تو یوںمحسوس ہورہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر تو ہو جائے گا لیکن سیاسی جماعتوں کے مکمل اتفاق رائے سے نہیں بلکہ محض آئینی طریقہ کار کے مطابق ضابطے کی کارروائی کے بعد یہ تقرری ہو گی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 213میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرر کے لئے جو طریقہ کار دیا گیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی وسیع تر مشاورت کے ساتھ ایک ایسی شخصیت کو اس عہدے پر فائز کیا جائے، جو نہ صرف سب کے لئے قابل قبول ہو بلکہ وہ شخصیت حقیقی معنوں میں قابلِ احترام ہو اور اس کی دیانت داری اور غیر جانبداری کو سب تسلیم کرتے ہوں، لیکن چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر جب مشاورت کا عمل شروع ہوتا ہے تو آئین کی منشاء پوری نہیں ہوتی کیونکہ مشاورت کے عمل کے دوران اور تقرری سے قبل ہی چیف الیکشن کمشنر کو متنازع بنا دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جو شخص اس عہدے کے لئے نامزد ہوتا ہے وہ متنازع ہوتا ہے بلکہ سیاسی جماعتیں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہی شخص غیر جانبدار ہے‘ جس کا انہوں نے نام دیا ہے‘ دوسری سیاسی جماعتوں کے نامزد حضرات جانبدار ہیں۔
پاکستان کے انتخابی نظام میں کئی نقائص ہیں۔ ماضی میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں‘ ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ انتخابی عمل پر بہت سی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر کوئی چیف الیکشن کمشنر مکمل دیانتداری اور غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے تو بھی انتخابی عمل پر لازماً سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر کوئی چیف الیکشن کمشنر اپنی تقرری سے پہلے متنازع نہیں ہوتا تو انتخابی نتائج کے بعد ضرور ہو جاتا ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ کو یہ دوسرا موقع ملا ہے کہ وہ آئینی طریقہ کار کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے لئے صدر مملکت کو کوئی متفقہ نام پیش کرے‘ لیکن پہلی بار بھی پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہوئیں اور دوسری مرتبہ بھی ابھی تک ناکام ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قائدین کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہے کہ انتخابی نظام میں بہت سے نقائص ہیں لہٰذا وہ اپنی مرضی کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کرانا چاہتی ہیں۔ تنازعات سے بچنے کے لئے بہتر یہی ہے کہ انتخابی نظام کے نقائص دور کیے جائیں اور ایک ایسا شفاف انتخابی نظام وضع کیا جائے کہ چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے دیگر افسران، ریٹرننگ افسران اور غیر سیاسی قوتیں انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاںدنیا میں روزانہ کہیں نہ کہیں انتخابات ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک جمہوری عہد ہے۔ ہمیں دنیا کے تجربات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے ۔ 
دنیا میں کہیں اس طرح عوامی مینڈیٹ ہائی جیک نہیں کیا جاتا‘ جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے۔ دنیا میں کہیں اس قدر جعلی ووٹ نہیں بھگتائے جاتے‘ جتنے پاکستان میں بھگتائے جاتے ہیں۔ دنیا میں کہیں اسٹیبلشمنٹ اور عالمی قوتیں انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوتیں اور نہ ہی پولنگ سٹیشنوں یا ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں ان کی مداخلت نظر آتی ہے۔ البتہ دنیا میں انتخابات سے پہلے عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جیسا کہ بھارت میں را انتخابی نتائج کے لئے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے میڈیا ہائوسز کی خدمات حاصل کرتی ہے‘ لیکن کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ڈالے گئے ووٹوں کے برعکس انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا جائے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا ہے۔ دنیا میں ووٹ ڈالنے سے لے کر حتمی نتائج مرتب کرنے تک سارا عمل شفاف ہوتا ہے اور اس شفافیت کو جدید ٹیکنالوجی سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں انتخابی نظام میں نقائص دور کرنا چاہئیں تاکہ جعلی نتائج کا راستہ بند ہو۔ یہ راستہ بند ہو جانے سے غیر مرئی قوتوں کا انتخابی عمل پر کنٹرول ختم ہو جائے گا ۔ انتخابی نظام مضبوط ہو تو چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ کبھی متنازع نہیں بن سکتا۔ الیکشن سے پہلے انتخابی عمل اور عوامی رائے عامہ پر غیر قانونی طریقے سے اثر انداز ہونے کے امکانات کا بھی خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن بااختیار ہے۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی وہاں کوئی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق اور انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعتوں اور افراد کو سزا دے سکے۔ وہاں ایسی سزائوں کی بے شمار مثالیں ہیں۔ الیکشن کے اعلان سے حتمی نتائج مرتب ہونے تک بھارت میں تمام 
مرکزی اور ریاستی حکومتیں الیکشن کمیشن کے احکامات کی پابند ہوتی ہیں۔ الیکشن ڈیوٹی کرنے والے سرکاری افسران اور اہل کار اس دوران حکومتوں کے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے احکامات مانتے ہیں۔ جعلی ووٹ روکنے کے لئے جدید الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایجاد ہو چکی ہے اور اس کی وجہ سے شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو چکا ہے۔ 
پاکستان میں مستعار لئے ہوئے ریٹرننگ افسران کی کارکردگی یہ رہی کہ مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو تجویز دی کہ امیدواروں ، نیب ، ایف بی آر اور دیگر اداروں سے امیدواروں کا ریکارڈ لے کر ریٹرننگ افسران کو بھجوا دیا جائے تاکہ آئین کے آرٹیکل 63-62کے مطابق امیدواروں کی اہلیت اور نا اہلیت کا فیصلہ کریں اور حقیقی معنوں میں کردار کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کی جائے لیکن چیف الیکشن کمشنر نے یہ دلیل دی کہ ریٹرننگ افسران کا تعلق عدلیہ سے ہے ‘ اس لئے وہ ان کو ایسا کوئی حکم نہیں دے سکتے۔ اگر جنرل کیانی کی اس تجویز پر عمل ہوتا تو اس کا تحریکِ انصاف ، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کو فائدہ جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو نقصان ہوتا۔ وفاقی محتسب ٹیکس شعیب سڈل نے بھی اسی طرز کا تحریری ریفرنس چیف الیکشن کمشنر کو بھجوایا تھا اور ذاتی طور پر بھی ان کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے جنرل کیانی، شعیب سڈل، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا کی تجاویز کو نظر انداز کردیا‘ جس سے سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
میرا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور پارلیمانی کمیٹی کو سپریم کورٹ کے معزز سابق جسٹس طارق پرویز کے نام پر اتفاق کر لینا چاہیے‘ کیونکہ با اختیار ، غیر جانبدار اور مضبوط کردار کا چیف الیکشن کمشنر ہی پاکستان کی وحدت کی علامت ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں