"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات اور حکومت کی عدم سنجیدگی

انتخابی اصلاحات کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی کی سب کمیٹی نے ملک کیلئے انتخابی نظام میں دور رس تبدیلیاں لانے اور الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 218اور 219کے تحت قانونی طور پر آزاد اور خودمختار بنانے کیلئے‘ سیاسی جماعتوں ، قانونی حلقوں اور سول سوسائٹی سے ملنے والے تجاویز کی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ریٹرننگ افسران اور الیکشن کے دوران خدمات سر انجام دینے والے الیکشن عملے اور پولنگ سٹیشنوں پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو الیکشن کمیشن کے ماتحت کرنے کی منظوری دی‘ جو میرے نزدیک خاص اہمیت کی حامل نہیں۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو آئین کے آرٹیکل 219کی روشنی میں انتخابات کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو الیکشن کمیشن کے تابع کرنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 221میں ترمیم کرنا چاہیے۔ ملک کی بیوروکریسی، وزیر اعظم، صوبائی وزراء اور دیگر تمام ادارے الیکشن کمیشن کی نگرانی میں اپنے فرائض انجام دیں اور انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی الیکشن کمیشن کے سامنے جواب دہ کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ فی الوقت انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو پولنگ کیمپ (سٹیشن) تک محدود کرنا چاہتی ہے۔ یوں لگتا ہے‘ کمیٹی سیاسی پارٹیوں ، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے ۔ آئندہ الیکشن کمیشن انتخابی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کے مرتکب انتخابی سکیورٹی عملے کے خلاف براہ راست کارروائی کر سکے گا۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن کو اس طرح کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کا ہر موقف حقائق کے برعکس ہے۔ کیونکہ موجودہ الیکشن قوانین میں یہ شقیں موجود ہیں جس کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی عمل کو مشکوک بنانے والے عملے کے خلاف عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 91کے تحت کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ کمیشن ایسے اختیارات سے مکمل طور پر لیس ہے۔ اب اگر الیکشن کمیشن براہ راست کسی انتخابی عملہ کی کوتاہی پر کارروائی کرتا ہے تو عمل درآمد تو متعلقہ محکمے یا کورٹ نے ہی کرنا ہے۔ بعد ازاں اعلیٰ عدالتیں ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہونے کے فوراً بعد الیکشن کمیشن کے احکامات کو کالعدم قرار دینے کے احکامات جاری کرتی ہیں۔ جیسا کہ الیکشن ٹربیونلز کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتیں ریلیف دینے میں دیر نہیں کرتیں۔ درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ الیکشن ٹربیونلز جب کسی رکن اسمبلی کے خلاف نا اہلیت کے بارے میں احکام جاری کرتا ہے تو چند روز بعد ہی اعلیٰ عدالتیں اُسے بحال کر دیتی ہیں۔ لہٰذا انتخابی اصلاحات کمیٹی کو ان پہلوئوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔ 
انتخابی اصلاحات کمیٹی وقت گزاری کر رہی ہے۔ حکومت اہم اور ناگزیر اصلاحات میں سنجیدہ نہیں۔ ملک میں پارلیمانی نظام ناکام ہوگیا ہے۔ صدارتی پارلیمانی نظام کو متعارف کراتے ہوئے صدر، وزیر اعظم اور سینٹ کے انتخابات براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ پارٹی کے اندر انتخابات کی ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن کو دینے‘ موروثی سیاست کے خاتمے کیلئے دو مرتبہ سے زیادہ پارٹی سربراہ ہونے پر پابندی، بیلٹ پیپر میں ناپسندیدہ کے کالم کا اضافہ، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیومیٹرک میں درپیش مشکلات کو دور کرنے، حکومت اور ارکان سینیٹ کی مدت چار سال کرنے کیلئے جامع اصلاحات کی جائیں۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی ملک کو درپیش انتخابی نظام میں ترامیم‘ حقیقی اور انتخابی اصلاحات نافذ کرنے کی بجائے ریٹرننگ افسران اور پریزائیڈنگ افسروں کوالیکشن کمیشن کے ماتحت کرنا کوئی بڑی اصلاحات نہیں ہیں۔ کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 91کے تحت الیکشن کمیشن‘ ریٹرننگ افسران اور الیکشن عملہ کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا مجازہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو ملک کے انتخابی نظام میں ایسی تبدیلیاں لانے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جس سے ملک میں موروثی سیاست کا ازالہ ہو سکے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی کنونشنل مسلم لیگ کے دستور اور دیگر سیاسی جماعتوں کے دستوروں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کہ کنونشنل مسلم لیگ کے دستور میں یہ شق موجود تھی کہ پارٹی کا سربراہ تیسری بار پارٹی کا صدر بننے کا مجاز نہیں ہو گا اگر ملک میں جنرل یحییٰ خان سازش نہ کرتے تو ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل سے 1970ء میں پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہو جاتے۔ کیونکہ فیلڈ مارشل ایوب خان مسلم لیگ (کنونشنل) کے دستور کے مطابق تیسری بار صدر نہیں بن سکتے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو وزارت خارجہ سے علیحدگی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (کنونشنل) کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ پر رہنا چاہتے تھے لیکن مغربی پاکستان کے وزیرداخلہ قاضی فضل اللہ، پیر علی محمد راشدی ، احمد سعید کرمانی ، خواجہ شہاب الدین ، جنرل موسیٰ خان اور دیگر سیاسی رہنمائوں نے سازشوں سے بھٹو کے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں کنونشن لیگ سے کنارا کشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ جس پر انہیں پیپلز پارٹی بنانا پڑی۔ 
انتخابی اصلاحات کمیٹی کو سینٹ کے بارے میں غوروخوض کرنا چاہیے کیونکہ موجودہ صورت حال میں سینٹ کے انتخابات سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے نتیجہ میں بند ر بانٹ ہوتی ہے ‘ جس کی وجہ سے ایوان ِبالا حقیقی عوامی نمائندگی سے محروم رہتا ہے۔ سینٹ کی نشستوں کا بڑے پیمانوں پر کاروبار ہوتا ہے۔ نشستیں کروڑوں روپے میں فروخت ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مفادات پرست لوگ پارلیمان کا حصہ بن جاتے ہیں اور عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔ اس طرح انتخابی اصلاحات کمیٹی کو آئین کے آرٹیکل 62اور63میں ابہام کو دور کرنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا سے سے وابستہ دانشوروں کا مطالبہ یہی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیومیٹرک متعارف کرانے سے نظام کی شفافیت میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ جس کیلئے آئین کے آرٹیکل 224میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک میں اگر کسی سطح پر خرابیاں ہیں تو اسے بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے انتخابات میں استعمال سے ایک مرتبہ اخراجات تو ہوں گے؛ تا ہم بعد میں انتخابی اخراجات میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔ 
انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ تصادم کا نقصان صرف اور صرف ریاست اور نظام کو ہو گا۔ حکومتیں ایسے مرحلوں پر برداشت اور تحمل سے کام لیتی ہیں مگر موجودہ حکومت میں شامل لوگ ایسے لفظوں سے آشنا نہیں۔ سب نگاہیں30نومبر پر لگی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہے یا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں