"KDC" (space) message & send to 7575

نئی بحث

سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے ایک فیصلے نے حکومتی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے‘ کیونکہ مقدمے میں شامل ہونے والی تینوں شخصیات کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جائے گا اور حکم کی خلاف ورزی پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو سکتے ہیں۔ کیس کے فیصلے میں تاخیر سے سابق صدر پرویز مشرف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ غالباً حکومت بھی نہیں چاہتی کہ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ کسی نتیجہ پر پہنچے۔ اگر ٹرائل کے ذریعے سزا ہوتی تو شاید اس پر عمل درآمد نہ ہو سکتا اور ماضی قریب کی تاریخ دہرائے جانے کا اندیشہ تھا۔ اس کیس میں ایف آئی اے کی رپورٹ جامع اور حتمی نہیں تھی کیونکہ ایف آئی اے نے اس وقت کی کابینہ، چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور دیگر سے تحقیقات نہیں کی جو اس رپورٹ کی بہت بڑی خامی تھی۔
خصوصی عدالت نے بنیادی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے کہ 3نومبر2007ء کے اقدام میں سابق صدر مشرف اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ دیگر اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔ اب اگر پرویز مشرف کو بحیثیت آرمی چیف ایمرجنسی کے نفاذ کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے تو پھر 28نومبر2007ء کے بعد ایمرجنسی کو ختم کیوں نہیں کیا گیا۔ اگر پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی لگائی تھی تو 28نومبر2007ء کے بعد وہ ثانوی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ اس صورت حال میں جھول اور ابہام دکھائی دیتا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے راقم الحروف کو چند ملاقاتوں میں بتایا تھا کہ ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں اور مناسب موقع پر انہیں استعمال کریں گے۔ یہ خصوصی عدالت 3نومبر2007ء کی ایمرجنسی سے پیشتر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے عدالتی اعلامیہ کے حوالے سے جسٹس (ر) یاسمین عباسی کے اہم اور سنسنی خیز ریکارڈ سے بھی لیس ہے۔ جسٹس (ر) یاسمین عباسی نے سابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھی صدرِ مملکت کو بھجوایا ہوا ہے۔ خصوصی عدالت نے چیف جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر، وفاقی وزیر زاہد حامد کو زیر سماعت مقدمہ میں ملوث کیا ہے۔ اس میں اس لئے ابہام پایا جاتا ہے کہ لاء آف لینڈ کے مطابق ہی حکم کی تعمیل کی جانی چاہیے۔ 3نومبر2007ء کو ملک کے تمام آئینی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان، پارلیمنٹ، سینیٹ، کیبنٹ، چاروں صوبائی حکومتیں اور حکومت کے تمام وفاقی ادارے لاء آف لینڈ کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ الیکشن کمیشن نے اس ایمرجنسی کے دوران 22نومبر2007ء کو قومی انتخابات کے لئے شیڈول جاری کیا اور اِسی ایمرجنسی کے سایہ تلے ریٹرننگ افسران کا تقرر بھی ہوا اور 27نومبر2007کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے لاڑکانہ کی نشست سے قومی اسمبلی کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرائے۔ اس ایمرجنسی کے جواز میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے قومی مفادات پر مبنی‘ جو دلائل ایک اہم شخصیت کے بارے میں دئیے‘ ان میں وزن تھا‘ جس کی بنا پر آرمی چیف اور کور کمانڈرز نے توثیق کر دی تھی۔ شوکت عزیز اور زاہد حامد کو چاہیے کہ وہ کھل کر حقائق پر سے پردہ اٹھا دیں‘ جن کی بنیاد پر آرمی چیف کو ملک میں ایمرجنسی لگانا پڑی۔ اگر شوکت عزیز خصوصی عدالت کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ ایک اہم شخصیت نے حکومت کی رٹ کمزور کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی تھی اور ملکی ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے تھے تو ایک بہت بڑی آزمائش کھڑی ہو جائے گی اور نئے نئے انکشافات منظر عام پر آنے شروع ہو جائیں گے۔ زاہد حامد بھی زلزلہ آمیز انکشافات کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
بادی النظر میں خصوصی عدالت نے تین شریک ملزمان کو مقدمہ میں شامل کرتے ہوئے ان شخصیات کو ریلیف دے دیا ہے جن سے بقول پرویز مشرف 3نومبر2007ء کے اقدام سے قبل مشاورت کی گئی تھی۔ عدالتی فیصلے میں ایف آئی اے کی بے نتیجہ تفتیش کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں ایف آئی اے کو کھل کر تفتیش نہیں کرنے دی گئی۔ اس سے مقدمہ کی ہیئت کمزور ہوتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ اس تناظر میں سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو چاہیے کہ ان کی حیثیت کو متنازع بنانے والے کردار کا ریفرنس از سر نو سپریم جوڈیشل کمیشن کیلئے صدر مملکت کو بھجوائیں ۔ 
خصوصی عدالت کے سامنے جس نوعیت کا مقدمہ زیر سماعت ہے اس نوع کے مقدمات میں ایسے پہلو آیا کرتے ہیں‘ جن سے سماعت کے طول پکڑنے کا خدشہ ہوتا ہے‘ لیکن ان سے کسی کو بھی الجھن کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ جتنے پہلو سامنے آتے جائیں گے اتنی ہی یہ بات یقینی ہوتی جائے گی کہ انصاف اور شفافیت کے تقاضوں کو ہر طرح سے ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئین کے بعض خامو ش یا مضمر گوشوں کی تشریحات بھی ایسے مقدمات سے زیادہ واضح ہو کر سامنے آتی ہیں۔ جج کو موجودہ قانون کے تحت فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جج کسی متروک کالعدم قانون کے تحت فیصلے نہیں کر سکتا‘ اس لئے جسٹس(ر) عبدالحمید ڈوگر نے اسی مسلمہ آئین و قانون کے مطابق قدم اٹھایا۔ ماضی میں پی سی او کے تحت 1982ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ججوں نے حلف اٹھایا اور نظریۂ ضرورت کی تھیوری کو اپنایا اور ملکی نظام کامیابی سے چلتا رہا۔ اسی بنیاد پر 26جنوری 2000ء کو پرویز مشرف کے دور حکومت میں صدر مملکت رفیق تارڑ نے پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیا۔ اسی تناظر میں پرویز مشرف کے ایمرجنسی آرڈر کے تحت معزز ججوں نے 3نومبر2007ء کو حلف لیا۔ بعد ازاں امریکہ اور برطانیہ کی مداخلت سے ملک میں این آر او کی داغ بیل ڈالی گئی جو اس نظام پر عدم اعتماد کے مترادف تھا۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے جو ضمیر کے مطابق بڑے اہم فیصلے کر رہے تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کی عدالت پر بھی اعتماد کرنے کے بجائے این آر او کا سہارا لیا۔ بعدازاں حکومت کے نادان وزراء اور مشیران نے پرویز مشرف کے ذریعے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری سے آئین کے آرٹیکل 209سے انحراف کرتے ہوئے 110کے قریب ججوں کو غیر آئینی طریقے سے سبکدوش کرا دیا اور عدالتیں عدم اعتماد کا شکار ہوتی نظر آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندگان کو عدالتی کمیشن میں شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اگر سابق وزیراعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر ذاتی اور انفرادی حیثیت سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہیں تو اس سے اصل حقائق سامنے آجائیں گے اور سپریم کورٹ کو بھی اپنے 31جولائی 2009ء کے فیصلے پر Visitکرنے کا موقع مل جائے گا۔
خصوصی عدالت نے شوکت عزیز، زاہد حامد اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شامل کر کے کیس کو نیا رُخ دیا ہے۔ دھیرے دھیرے آگے چل کر مزید شخصیات بھی لپیٹ میں آتی جائیں گی۔ آنے والے دنوں میں اس فیصلے کے حوالہ سے نئی بحث سامنے آئے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں