"KDC" (space) message & send to 7575

ملک بحران کی جانب

ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی رفتار سے حکومتی پالیسیوں پر تنقید میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔اس پسِ منظر میں بعض حلقوں کی جانب سے ملک میں از سر نو انتخابات کی پیش گوئیاں بھی کی جارہی ہیں اور افواہوں کی گرم بازاری زوروں پر ہے۔ موجودہ انتخابی نظام 11مئی 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے ناکام ہو چکا ہے۔ الیکشن میں جو خامیاں، کمزوریاں اور ریشہ دوانیاں منظرِ عام پر آئی ہیں‘ ان کی تلافی یا ازالہ کے لئے انتخابی اصلاحات کمیٹی کی پیش رفت قابلِ ستائش نہیں۔ آئین اور جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے نظام میں پائے جانے والے نقائص کو دور کرنے کی سعی نہیں کی گئی۔ آج پاکستان کی سیاست ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے‘ جہاں پاکستان اور پاکستانی قوم کو بڑے اہم فیصلے کرنا ہیں۔ اس ملک کی ساری بڑی جماعتیں 1988ء سے اب تک کسی نہ کسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں رہی ہیں لیکن انہوں نے پاکستان کے غریب ترین عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ جمہوریت مدت پوری کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کا نام ہے۔ 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں 
برسرِاقتدار آنے والی وفاقی حکومت کے پاس نہ کوئی وژن تھا، نہ ہی بدلتے ہوئے عالمی حالات کا اِدراک‘ انہوں نے کوئی تعمیری کام نہیں کیا‘ اُلٹا کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ اسی وجہ سے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں عوام نے انہیں مسترد کر دیا۔ 
موجودہ سیاسی تنائو کی وجہ سے پارلیمانی جماعتوں میں اس وقت بڑی تشویش پائی جاتی ہے‘ جنہیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حکومت 15فروری 2015ء کے سینیٹ انتخابات تک حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہے۔ حکومتی حلقے اِسی طرح مذاکرات کے نام پر کھیل کھیلتے رہیں گے‘ لیکن اگر جنرل پرویز مشرف کیس کے معاملے میں درست قدم نہ اٹھایا گیا تو وزیراعظم نوازشریف کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے حادثہ کی تحقیقات کے لئے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت پنجاب کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ حکومت پنجاب نے رپورٹ کو نامکمل قرار دے 
کر روک لیا‘ جس کی وجہ سے اس اہم کیس پر پیش رفت رُکی ہوئی ہے۔ اسی طرح حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں دوری نظر آرہی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کیس حکومت اور خصوصاً وزیراعظم کے لئے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔ حکومت اگر خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے سپریم کورٹ جاتی ہے اور عدالت عظمیٰ خصوصی عدالت کے فیصلہ کو برقرار رکھتی ہے تو وزیراعظم نوازشریف کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا خصوصی عدالت کے آرڈر کو چیلنج کرنے میں شدید خطرات پائے جاتے ہیں۔
حکومت نے عمران خان کے 30نومبر کے جلسے کے حوالے سے جو حکمتِ عملی طے کی تھی وہ ناکام ہو گئی‘ عمران خان تاریخی اور فقید المثال جلسہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ایسی اطلاعات گردشیں کر رہی تھیں کہ حکومت‘ عمران خان کی جانب سے30نومبر کے جلسے میں طاقت کے مظاہرے کے بعد حکمت عملی تبدیل کر دے گی اور یہ کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میںمذاکرات شروع ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ بین الاقوامی کھلاڑی سامنے آرہے ہیں جو وزیراعظم نوازشریف اور عمران خان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں۔ سربراہ حکومت کو ان تمام حالات پر ذاتی طور پر غور کرنا چاہیے اور بھٹو مرحوم کی روایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے براہِ راست عمران خان کو مذاکرات کے لئے مدعو کرنا چاہیے۔
موجودہ سیاسی مناقشے میں حکومت کی جانب سے اصولوں سے زیادہ ہٹ دھرمی اور انا کا عنصر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ جنگ جیسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے جو ملک کے امن و استحکام کے لئے کسی لحاظ سے بھی سود مند نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے مروجہ نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ ایسی خرابیاں کم و بیش ہر ملک کے نظام میں ہوتی ہیں۔ مہذب جمہوری ملکوں میں ایسی صورت حال ہو تو حکومت اور سیاسی پارٹیاں بات چیت اور افہام و تفہیم سے اس کا قابلِ قبول حل تلاش کر لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ سیاسی چپقلش11مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات سے شروع ہوئی۔ عمران خان کے معمولی سے مطالبے کو نظر انداز کر کے آج ملک کو 5جولائی 1977ء کے سے حالات میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔ وزیراعظم اپنے اقتدار کو بچاتے بچاتے خود ہی انتخابی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔آئین میں اس مسئلہ کا حل جوڈیشل کمشن کے ذریعے موجود ہے اور حکومت جوڈیشل کمیشن کے دائرہ اختیار کے بارے میں مطمئن نظر نہیں آرہی۔ مسلح افواج ہی ملک کا شیرازہ بکھرنے سے بچائے ہوئے ہیں۔ 1973ء کے آئین نے بحرانی کیفیت میں کوئی راہ نہیں دکھائی۔ ان حالات میں وزیراعظم نوازشریف‘ موجودہ کیبنٹ کے ارکان سے نجات حاصل کر کے پارٹی کے دوسرے اور تیسرے درجے کے ارکان کو آگے بڑھنے کا موقع دیں۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمہ کے بارے میں ذاتی انا سے ہٹ کر فیصلہ کریں۔ اس سے انصاف کی بجائے انتقام ہی نظر آرہا ہے۔ افواجِ پاکستان 3نومبر2007ء کے حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں