"KDC" (space) message & send to 7575

امریکہ‘ پاکستان میں تبدیلی کا خواہاں ہے؟

30نومبر کی شام کو عمران خان نے 11مئی 2013ء کے قومی انتخابات میں سازشی عناصر کے کردار کے بارے میں انتہائی مضبوط دلائل کے ساتھ لاکھوں افراد کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو الیکشن 2013ء پر از خود نوٹس لینا چاہیے تھا۔ 28نومبر 2014ء کو عمران خان نے الیکشن 2013ء میں ریکارڈ دھاندلیوں کے خلاف جو ثبوت میڈیا کے روبرو پیش کئے تھے‘ عدالت کے لئے یہ ثبوت کافی ہیں اور ان پر آئین کے آرٹیکل 219کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انتخابی دھاندلیوں کے یہ ثبوت اسحاق خاکوانی نے بڑی محنت سے تیار کئے تھے۔ لائحۂ عمل عمران خان نے قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ نواز حکومت کے لئے آئندہ چند دنوں میں جو خطرہ سامنے آ سکتا ہے‘ وہ عمران خان کی جانب سے فیصل آباد‘ کراچی اور لاہور کو مفلوج کرنے کا بیان اور آگے چل کر 18دسمبر کو سارے ملک کو بند کر دینے کا عندیہ ہے۔ یہ سب احتجاجی دھرنوں اور جلسوں کے حوالے سے نواز حکومت کے نادان وزرا کے نامناسب رویے کا نتیجہ ہے اور موجودہ انتشار اس فرسودہ نظام کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنے شروع ہو رہے تھے اور حکومت پریشان تھی‘ تب قوم ٹیکنوکریٹ حکومت کا خواب دیکھنے لگی تھی۔ 
آرمی چیف جنر ل راحیل شریف کا دو ہفتوں پر محیط امریکہ کا غیر معمولی دورہ بھی نواز حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ 27نومبر کو جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملنے جا رہے تھے اس وقت وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن قابل اعتماد دوست نہیں۔ انہوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی امریکی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ مغربی ممالک کو تعاون کرنے والے حکمران درکار ہیں۔ امریکہ اپنی پسند کے حکمرانوں کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے مختلف ملکوں میں حکومتیں تبدیل کی ہیں اور آج بھی جو مناسب نہیں لگتے‘ امریکہ ان حکمرانوں کو تبدیل کر دیتا ہے۔ وزیر دفاع کی دوراندیشی قابلِ رحم ہے۔ جس وقت خواجہ آصف امریکہ کی جنرل سیسی جیسے لوگوں کو مسلط کرنے کی شکایت کر رہے تھے‘ اس وقت جنرل راحیل شریف کو واشنگٹن میں صدارتی طرز کا پروٹوکول دیا جا رہا تھا۔ قومی تعطیلات کے دنوں میں وزیر خارجہ جان کیری‘ جو پاکستان دوست تصور کئے جاتے ہیں‘ اور پاکستان کے سابق نگران وزیراعظم اور سابق چیئرمین سینیٹ احمد میاں سومرو کے ذاتی دوست بھی ہیں‘ ان سے ملنے کے لئے پہنچے تھے۔ اتوار کے روز امریکی محکمہ خارجہ کا دفتر کھلا رہا تا کہ جنرل راحیل شریف کا سرکاری طور پر استقبال کیا جا سکے۔ آرمی چیف کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ مذاکرات کامیاب رہے۔ جنر ل راحیل شریف کی ملاقات کے حوالے سے جو الفاظ سامنے آئے‘ یہ تھے کہ پاکستان کی فوج متحد رکھنے والی قوت ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے غیر یقینی حالات اور بحران کے موقع پر اس بات کو پاکستان کی افواج پر وسیع تر اعتماد کا مظہر سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے جب جنرل راحیل شریف وائٹ ہائوس میں قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس سے ملاقات کے لئے پہنچے تھے تو ان کی صدر اوباما سے ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ 
دراصل حکمران اس وقت عمران خان کی احتجاجی تحریک سے پریشان ہیں۔ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان کو اب روکا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ عوام کی بڑی تعداد جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عوام کو بھی ادراک ہو چکا ہے کہ موجودہ کرپٹ نظام کے حامی پارلیمان گروپس اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں نواز حکومت کے ساتھ اس لیے کھڑی ہیں کہ انہیں یہ نظام خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کے دانشور حلقے اور بعض میڈیا پرسنز محسوس کر رہے ہیں کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے ختم نہ کیا گیا تو ملک میں انتشار پیدا ہو جائے گا۔ پاکستان کی بھاری اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر دانشمندی سے کام 
نہ لیا گیا تو عمران خان کی ملک کے اہم شہروں کو مفلوج کرنے کی حکمت عملی غیر یقینی صورت حال پیدا کر سکتی ہے۔ 30اگست کی رات کو ماڈل ٹائون جیسا ایک اور سانحہ پیش آنے والا تھا جب نواز حکومت کو پُرتشدد کارروائی سے روک دیا گیا تھا؛ تاہم عمران خان کی 8دسمبر ، 12دسمبر اور بعد ازاں 18دسمبر کی احتجاجی ریلیوں پر تشدد ہونے کے اندیشے بڑھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ وزیر اعظم سے مل کر انہیں یہ بتائیں کہ ایسے واقعات سے کس طرح گریز ممکن ہے۔ شاید امریکہ کو بھی اس بات سے کوئی غرض نہ ہو کہ وزیر اعظم پاکستان کو کیا مشورہ دیا جاتا ہے۔ عمران خان کی تازہ ملک گیر احتجاجی تحریک وزیراعظم کی اقتدار سے سبکدوشی کی راہ ہموار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ 
حکومت خوف زدہ نظر آتی ہے اور شاید اسی خوف کی وجہ سے عمران خان کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا ہے؛ تاہم اسی میڈیا ٹرائل سے عمران خان ملک کے صف اول کے رہنما کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ عمران خان کے خلاف اسی انداز میں مہم چلائی جا رہی ہے‘ جیسی ایوب خان کی حکومت کے نادان وزراء نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی تھی اور انہیں بھارتی شہری قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا تھا۔ وہ وزراء ٹرسٹ کے اخبارات اور حکومتی دانشوروں کے ذریعے ان کا قد کاٹھ کم کرنے کی سازش کرتے کرتے ایوب خان کا 
اقتدار ہی گنوا بیٹھے ۔ اب اسی طرح کی کوتاہ اندیشی پر مبنی مہم عمران خان کے خلاف چلائی جار ہی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ نواز حکومت دلدل میں پھنس گئی ہے‘ جبکہ عمران خان اپنے پلان میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ادھر الطاف حسین صاحب نے نواز حکومت کو پریشان کر دینے والا اہم بیان جاری کر دیا ہے کہ فوج کو آئینی طور پر وفاقی کابینہ میں مناسب حصہ دینا چاہیے تا کہ ایماندار جرنیل سیاسی وزراء پر نظر رکھیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی اسی راہ پر چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں‘ جبکہ سابق صدر زرداری اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بلاول زرداری نے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس میں شرکت نہ کر کے آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسیوں سے اختلاف کا کھلم کھلا اظہار کردیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے بھی سوچنا شروع کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری نے نواز حکومت سے مفاہمت کر کے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مفلوج کر دیا ہے۔ 
حاصل کلام یہ ہے کہ حکومت کی یہ توقع اور امیدیں دم توڑ چکی ہیں کہ عمران خان کا احتجاج خود بخود اپنا اثر کھو بیٹھے گا۔ اس وقت اہم قومی مسئلہ ملک کو انتشار اور افراتفری سے بچانے کا ہے۔ اس بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے وزیراعظم نواز شریف کو آگے بڑھنا ہو گا۔ بہتر ہے کہ وہ براہ راست عمران خان سے مذاکرات کر کے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کی کوششیں تیز کردیں‘ تاکہ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے بارے میں حقائق سامنے آجائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں