"KDC" (space) message & send to 7575

بیلٹ پیپرزکا تقدس مجروح نہ کیا جائے!

30 نومبر کا تاریخی احتجاج دُور رس نتائج کا سبب بننے جا رہا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر 14 اگست سے وزیر اعظم اوران کی حکومت کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع کی گئی تھی وہ اب غیر معمولی زور پکڑ چکی ہے۔ 28 نومبرکو عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے اپنے تمام سابق الزامات دہرائے تھے۔ انہوں نے قطعیت کے ساتھ دعویٰ کیا کہ 11مئی 2013ء کے عام انتخابات میں نگران حکومتوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ریکارڈ کامیابی دلانے کے لیے تین پرنٹنگ پریسوں سے 55 لاکھ بیلٹ پیپرز چھپوائے تھے۔ عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے حوالے سے 28 نومبر کی پریس کانفرنس 11 اگست کے الزامات کا تسلسل تھی۔ ان کے ثبوت اس قدر جاندار ہیں کہ انہیں نظر اندازکرنا مشکل ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی روایت رہی ہے کہ وہ مجموعی طور پر پانچ سے دس فیصد تک اضافی بیلٹ پیپرز احتیاطاً چھپوانے کی اجازت دیتا ہے اور یہ اضافی بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسروں کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ جن پولنگ اسٹیشنز پر بیلٹ پیپرزکی کمی کی شکایت موصول ہوتی ہے، ریٹرننگ افسراپنے پاس ان اضافی ریزرو بیلٹ پیپرزکے کوٹے سے متعلقہ پریزائڈنگ افسر کو بھجوا دیتے ہیں۔ وہ اس کی اطلاع وضاحت کے ساتھ الیکشن کمیشن کو بھجوانے پابند ہوتا ہے اوروہ فارم XV پر اس کی تفصیل کا مکمل ریکارڈ درج کرنے کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔
اگرکسی مخصوص پولنگ سٹیشن کے لیے اضافی بیلٹ پیپرز چھپوانے کا پلان تیارکیا گیا تھا تو یہ الزام ثابت ہونے کی 
صورت میں اس حلقے کا انتخاب کالعدم ہوسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 103-AAکے تحت از خود کارروائی کرنے کا مجازہے۔ ریٹرننگ افسروں کی تحریری اجازت کے بغیر کسی مخصوص پولنگ سٹیشن پراضافی بیلٹ پیپرز پہچانا غیر قانونی ہے ۔ معقول وجوہ کے بغیر اضافی بیلٹ پیپرز کی ترسیل کی صورت میں الیکشن ٹربیونلز کے پاس عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76 کی شق 52 تا 56 کے تحت اس حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دینے کے اختیارات موجود ہیں۔ 
عمران خان نے پریس کانفرنس میں جو حیرت انگیز انکشافات کیے اس سے ریٹرننگ افسروں کی مبینہ بد نیتی سامنے آگئی ہے۔ انہوں نے اضافی بیلٹ پیپرزکی سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مخصوص اور پسندیدہ سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کی سازش کی۔ موجودہ الزامات کے پیش نظر الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ حکومت پاکستان کی ترجمانی کرنے کے بجائے مملکت پاکستان کے مفادکو مدنظر رکھے ، صاف گوئی سے ریٹرننگ افسروںکی بدنیتوںکے بارے میں قوم کو اعتماد میں لے کر ٹھوس حقائق پیش کرے اور فارم XIV، XV، XVI ، اورXVII کو ویب سائٹ پر دکھائے۔11مئی 2013ء کے انتخابات پر جب سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی گنتی کا سوال 
اٹھایا جا رہا تھا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کوعوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ 39کے تحت متنازعہ امور کو طے کر لیناچاہیے تھا۔ این آراو کے آرٹیکل 7 میں ووٹوں کی گنتی کے بارے میں معاہدہ ہوا تھا، لہٰذا الیکشن کمیشن نے اسی آرٹیکل کے تحت 18فروری 2008ء کے انتخابات میں تما م ریٹرننگ افسروں کو ہدایات جاری کی تھیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کا تصفیہ سیاسی ، آئینی اور جمہوری طریقوں سے کرتی ہیں اور بے انصافیوں کے ازالے کے لیے شواہد کے ساتھ عدالت سے رجوع کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے اس قسم کی کاوشوں کی حوصلہ افزائی نہ کی۔
موجودہ حالات میں سیاسی حریفوں کو11مئی 2013ء کے انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 190کے تحت قوم اور ملک کے مفاد کو نظر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف جس راہ پر چل رہے ہیں، لگتا ہے کہ انہیں اس کے نتائج ناقابل تلافی نقصان کی شکل میںبھگتنے پڑیںگے۔ ایسی صورت حال میں ملک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے ، قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرات جنم لے سکتے ہیں اور خدا نخواستہ پورا آئینی نظام ہی زمین بوس ہوسکتا ہے۔ وفاقی کابینہ کے بعض ارکان بین السطور میں اپنی نااہلی اور ناکامیوں کے نتائج سے بچنے کے لیے بعض قوتوں کی اشارتاً تضحیک کرتے ہوئے متنازع الیکشن کے خلاف تحریک کو ناکام بنانے کے لیے حقائق کو چھپا رہے ہیں۔ 
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک ووٹ کے تقدس کو بحال کرنے اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تھی۔ عمران خان نے بھی انتخابی دھاندلی کو ہی اپنی تحریک اور دھرنے کا جواز قرار دیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت نو جماعتی قومی اتحاد میدا ن میں تھا اور اس وقت صرف تحریک انصاف اکیلی میدان میں ہے ؛ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دوسری جماعتیں بھی اعتراف کرتی ہیں کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان قومی اتحاد سے طویل مذاکرات کیے تھے ، دونوں سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت بھی ہوگئی تھی اور بھٹو مرحوم ملک میںازسرنو انتخابات کرانے کے لیے تیار ہوگئے تھے ، لیکن 5 جولائی 1977ء کو فوج نے اقتدارسنبھال لیا۔کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اندرونی انتہا پسند لیڈر شپ نے ذوالفقار علی بھٹو سے ذاتی انتقام لینے کے لیے ملک میں خانہ جنگی کا منصوبہ بنایا تھا۔ 5 اور 6 جولائی کو لاہور میں خانہ جنگی اور گھیرائو جلائوکی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ بہرحال، جنرل ضیاء الحق کے ملک میں نرم انقلاب کوکامیاب بنانے کے لیے مولانا شاہ احمد نورانی اور ائیرمارشل اصغر خان کے سوا قومی اتحاد کی تمام جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت اختیارکر لی۔ اس طرح اس وقت کی سیاسی قیادت نے بالواسطہ یا براہ راست ، فوجی حکمرانی کی حمایت کی جبکہ میڈیا نے جنرل ضیاء الحق کو مردمومن اورمرد حق بنانے میں اہم کردار اداکیا۔
آج جمہوریت کے پرزور حامی، نامور دانشور جنرل ضیاء الحق کے قریبی دوست تھے؛ بلکہ چند صحافی تو احتراماً جنرل ضیاء الحق کی جانب پیٹھ کرکے گزرتے بھی نہیں تھے۔ ان صحافیوں کا ذکر 1982ء میں بھارتی وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے پارلیمنٹ میں کیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق دس ایسے صحافیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں جو پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں اور انہیں سی آئی اے فنڈز بھی دے رہی ہے۔ 
حکومت کو چاہیے کہ وہ عمران خان سے براہ راست مذاکرات کرتے ہوئے ان کے ترمیم شدہ پانچ مطالبات کوتسلیم کر لے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی نگرانی میں دھاندلی کی انکوائری کرانے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر وزیراعظم نوازشریف ایسا کرنے پر تیار نہیں تو سپریم کورٹ از خود نوٹس لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جناب جسٹس ثاقب نثار کے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حالیہ ریمارکس پاکستان کے مستقبل کے لئے قابل توجہ ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں