"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی ریکارڈ کی تصدیق ‘الیکشن ٹربیونلز کے فرائض

موجودہ سیاسی کشیدگی کی فضا میں عمران خان کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف کو یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ مجوزہ عدالتی کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس پر بات چیت کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ حکومت کا مؤقف اس ضمن میں یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس کے بارے میں نوٹی فیکشن 13اگست2014ء کو جاری کیا جاچکا ہے۔ اس کے تحت کمیشن ان واقعات اور اسباب کی تحقیقات کرے گا جن کے نتیجے میں انتخابی نتائج مبینہ طور پر کسی خاص سیاسی جماعت یا فرد کو فائدہ پہنچانے کے لئے تبدیل کئے گئے۔ ان ٹرمز آف ریفرنس کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کے اختیارات اسی طرح محدود کئے گئے ہیں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ مملکت کی حیثیت سے جسٹس حمود الرحمن کمیشن بناتے ہوئے ٹرمز آف ریفرنس بنائی تھیںاور محفوظ راستے نکالنے کے لئے حمود الرحمان کمیشن کے ہاتھ پیر باندھ دئیے گئے تھے اور ان کو انتہائی محدود اختیارات دئیے گئے جن کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بارے میں صرف اسباب ہی بیان کیے جائیں۔ اس کے باوجود حمود الرحمن کمیشن نے دھیرے دھیرے اپنی ٹرمز آف ریفرنس سے باہر نکل کر ایسے واقعات کی نشان دہی کر دی جن کی وجہ سے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس اہم دستاویزکو بیرون ملک کسی بنک کے لاکر میں محفوظ کرا دیا۔ وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے جو ٹرمز آف ریفرنس چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوائی گئیں، ان میں بھی ابہام موجود ہے، چنانچہ جوڈیشل کمیشن نے الیکشن کمیشن کی جاری کردہ تحقیقی رپورٹوں کے سائے تلے ہی ایک رپورٹ مرتب کرنی تھی جو مسائل کے حل میں ممدو معاون ثابت نہیں ہو سکتی۔ اسی پس منظر میں دونوں فریقوں میں اعتماد کا فقدان پیداہوا اور وہ جوڈیشل کمیشن کی طرف نہیں بڑھ رہے ۔ وزارتِ قانون کے ہاں1951ء سے ا ب تک کے ایسے ڈرافٹوں کے حربے موجود ہیں اور وزارت انصاف و قانون کے پرانے صندوقوں میں ایسے حقائق چھپانے والے ڈرافٹوں کی کمی نہیں ہے جو عوام کی آنکھوں میں بخوبی دھول جھونکنے کے کام آ سکتے ہیں۔
الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این۔اے 122میں مبینہ دھاندلی سے متعلق عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے ریکارڈ کی تصدیق اور ووٹوں کی جانچ پڑتال کا حکم دے کر ریٹائرڈ جج غلام حسین اعوان کی سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا۔ الیکشن ٹربیونل کو کسی ریٹائرڈجج کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کے کسی سینئر افسر کی سربراہی میں کمیشن بنانا چاہیے تھا۔ الیکشن کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کی رہنمائی کے لئے ماضی کے اہم واقعات پر مبنی چند مثالیں پیش کر رہا ہوں۔ 3فروری1997ء کے قومی انتخابات کے بعد جب میں بلوچستان کا الیکشن کمشنر تھا، جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جاوید اقبال، جو ان دنوں بلوچستان ہائی کورٹ کے معزز ججز تھے، کی سربراہی میں بلوچستان میں الیکشن ٹربیونلز قائم کئے گئے۔ ان ٹربیونلز میں بلوچستان کی صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں بعض عذر داریاں داخل کی گئی تھیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں الیکشن ٹربیونل نے ان عذر داریوں کو نمٹانے کے لئے جو کمیشن بنایا، اس کا سربراہ راقم الحروف کو بنایا گیا اور اسی طرح جسٹس جاوید اقبال نے بھی راقم الحروف کو ہی کمیشن کا سربراہ بنایا ۔جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جاوید اقبال نے کمیشن کے سربراہ کے لئے جو ٹرمز آف ریفرنس ترتیب دیں،وہ مثالی تھیں۔ جسٹس (ر) کاظم کو چاہیے کہ الیکشن ٹربیونلز کی رہنمائی کے لئے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے طے کردہ فارمولے کا پروفارما الیکشن کمیشن سے حاصل کر کے اس کی روشنی میں حلقہ 122کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرائی جائے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جنرل عبدالقادر بلوچ کی عذرداری، جو انہوں نے اپنے مدِ مقابل کے خلاف 18فروری2008ء کے انتخابات کے موقع پر دائر کی تھی،کے بارے تاریخی ریمارکس دئیے تھے کہ بلوچستان کے الیکشن ٹربیونل کو وہی طریقہ اپنانا چاہیے جو اس وقت کے الیکشن کمشنر (راقم) نے ان کی ہدایات پر اپنایا تھا۔ جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے بعض عدالتی فیصلوں اور پالیسی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن انہیں الیکشن کے معاملات کا گہرا ادراک تھا۔
لاہور کے حلقہ 122کے حوالے سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطلب جعلی ووٹوں کی گنتی، ووٹنگ فہرستوں سے ووٹوں کے اعداد و شمار کا موازنہ کرنا اور انتخابات میں استعمال ہونے والے مواد کا جائزہ لینا ہے۔ پولنگ سٹاف عام طور پر اپنا کام انتہائی احتیاط کے ساتھ نہیں کرتا اور اکثر پولنگ اسٹیشنوں کا سٹاف مکمل اعداد و شمار داخل نہیں کرتا یا پھر اس عمل میں دانستہ طور پر سستی اور بے احتیاطی سے کام لیا جاتا ہے۔ غالباً پولنگ سٹاف سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے ضمن میں غلطی کروائی جاتی ہے اور یہ عمل پورے ملک میں دیکھنے میں آیا ہے۔ پولنگ سٹاف چونکہ صوبائی حکومتوں کے تابع ہوتا ہے اور نچلے درجے کے اہل کاروں کا تقرر اکثر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے کوٹے سے کیا جاتا ہے، لہٰذا وہ گاڈ فادر اپنے سٹاف سے غلط کام کرواتے ہیں جنہوں نے تقرر میں ان کی معاونت کی ہوتی ہے۔ لاہور کے چار حلقوں میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کم و بیش چالیس ہزار اہلکاروں کو پولنگ سٹیشن کے فرائض سونپے گئے اور انہوں نے جو کھلم کھلا دھاندلی کرائی، اس کے لئے ان کو خصوصی تربیت بھی دی گئی۔ یہ سب معاملات جوڈیشل کمیشن کے سامنے آئیں گے اور الیکشن کمیشن لاہور آفس کے در و دیوار گواہی دیں گے۔
الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے تحت جو بھی ریکارڈ طلب کیا جائے گا، وہ گرد آلود ہی نظر آئے گا۔ ان حلقوں میں ریکارڈ کا بڑا حصہ ویسے ہی تباہ ہو چکا ہے، چنانچہ اعداد و شمار نامکمل ہی ہوں گے۔ پولنگ سٹاف کی تربیت یو این ڈی پی نے کی تھی ۔ اس بارے میں شنید ہے کہ یو این ڈی پی کا تربیت یافتہ پولنگ کا عملہ لگایا ہی نہیں گیا اور بعض ریٹرننگ افسران نے ان کی جگہ غیر تربیت یافتہ عملہ لگادیا۔ اب اگر جوڈیشل کمیشن نے 2013ء کے الیکشن کے بارے میں انکوائری کروانے کا فیصلہ کیا تو یو این ڈی پی نے جن تقریباً سات لاکھ کے لگ بھگ پولنگ سٹاف کی تربیت کی تھی، ان کی فہرست حاصل کر کے 11مئی 2013ء کے پولنگ سٹاف سے ان کا موازنہ کرنا پڑے گا۔ دراصل پولنگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی نااہلی اور لاپروائی کے باعث ملک کے تمام حلقوں میں ووٹوں کے نامکمل اعداد و شمار کا اندراج کیا گیا اور اسی بناء پر ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں کو 11مئی 2013ء کے انتخابات کو مسترد کرنا پڑا۔ 
قومی و صوبائی اسمبلی کی 40نشستوں کے کیسز الیکشن ٹربیونلز کی جانب سے نادرا کو بھیجے گئے ۔ ان میں سے ایک یا دو حلقوں کی رپورٹس التوا میں ہیں ۔ تاہم دیگر تمام حلقوں کے حوالے سے رپورٹ مقررہ وقت میں واپس بھیج دی گئی تھی لیکن اسے باقاعدگی سے رپورٹ نہیں کیا گیا۔ نادرااپنا مؤقف تبدیل کرتا رہا ۔ نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک اور موجودہ انتظامیہ میں تضاد پایا جاتا ہے۔ موجودہ انتظامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ 60سے 70فیصد کیسز میں تکنیکی وجوہ کی بنا پر انگوٹھوں کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے حالات انتہائی سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ادارے حکومت پاکستان کے دبائو میں ہیں اور الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں میں جو پائیداری نظر آرہی ہے اس کا کریڈٹ ان سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے جنہوں نے عوام کا شعور اجاگر کیا ہے۔الیکشن ٹربیونل حلقہ 122اور حلقہ 125کی جانچ پڑتال کی روشنی میں عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 67کے تحت کارروائی کرنے کا مجاز ہے اور اِسی ایکٹ کی دفعہ 76کے تحت بھی ان حلقوں میں انتخابی نتائج کالعدم قرار دئیے جاسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں