"KDC" (space) message & send to 7575

چیف الیکشن کمشنر جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز پیش کریں!

انتخابات جمہوری نظام میںریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی لیے کسی بھی جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن حقیقی معنوں میں ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بنیادی اہمیت رکھنے والا ادارہ ہوتا ہے جو اپنے آئینی سربراہ کی نگرانی میں کسی بھی سطح کے انتخابات کرانے کے لئے مکمل طورپر تیاررہتاہے‘ لیکن ہمارے ہاں ذاتی مفادات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے مستقل سربراہ کے تقرر کا معاملہ کم و بیش پندرہ ماہ تک اس لیے معلق رہا کہ وفاقی حکومت سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی ریٹائرمنٹ کاانتظار کر رہی تھی‘ جنہوں نے سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے30جولائی 2013ء کو مستعفی ہونے کے بعد تقریباًپانچ ماہ تک قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کیے۔ اس سے پیشتر بھی وہ مختصر عرصے کے لئے گاہے بگاہے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر رہے اور جسٹس فخرالدین جی ابراہیم جب 48گھنٹوں کے لئے دہلی کے دورے پر تھے تو تصدق حسین جیلانی نے ان کی عدم موجودگی میں عدلیہ سے ریٹرننگ افسران کی خدمات حاصل کرنے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھوا دیا، حالانکہ خط لکھنے کے چند گھنٹے بعد ہی جسٹس فخر الدین جی ابراہیم پاکستان پہنچ گئے تھے۔ جناب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی 6 جولائی 2014ء کو ریٹائرڈ ہوگئے تو وفاقی حکومت اورلیڈر آف دی اپوزیشن سید خورشید احمد شاہ کے مابین ان کو چیف الیکشن کمشنر بنانے کے لئے افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹائون وقوع پذیر ہونے سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی صدا گونجنے لگی اور جسٹس تصدق جیلانی جیسی غیرجانبدار شخصیت سیاست کا شکار ہوگئی۔ اندرونی طورپر پاکستان پیپلزپارٹی ان کے بارے میں تحفظات رکھتی تھی لیکن عمران خان کی جارحانہ پالیسی سے حکومت اور اپوزیشن نے پسپائی اختیارکر لی۔
یہ سب ہمارے سیاسی و جمہوری نظام کی مستعدی اورفعالیت کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتا بلکہ ہماری جگ ہنسائی کاسبب بنا ہے۔اس عرصے میں سپریم کورٹ کے جج آئین کے آرٹیکل 217 کے تحت قائم مقام سربراہ رہے‘ مگر چند ہفتے پہلے سپریم کورٹ نے حکومت پر واضح کیا کہ اب جلد ازجلد چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیا جائے ورنہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے سپریم کورٹ کے جج کی خدمات الیکشن کمیشن سے واپس لے لی جائیں گی ۔ اس کے بعد حکومت اورحزب اختلاف کی مشاورت سے کئی نام سامنے آئے لیکن تحریک انصاف کی جانب سے ان ناموں پر اعتراضات اوردیگر وجوہ کی بناء پر یکے بعد دیگرے کئی جج صاحبان نے اس ذمہ داری کو سنبھالنے سے معذوری ظاہر کردی ۔ سپریم کورٹ کی سخت وارننگ کے بعد حکومت نے آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوادیا ۔ لہٰذا پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے بعد وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرمملکت نے جسٹس سردار محمد رضا کو مستقل چیف الیکشن کمشنرمقرر کر دیا۔ بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور ملک کی تمام پارلیمانی پارٹیوں کے لیے اس فیصلہ کوتسلیم کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اب جسٹس سردار محمد رضا کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہوں گے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ رہے گا کہ حکومت اورتحریک انصاف کے درمیان 11مئی 2013ء کے متنازع قومی انتخابات کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم ہونے والا ہے اورجوڈیشل کمیشن نے الیکشن کمیشن کی 
معاونت ہی سے اس گرداب سے نکلنا ہے۔ جسٹس سردار رضا کے لئے ان الزامات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا دفاع کرنا مشکل ترین مرحلہ ہوگا اورجوڈیشل کمیشن کو پورے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دینے یا نہ دینے کے بارے میں اہم فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر جوڈیشل کمیشن نے انتخابی عمل کو مشکوک قراردے دیا تو نواز حکومت کو مستعفی ہونا پڑے گا اورپارلیمنٹ کو بھی تحلیل کرنا ہوگا۔ اس عمل سے الیکشن کمیشن کے معزز ارکان بھی متاثر ہوں گے اور ملک سیاسی اور آئینی بحران کی لپیٹ میں آجائے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حلقہ بندیاں کرانا‘ چیف الیکشن کمشنر کے لئے دوسرا بڑا چیلنج ہوگا؛ جبکہ الیکشن کمیشن کے اندرونی انتظامی ڈھانچے کو بھی صحیح سمت میں درست کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے افسران اورعملہ ایماندار نہ شہرت کے حامل ہیں اور ان کو الیکشن ٹیکنالوجی کا بھی مکمل ادراک ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو 12مارچ 2015ء سے پہلے فروری 2015ء میں سینیٹ کی 52نشستوں پر بھی انتخاب کرانا ہوگا۔ انتخابی اصلاحات میں الیکشن کمیشن کا ایک اہم کردار ہے۔ الیکشن کمیشن انہی انتخابی اصلاحات کی جامع رپورٹ پرانحصار کررہاہے جومیری سربراہی میں انتخابی اصلاحات کمیشن نے سابق چیف الیکشن کمشنر قاضی محمد فاروق اور اس وقت کے ارکان الیکشن کمیشن کی منظوری سے وزیراعظم پاکستان کو قانون سازی کے لئے پیش کردی تھی ۔ جناب جسٹس سردار محمد رضا خان اپنی خدادادا صلاحیتوں اور یونٹی آف کمانڈ کے ذریعے الیکشن کمیشن کے موجودہ ارکان کی معاونت سے الیکشن کمیشن کو ایک قابل اعتماد ادارہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
پاکستان کی بنیاد جمہوریت پر ہے اورجمہوریت کی بنیاد شفاف انتخابات پر۔ ان کے بغیر نہ تو ملکی سلامتی اور نہ ہی آئینی ادارے قائم رہ سکتے ہیں۔ برطانوی مرد آہن چرچل نے جمہوریت کو انتہائی خراب نظام حکومت کہا تھا مگر یہ بھی کہا کہ دنیا کے دیگر نظاموںمیں سے بہتر ہے۔
جسٹس سردارمحمد رضا خان کے نام پر اتفاق رائے کا سبب یقینی طورپر عدلیہ کے شعبے میں تقریباً45سالوں پر محیط ان کا بے داغ کیریئر ہے۔ پشاور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں وہ اپنے ضمیر کے تقاضوں کے مطابق جرأت مندانہ فیصلوں کی شہرت رکھتے ہیں، اس لیے ان سے بجا طورپر قوم توقع کر سکتی ہے کہ ان کی سربراہی میں ہر سطح پر غیر جانبدارانہ ،شفاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا؛ تاہم اس کے لئے حکومت اور پارلیمنٹ کو بھی تمام ضروری انتخابی اصلاحات کے لئے تیزتر پیش رفت کرنا ہوگی۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لئے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لانا ہوگی اور موروثی قیادت کے بجائے منتخب قیادت کے لئے راہ ہموار کرنا ہوگی۔
جسٹس رضا خان کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 کی روح کے مطابق کیا گیا ہے جب کہ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کا تقرر عجلت میں کیا گیا تھا اور وہ آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق نہیں تھا ۔ 27 جنوری2014ء کو ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر حکومتی ارکان نے برملا اعتراف کیا تھا کہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کے تقرر میں آئین سے تھوڑا باہر جانا پڑا۔ 11مئی 2013ء کے متنازعہ قومی انتخابات کی وجہ سے پورا الیکشن کمیشن اس وقت 10مارچ1977ء کے دہانے پر کھڑا ہے جب پوری قوم نے الیکشن کمیشن کومسترد کر کے اس وقت کے الیکشن کمشنر کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا ۔ انتخابی عمل کو غیر متنازع بنانے کے لئے اہم انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری کی ساکھ روزبروز گرتی جارہی ہے ۔93لاکھ اضافی بیلٹ پیپرزکے حوالے سے الیکشن کمیشن اپنا مضبوط موقف پیش کرنے میں نا کا م رہا ہے ۔ ضابطہ کے مطابق اضافی بیلٹ پیپرزہنگامی طورپر استعمال کرنے کے لئے ریٹرننگ افسران کی تحویل میں ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے مبینہ طور پر بعض ریٹرننگ افسران نے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اورذاتی فوائد کے حصول کے لئے ان اضافی بیلٹ پیپرز کا غلط استعمال کیا۔ اس پر الیکشن کمیشن نے ہوم ورک ہی نہیں کیا ۔ان کے پاس تو اعداد و شمار ہی نہیں ہیں۔ اب کوئی بھی الیکشن کمیشن پر اعتماد کرنے کوتیار نہیں۔ پندرہ مہینے کے عرصے کے دوران قائم مقام چیف الیکشن کمشنروں نے الیکشن کمیشن کی غیر جانبدارانہ حیثیت کوبحال کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔ ان حالات میں جسٹس سردار رضا کو الیکشن کمیشن کی کارکردگی کے حوالے سے انکوائری کروانی چاہیے اور الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے سامنے اپنے اعدادو شمار ثابت کرنے چاہئیں۔
ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو ملک کو انتخابی انتشار سے نکالنے کے لئے سپریم کورٹ سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں