"KDC" (space) message & send to 7575

2013ء کے قومی انتخابات کا احتساب

انتخابات جمہوری نظام کی بنیاد ہیں‘ اس لئے سیاسی قیادت کو انتخابی اصلاحات کے لئے پیش رفت جاری رکھنی چاہیے۔ حکومتی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے ابھی تک دور رس انتخابی اصلاحات کے لئے جامع حکمتِ عملی تیار نہیں کی۔ فرینڈلی اپوزیشن نے انتخابی پارلیمانی کمیٹی کو اس سلسلہ میں چند ایسی تجاویز بھجوائی ہیں جن میں اسٹیبلشمنٹ کی نام نہاد مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔ اپوزیشن کی اسی جماعت کے ایک دانشور رہنما نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کو تجویز پیش کی ہے کہ نئی مردم شماری کے بجائے نادرا کے ڈیٹا کو حلقہ بندیوں اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ آبادی کی بنیاد پر صوبوں کے لئے قومی اسمبلی کی نشستوں کا از سر نو تعین کیا جائے اور آئندہ قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں لازمی قرار دی جائیں۔ یہ تجاویز اہم ہیں‘ لیکن انہیں بروئے کار لانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 224میں مناسب ترامیم کرنا ہوں گی۔ مردم شماری کے بجائے نادرا کے ڈیٹا کو بنیاد بنانے کی تجویز خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ 
بدقسمتی سے انتخابی اصلاحات کمیٹی کو انتخابی اصلاحات کی اہمیت کا نہ تو ادراک ہے اور نہ ہی ٹرن آئوٹ کی اہمیت کا اندازہ۔ انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کی شرح کا تعین انتخابی اصلاحات کی روح کے مترادف ہے۔ ووٹوں کی شرح کی حد مختلف ملکوں میں مختلف ہوتی ہے۔ اس شرح کے مطابق ووٹ حاصل نہ کرنے والی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حد کی اس شرط کا مقصد چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکنا ہوتا ہے۔ اس طرح ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اور مخلوط حکومتوں کے قیام کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی، بلجیم، ہنگری، پولینڈ، جمہوریہ چیک اور سلواکیہ میں کل ووٹوں کا پانچ فیصد، آسٹریا ، بلغاریہ، اٹلی، ناروے ، سلوانیہ میں چار فیصد ، سپین ، یونان، رومانیہ اور یوکرائن میں تین فیصداور ڈنمارک میں دو فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ انتخابی شرح کی حد دس فیصد ترکی میں ہے‘ جہاں کوئی بھی جماعت کل ووٹوں کا دس فیصد سے کم لیتی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہو سکتی۔ چاہے اس جماعت نے 9.5فیصد ووٹ ہی کیوں نہ حاصل کئے ہوں۔ مثال کے طور پر گزشتہ عام انتخابات میں52ملین رائے دہندگان میں سے چار ملین رائے دہندگان کے ووٹ ضائع گئے کیونکہ ان ووٹروں کی جماعتیں دس فیصد کی انتخابی شرح کی حد عبور نہ کر سکیں۔ دس فیصد کی حد عبور نہ کرنے والی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹ پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعتوں میں تقسیم کر دئیے جاتے ہیں۔ ترکی کے بعد سات فیصد کی حد پر روس میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 2008ء کے انتخابات میں غلام احمد بلور صرف تین فیصد ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے اور 2013ء کے انتخابات میں بلوچستان کی صوبائی قیادت بشمول وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صرف ایک فیصد حاصل کرکے وزارتِ اعلیٰ کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ جبکہ دیگر بیشتر ارکان اسمبلی‘ جن کا تعلق بلوچ بیلٹ سے ہے‘ صرف دو فیصد ووٹ حاصل کر کے حکومت کر رہے ہیں۔
اب جوڈیشل کمیشن کی طرف آتے ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے مسئلے پر حکومت اور تحریکِ انصاف بامقصد مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ تحریکِ انصاف نے جوڈیشل کمیشن کے لئے ٹرمز آف ریفرنس (شرائط کار) کے مسودے میں دھاندلی‘ رزلٹ میں ردوبدل ، اضافی بیلٹ پیپرز کی اشاعت (جو الیکشن کمیشن کے مطابق ایک کروڑ 17لاکھ کے لگ بھگ چھپوائے گئے) کے متعلق الزامات کے حوالے سے آزاد تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ان میں الیکشن سے پہلے دھاندلی، پولنگ کے دن کی جانے والی دھاندلی اور پولنگ کے بعد ہونے والی دھاندلی کے متعلق الزامات بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ منظم انداز سے ہونے والی دھاندلی کے حوالے سے کسی بھی طرح کے ثبوت سامنے آنے پر وزیراعظم نوازشریف عہدہ چھوڑ دیں۔ تحریکِ انصاف کے برعکس، حکومت نے ٹرمز آف ریفرنس کے مسودے میں مطالبہ کیا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ 11مئی 2013ء کے قومی انتخابات کے دوران کسی سیاسی جماعت کے حق میں یا مخالفت میں الیکشن کمیشن، عدلیہ کے سابق ارکان، ریٹرننگ افسران، وفاقی یا صوبائی نگران حکومتوں یا کسی دوسرے شخص کی مدد سے کسی طرح کی دھاندلی ہوئی تھی؟ اگرچہ ٹرمز آف ریفرنس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا، لیکن سرکاری موقف میں منظم‘ طے شدہ منصوبے یا سازش کی بات کی گئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے ، کہ دونوں پارٹیوں کو کسی بھی بات پر متفق ہو جانا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا سپریم کورٹ اور چیف جسٹس دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں گے؟ چار مہینے گزر جانے کے باوجود جوڈیشل کمیشن کے قیام کے سلسلے میں وفاقی حکومت کی 13اگست2014ء کی درخواست کا اب تک کچھ نہیں ہوا‘ بلکہ اس کے برعکس چیف جسٹس ناصر الملک کی زیر صدارت سپریم کورٹ کے بنچ نے جسٹس(ر) شاہد صدیقی اور 
جسٹس (ر) میاں ارشد نواز کی الیکشن کے حوالے سے دائر کی جانے والی آئینی پٹیشن کو مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 225کو نظر انداز نہیں کر سکتی‘ جس کے تحت انتخابی عذرداری صرف الیکشن ٹربیونلز ہی سن سکتے ہیں۔ جسٹس (ر) شاہد صدیقی کے وکیل جسٹس (ر) میاں ارشد نوازکا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں آرٹیکل 225کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن سپریم کورٹ نے اُن کی دلیل سے اتفاق نہیں کیا اور پٹیشن خارج کردی۔ تحریکِ انصاف کی طرف سے چار حلقوں کی جانچ پڑتال کے بارے میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیئے جانے کے بعد‘ وفاقی حکومت نے چار حلقوں کے ووٹوں کی تصدیق کا کیس خارج کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اسی بنیاد پر اٹارنی جنرل کی جانب سے وزارت قانون کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا گیا ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقوں، 125,122,110اور154کے معاملات انتخابی ٹربیونلز میں زیر سماعت ہیں اور الیکشن ٹربیونلز آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت کارروائی کر رہے ہیں‘ سپریم کورٹ کو اس میں مداخلت کا اختیار نہیں اور مداخلت سے آئین کے آرٹیکل 225کی خلاف ورزی ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا ہے کہ انتخابی معاملات میں الیکشن کمیشن اور الیکشن ٹربیونل ہی درست فورم ہیں‘ جہاں یہ معاملات زیر سماعت ہیں۔ بین السطور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 225سے متصادم ہے۔ اسی تناظر میں عمران خان اور ان کی ٹیم کو غور کرنا چاہیے کہ اسحاق خاکوانی کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بارے میں آرٹیکل 62اور 63کے حوالے سے آئینی پٹیشن سابق 
اٹارنی جنرل عرفان قادر نے تیار کی تھی‘ جسے جسٹس جواد خواجہ کے تین رکنی بنچ نے قابل سماعت قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس سے لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی؛ تاہم چیف جسٹس نے 10 دسمبر 2014ء کو یہ آئینی پٹیشن خارج کر دی۔ جب جج حضرات کے نزدیک کسی لفظ کے معانی میں ابہام پیدا ہو جائے تو پھر یقینا لارجر بنچ کے ذریعے آگے بڑھ کر معانی کی تشریح ہونی چاہیے۔ اگر سپریم کورٹ کی طرف سے آرٹیکل 62اور 63کی تشریح آئین کی روح کے مطابق ہو جاتی تو اس سے آئندہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران کو رہنمائی ملتی۔ اس پس منظر میں تحریکِ انصاف موجودہ چیف جسٹس کے تحت جوڈیشل کمیشن کا قیام چاہتی ہے تاکہ تحقیقات کرائی جاسکے‘ لیکن قانونی اور آئینی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ آرٹیکل 225کی موجودگی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 191کا ہی سہارا لے سکتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے متبادل کے طور پر (عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 103-AA میں قومی اسمبلی سے ترمیم کے بعد) الیکشن کمیشن سے بھی جوڈیشل کمیشن کی طرز پر سمری انکوائری کے ذریعے تحقیقات ممکن ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 104کے تحت بھی الیکشن کمیشن کارروائی کا مجاز ہے۔ یہ ایسی آئینی شق ہے جو ہنگامی طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بارے میں وفاقی حکومت کے 13اگست کے ریفرنس کے حوالے سے سپریم کورٹ وفاقی حکومت کو مشورہ دے سکتی ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 103-AAمیں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو جوڈیشل کمیشن کے اختیارات تفویض کئے جاسکتے ہیں۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم اور عمران خان کی ٹیم کو اس قومی اہمیت کے حامل آئینی معاملات پر غور و خوض کرنا چاہیے‘ کیونکہ بادی النظر میں سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے ضمن میں بعض آئینی تحفظات درپیش ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں