"KDC" (space) message & send to 7575

سقوط مشرقی پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان

سقوط مشرقی پاکستان من حیث القوم ہماری ناکامی ،پسپائی اورعبرت کادن ہے ۔ ہمیں اپنی غیر ذمہ دارانہ روش کا اعتراف کرنا چاہیے۔فیلڈ مارشل محمدایوب خان کے 25مارچ1969ء کو استعفیٰ سے لے کر16دسمبر1971ء تک جس طرح مغربی پاکستان کے سیاستدان اقتدار پر جلوہ افروز ہونے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے مغربی پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے ، اسی طرح آج بھی 11مئی 2013ء کے متنازعہ انتخابات کے حوالہ سے سیاسی ، انتظامی اورانتخابی انتشار کا ملک کو سامنا ہے ، اور حکومت اس کے حل کے لئے سنجیدہ ہی نہیں ہے ۔ چاروں صوبوں میں ہم آہنگی ،برابری اوریک جہتی کا فقدان واضح طور پر نظر آرہاہے ۔ 18 ویں آئینی ترمیم سے فیڈریشن عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور اس کے ذمہ دار ہمارے قومی رہنما ہیں۔
ہمارے دانشوروں کا یہ مفروضہ درست نہیں ہے کہ پاکستان کے سیاسی وجود میں بنگالیوں کو غیر اہم کردیا گیاتھا ۔ خواجہ ناظم الدین بنگال کے نامور خاندان کے چشم و چراغ تھے۔قائداعظم کی رحلت کے بعد ان کے جانشین کے طورپر خواجہ ناظم الدین گورنر جنر ل کے عہدے پرمتمکن ہوئے ۔طاقتور اتنے تھے کہ قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وزیراعظم بننا چاہا تو بن گئے۔ سکندر مرزا کا پاکستانی سیاست میں بااثر ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کے آبائو اجداد نواب سراج الدولہ کے وزیراعظم میر جعفر کے پڑنواسے تھے اور سکندر مرزا کا تعلق مرشد آباد سے تھا۔وفاقی حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری دفاع بھی رہے اور سی آئی اے کی پشت پناہی سے ترقی کرتے کرتے مشرقی پاکستان کے گورنر اور بعد ازاں مرکزی وزیرداخلہ بھی رہے ۔ اپنی ریشہ دوانیوں سے لاہور کے بھاٹی گیٹ سے تعلق رکھنے والے ملک غلام محمد ککے زئی ،جو مفلوج اور ذہنی مریض تھے اور جن کو گورنر جنرل کے عہدے سے برطرف کیا ،خود ساختہ گورنر جنر ل اور بعد میں پاکستان کے پہلے صدر بن کر حکومتوں کو روانہ کرتے رہے ۔ اس دوران محمدعلی بوگرہ اور حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے۔
1947 ء سے1958 ء تک دو بنگالی سربراہان حکومت ومملکت رہے جب کہ تین بار وزارت عظمیٰ بنگالیوں کے حصے میں آئی، جن میں خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ شامل تھے ۔ ملک میں نام نہاد سیاسی اضطراب اور انارکی کے نام پر صدرسکندر مرزا نے 8 اکتوبر 1958 ء کو مارشل لاء کا نفاذ کردیا اور کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ خود بھی تین ہفتوں کے بعد 27اکتوبر1958ء کو صدارت سے معزول کردیئے گئے۔ اگر ہمارے کو تاہ اندیش دانشوروں کی اس دلیل کی طرف جایا جائے کہ صدر سکندر مرزا بنگالیوں کے منتخب نمائندہ نہیں تھے تو یہ مسئلہ مغربی پاکستان کے ساتھ بھی تھا ۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کون سے وزراء اعظم ، وزراء اور منتخب افراد1956 ء کے دستور کے نفاذ کے دوران اور بعدازاں حکومت کررہے تھے ۔ جمہوریت کا نہ ہونا ملک کے دونوں حصوں کا مسئلہ تھا۔
یکم جولائی1970 ء کو جنرل یحییٰ خان لیگل فریم آف آرڈر کے تحت مشرقی پاکستان کے عوام کے حق حکمرانی کوتسلیم کر لیا گیا تھا۔ مرکزی قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی 162 جب کہ مغربی پاکستان کی 138 نشستوں کو قبول کرلیاگیا تھا ۔ شیخ مجیب الرحمن اورمشرقی پاکستان کی اعلیٰ قیادت کی مشاورت ہی سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج عبدالستار خان کوچیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا ۔انہوں نے الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کو مشرقی پاکستان میں لاگو ہی نہیں کیا اورعوامی لیگ کی انتخابی دہشتگردی کو نظرانداز کرتے رہے ۔7دسمبر1970ء کے انتخابات مغربی پاکستان کی حد تک تو صاف وشفاف تھے ،لیکن مشرقی پاکستان میں انتخابی عمل کو شفاف قراردینا حقائق کے برعکس ہے۔ اصولی طورپر چیف الیکشن کمشنر ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موجب بنے۔
قومی مسئلہ مشرقی پاکستان میں سیاسی ناانصافی کا احساس تھا ۔ جب پاکستان کے قیام کے دس سال بعد بھی نہ آئین بن سکااور نہ عوام کو اپنے ووٹ سے اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کاحق مل سکا تو مشرقی پاکستان کے عوام کو شکوہ تھاکہ پاکستان کا آئین بنانے اور عام انتخابات کرانے سے صرف اس لیے گریز کیا جارہاہے کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اس کا حق نہ ملے۔ قائداعظم اورقائدملت کے بعد مغربی پاکستان میں بیوروکریسی اورجاگیر داروں کی اشرافیہ کا ایک گروپ قومی فیصلوں اوروسائل پر قابض ہوگیا ، جس کے پاس عوام کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں تھی۔ مغربی پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ کو صرف اپنے مفادات عزیز تھے ۔انہیں اس حقیقت کی کوئی پروا نہیں تھی کہ عوام کو انصاف نہ دینے سے علیحدگی کا راستہ نکلے گا۔عوام میں محرومیاں بڑھیں گی تو ملک کمزور ہوگا اور دشمن کو دراندازی کے مواقع ملیں گے ۔ مغربی پاکستان کے مفاد پرست گروہوں نے مقاصد پاکستان کو سبوتاژ کر دیا ، جس کا نتیجہ پاکستان کے دولخت ہونے کی صورت میں نکلا۔بدقسمتی سے نئے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے اپنی روش نہیں بدلی اور سقوط مشرقی پاکستان کے 43سال بعد بھی اس سانحہ سے سبق حاصل نہ کرنا اس سے بھی بُرا سانحہ ہے ۔آج ایک متفقہ آئین موجود ہے لیکن کوئی اس پر عمل کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہے کہ 14اگست 1973ء کا آئین اپنی اصل سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ آٹھویں ، بارہویں ، سترہویں، اٹھارہویں، انیسویںاور بیسویں ترامیم کے بعد ہم اپنے متفقہ آئین کی سپرٹ سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب پاکستان میں مسئلہ آئین کا نہیں،قیادت کی بے عملی کا ہے ۔ انتخابات بھی ہوئے ہیں لیکن انتخابی نظام خامیوں کاایسا مرقع ہے کہ انتخابی نتائج پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور قومی اسمبلی کے سپیکر اپنی کرسی کے چار پائوں کوانتخابی دیمک سے بچانے کے لیے عدالتی سہارے ڈھونڈ کر وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کومتزلزل کر رہے ہیں ۔سیاست چند خاندانوں کی جاگیر بن کرہ گئی ہے۔
کل مشرقی پاکستان کے رہنمائوں کو اس لیے اقتدار نہیں دیا گیا کہ وہ صرف ایک صوبے میں کامیاب ہوئے تھے ۔ آج پاکستان میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے۔وہ ایک صوبے میں بھی نہیں ، ایک صوبے کے وسطی حصے میں جیتی ہے لیکن حکومت پورے ملک میں کررہی ہے ۔ کل چٹا گانگ سے لے کر بوگرہ اورراج شاہی تک سینکڑوں شہروں اورقریوں میں جیتنے والے قابل قبول نہیںتھے ، آ ج پورے ملک پر لاہور کی حکومت ہے۔ ایک مخصوص برادری چھائی ہوئی ہے اور ایک خاندان سارے فیصلے کررہاہے ۔ آج اس ملک کے بانچھ پن کا یہ عالم ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی میں وزیرخارجہ اوروزیردفاع نہیں مل رہا۔
1971ء کی جنگ میں ہمارے جذبوں کو شکست نہیں ہوئی ۔ بلکہ وہ ہماری عددی ہار تھی۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ 93 ہزار فوجیوں نے ہتھیارڈال دیئے ۔ایسا بالکل نہیں تھا، بلکہ44ہزار فوجیوں میںڈاکٹر، بیٹ مین اور لنگروں کا عملہ نکال کر تقریباً 34ہزار لڑاکا فوجی تھے ۔ان 34ہزار پاکستانی فوجیوں کو فضائی امداد بھی حاصل نہ تھی کیونکہ ہوائی راستوں پر روس کی فضائیہ نے قبضہ کر رکھا تھا اور عوامی جمہوریہ چین اس وقت چار کے ٹولے کے نرغے میں تھا۔ پاکستان کی 34 ہزار فوج کے مقابلے میں پانچ لاکھ بھارتی فوج تھی۔ ایک لاکھ مکتی باہنی اورتین بریگیڈمکتی باہنی گوریلا تھے ۔ خواتین کا مکتی باہنی کا دستہ الگ تھا۔
مشرقی پاکستان کے بحران اور علیحدگی میں پنجاب کے طاقتور میڈیا اور دائیںاور بائیںبازو کے دانشور وں کابھی بڑا عمل دخل تھا ۔ شیخ مجیب الرحمن مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت اورعسکری مقامات پر دبائو ڈال کر مشرقی پاکستان کے لیے زیادہ سے زیاد ہ حقوق حاصل کرنے کے خواہش مند تھے ۔ان کو غلط حکمت عملی سے دیوار سے لگادیا گیا اور انہوں نے مرکز کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور ہماری مفاد پرست قیادت نے عوامی جمہوریہ چین اور شاہ ایران کے مشورہ کوبھی نظر انداز کر دیا اور 16دسمبر1971 ء کوقائداعظم کا پاکستان سقوط مشرقی پاکستان کے نتیجے میں دولخت ہوگیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں