"KDC" (space) message & send to 7575

عدالتی کمیشن بنانے کے احکامات؟

اکتوبر 2001ء کے بعد پاکستان میں اب تک تقریباً 60 تنظیموں پر پابندی عائد ہے‘ جب کہ تین جماعتوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔ تاہم حکومت کی ناعاقبت اندیشانہ حکمت عملی کی وجہ سے سلامتی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہوا اور کالعدم گروپوں کی سرگرمیاں چیلنج بن گئیں۔ یہ جماعتیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غیرواضح پالیسی کی بدولت شناخت بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کو حکومت اور بعض اپوزیشن جماعتوں کی پشت پناہی کے علاوہ بعض بااثر گروپوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مبینہ طور پر ان کے سہولت کاروں کو ان بااثر گروپوں نے لاکھوں روپے ماہانہ پر ملازم رکھا ہوا ہے اور مختلف کالونیوں میں پرتعیش رہائش گاہیں بھی فراہم کر رکھی ہیں۔ وہ مختلف مواصلاتی اورتکنیکی ذرائع ابلاغ اور مختلف ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے تشہیر کا عمل جاری رکھتے ہیں اور یہ گروہ ویڈیوز اور سوشل میڈیا کے تیز تر استعمال سے بھی واقف ہیں۔ 10اکتوبر 2002ء اور18فروری 2008ء کے عام انتخابات کے موقع پر وزارت داخلہ نے ممنوعہ تنظیموں کے کوائف الیکشن کمیشن کو بھجوائے تھے اور انہی کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے ان کی خفیہ فہرست مکمل کوائف کے ساتھ ملک بھر کے ریٹرننگ افسران کو بھجوائی تھی اور ان کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ جانچ پڑتال کے دوران وزارتِ داخلہ کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں فیصلے کئے جائیں۔ اس طرح خفیہ ایجنسیوں اور وزارتِ داخلہ نے ملک کی تقریباً ایک درجن کے لگ بھگ غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کی بھی فہرست الیکشن کمیشن کو بھجوائی تھی کہ ان تنظیموں کو الیکشن کمیشن کے کسی ٹریننگ سینٹر اور کسی پولنگ سٹیشن تک رسائی نہ دی جائے‘ کیونکہ یہ تنظیمیں رسک ہیں۔
16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کے انتہائی المناک سانحے نے پوری دنیا کو ہلا ڈالا اور پاکستانی قوم کو شدید اذیت میں مبتلا کر دیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے گورنر ہائوس پشاور میں پارلیمانی پارٹیوں کی جو قومی کانفرنس بلائی تھی‘ اس میں بظاہر تو اتحاد و اتفاق کے مظاہرے دیکھنے میں آئے لیکن قوم کے جذبات کی صحیح ترجمانی کے آثار نظر نہ آئے۔ پارلیمانی رہنمائوں کی اس کانفرنس کے بعد سیاسی قیادت کے روایتی بیانات سامنے آئے۔ اس دلخراش واقعہ کی مذمت کی گئی‘ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا اعلان ہوا اور پھر گورنر ہائوس میں شاندار ظہرانہ کا انتظام کیا گیا۔ کیا ہمارے پارلیمانی رہنمائوں کو پشاور کے معصوم بچوں اور ان کے ورثاء سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے دوپہر کے کھانے کو موقوف نہیں کر دینا چاہیے تھا؟ گورنر سردار مہتاب عباسی کو بھی خیال نہ آیا کہ اس سوگ کے موقع پر دوپہر کی شاندار ضیافت سے گریز کیا جائے۔ صدیوں سے روایت چلی آرہی ہے کہ تدفین کے بعد مہمانوں کو سادہ کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ وہ بھی کسی دوسرے کے گھر سے۔ ابھی تو ان معصوم بچوں کی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی اور ہمارے پارلیمانی رہنما گورنر ہائوس کے سبزہ زار میں درجنوں اقسام کے کھانے تناول فرما رہے تھے۔ اس وقت آرمی پبلک سکول میں آپریشن جاری تھا۔ رات گئے تک یہ آپریشن جاری رہا اور معصوم بچوں کی لاشیں بھی سکول کے مرکزی ہائوس میں اکٹھی کی جارہی تھیں۔ پوری قوم بچوں کے ناحق قتل پر سوگ منا رہی تھی اور ساتھ ہی اپنے قومی رہنمائوں کے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ بھی دیکھ رہی تھی۔ قوم کے ان نام نہاد رہنمائوں سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟ عمران خان سے قوم توقع کر رہی تھی کہ وہ وزیراعظم نوازشریف سے گورنر خیبر پختون خوا کی سبکدوشی کا مطالبہ کریں گے‘ مگر... 
بہرحال ایکشن پلان کمیٹی کو 11مئی 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے عمران خان کے مطالبات حل کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہو گی ۔ انتخابی اصلاحات میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں اور آئین کے آرٹیکل 25,4,3 اور 38پر بھی انتخابی اصلاحات کمیٹی کو غور و خوض کرنا چاہیے۔ حکمران جماعت ملکی و قومی تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھے اور انہیں کسی بھی حالت میں ذاتی یا پارٹی مفادات سے آلودہ نہ ہونے دے۔ حکمران جماعت کی ٹیم کو جوڈیشل کمیشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے اور دھاندلی کی تعریف میں وقت کا ضیاع نہ کیا جائے۔ حکمران جماعت کے ارکان کو دھاندلی کی تعریف عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 80,78,77اور 82 میں آسانی سے مل جائے گی۔ پاکستان کے دستور نے ان دفعات کو آرٹیکل 218اور 219میں مکمل تحفظ فراہم کیا ہوا ہے۔ عمران خان کی ٹیم کو بھی عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی ان دفعات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے ۔ حکمران جماعت کی ٹیم اور ان کے اندرونی حلقے عمران خان کو انتخابی دھاندلی کے حوالے سے گھیرنا چاہتے ہیں اور بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جس طرح مسٹر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی بحالی کے وقت معاہدات ہونے کے باوجود معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور ان سے انحراف کرتے رہے اور بالآخر 16مارچ2009ء کو نواز شریف کا لانگ مارچ شروع ہوا‘ جس کے نتیجہ میں آرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی ۔ ان حالات میں اگر عمران خان کے ساتھ معاہدہ کر کے دھوکا کیا گیا تو پھر بیدار قوم نواز حکومت کے خلاف تاریخی احتجاج کرے گی‘ جس کے نتیجہ میں وزیراعظم نواز شریف حکومت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ 
سپریم کورٹ کی طرف سے عدالتی کمیشن قائم نہ ہونے کی صورت میں چیف الیکشن کمشنر کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 103AAکے تحت خصوصی اختیارات تفویض کرنے کے لئے آرڈی نینس جاری کیا جاسکتا ہے۔ تحریکِ انصاف کو قومی ایکشن پلان کمیٹی میں شرکت کے بعد انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں شرکت کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) شاہد صدیقی کی آئینی پٹیشن کے حوالے سے جو فیصلہ دیا‘ اس میں بین السطور دونوں جماعتوں کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ انتخابی سیاسی معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے بعد ان کی جانب سے عدالتی کمیشن بنانے کے احکامات معدوم ہوگئے ہیں۔ لہٰذا 11مئی 2013ء کے انتخابات کے لئے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کی سربراہی میں 156ایکٹ کے تحت عدالتی کمیشن بنایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 103AAمیں ترامیم کر کے الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے ان کو خصوصی اختیارات تفویض کر کے قومی مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں