"KDC" (space) message & send to 7575

دھاندلی کا فیصلہ: نظریں چیف الیکشن کمشنر پر

چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) سردار محمد رضا خان سے رسمی ملاقات کے دوران صدر مملکت ممنون حسین نے غلطیوں سے پاک انتخابی نظام جمہوریت کی بنیادی قدر بلکہ روح کی نشان دہی کردی۔ صدر مملکت کی گفتگو میں تین باتیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ اول: الیکشن کمیشن کی ساکھ بہتر بنائی جانی چاہیے۔ دوم: عوام انتخاب سے متعلق مسائل کے حل کے لیے چیف الیکشن کمشن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سوم: صاحبان اقتدار کو چاہیے کہ کچھ ایسا کام کر جائیں جس سے عوام طویل عرصے تک فائدہ اٹھائیں۔ کم وبیش تمام سیاسی رہنمائوں کے دعووں کو سامنے رکھا جائے تو سب ہی انتخابی نظام کودھاندلیوں سے پاک دیکھنے پر متفق نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات بڑی عجیب ہے کہ گزشتہ عشروں کے دوران کئی انتخابات آئے اور گزر گئے‘ انتخابی عمل کو دھاندلیوں سے پاک کرنے کے دعوے بھی کئے گئے مگر عملاً موثر نتائج حاصل ہونے کے بجائے‘ انتخابی نظام پربد اعتمادی بڑھی اور لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔ انتخابی عمل کی بنیادی ضرورت نشستوں کی درست تقسیم اور ہر جگہ درست حلقہ بندیاں کرنا ہے۔ اس کے لئے مردم شماری ناگزیز ہے؛ جبکہ آئین بھی ہر دس برس بعد مردم شماری کو ضروری قرار دیتا ہے۔ مردم شماری کی بنیاد پر فنڈز کی تقسیم اور وفاقی ملازمتوں میں کوٹے کا تعین کیا جاتا ہے مگر مردم شماری کا معاملہ گزشتہ حکومت کی بدنیتی اور موجودہ حکومت کی نا اہلیت کی وجہ سے تاحال کھٹائی میں پڑا ہے۔ اور بھی کئی ایسے معاملات ایسے ہیں جن کے باعث انتخابی عمل کی شفافیت پر بار بار سوالات اٹھتے ہیں۔ 11مئی2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف عمران خان کی احتجاجی تحریک تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ 18دسمبر کو پاکستان عملی طور پر مفلوج ہوتا نظر آ رہا تھا کہ اس سے دو روز قبل آرمی پبلک سکول پشاور کے قومی سانحے کے بعد عمران خان نے احتجاجوں کا سلسلہ موخر کر دیا۔ ان حالات میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات اور آئندہ انتخابات کو زیادہ شفاف بنانے کے لئے اصلاحات کی ضرورت کونظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور دائرہ کار سے متعلق حکومت اور تحریک انصاف کی بات چیت کا کامیاب ہونا ملک و قوم کی ضرورت ہے۔ فیڈریشن کے مفادات کے تحت بھی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل بہت ضروری ہے۔ انتخابی دھاندلیوں کے ازالے کے لیے ریفرنس بھجوانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 218 (3) کا سہارا لینا چاہیے۔ افسوس کہ سیاسی قائدین کوتاہ نظر اور کوتاہ بین ہیں۔ اپنی ذات یا اپنے عزیز و اقارب کے مفادات سے آگے دیکھ یا سوچ ہی نہیں سکتے۔ بیشتر سیاسی قائدین نے قوم کے غریب اور متوسط لوگوں کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا نہایت بے دردی سے استحصال کیا۔ انا اور مفاد پرستی کی خاطر قانون و آئین سے انحراف کرتے رہے۔ سابق صدر زرداری‘ ان کے وزرائے اعظم اور اُن کی حکومت کے بعض اراکین اور موجودہ حکومت کے اکابرین مالی بدعنوانی اورلا قانونیت کے تہہ در تہہ گراداب میں پھنس گئے۔ اب وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان بھی قوم کی توقعات پر پورے اترتے نہیں نظر آرہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی حکمت عملی معروف بیوروکریٹ فواد حسن چلا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اُن بیوروکریٹس کو بھی اہمیت دینی چاہیے جو ملکی مسائل‘ اقتصادی و خارجہ پالیسی اورامن وامان جیسے سنگین قومی مسائل کے حل اور اس کے ازالے کا ادراک رکھتے ہیں۔ فواد حسن انتظامی امورکے ماہر ترین افسر ہیں۔راقم الحروف ان کی انتظامی صلاحیتوں کا اس وقت سے معترف ہے، جب وہ 1995ء میں کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر تھے اور راقم الحروف بلوچستان کا الیکشن کمشنر۔ صوبائی الیکشن کمیشن نے ان سے انتخابی فہرستوں کی تیاری میں اور بعد از اں3فروری1997ء کے انتخابات میںانتظامی سپورٹ لی۔ تب سیکرٹری داخلہ اشرف ناصر اور چیف سیکرٹری روشن علی ضمیر کی نگرانی میں فوادحسن نے الیکشن کمیشن کے تمام معاملات میں مثالی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور خارجی معاملات کو دیکھا جائے تو حیرانی ہوتی ہے کہ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وزیراعظم نواز شریف پر زیادہ اعتماد نہیں کرتیں۔ وہ اب صرف برائے نام وزیراعظم بلکہ محض بجلی ،خزانے اور تعمیرات کے محکموں کے وزیر بن کر رہ گئے ہیں۔ پارلیمانی رہنمائوںکی کانفرنس میں بالخصوص عمران خان کو مشترکہ قراد دار پر دستخط کرنے سے قبل یہ سوال اٹھانا چاہیے تھا کہ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو پھر نیشنل سکیورٹی‘ خارجہ امور اور وزرات دفاع کی ٹیم تبدیل کرے۔ میرٹ پر پارٹی کے سینئرارکان کو کیوں تعینات نہیں کیا جاتا؟ وزارت قانون و انصاف اور دیگر محکموں کے لئے سینیٹر رفیق رجوانہ‘ رانا محمدافضل‘ ڈاکٹر فضل طارق اور میاں جاوید لطیف کو آگے لانا چاہیے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات‘ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے مجوزہ آرڈیننس کے اجراء پر تعطل کا شکار ہو گئے۔ اس وقت عسکری قیادت حالت جنگ میں ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ تحریک انصاف کے تخفطات دور کیے جائیں اور دھاندلی کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے‘ جو مقررہ مدت میں اپنا فیصلہ دے۔ قبل ازیں اس بارے میں دونوں جانب سے مثبت پیش رفت بھی ہوئی‘ لیکن مذاکرات میں تعطل کا پیدا ہونااور تین نکات پر اتفاق نہ کرناکسی صورت نیک فال نہیں۔ ملک کے سنگین حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تعطل جلد از جلد ختم ہو۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی دفعات 78اور79 میں دی گئی دھاندلی کی تعریف پر عمل کر کے تعطل ختم کیا جاسکتا ہے۔ 11مئی2013ء کے انتخابات میں پنجاب اور سندھ میں منظم طریقے سے دھاندلی کروانے میں ریٹرننگ افسران کا کردار پُراسرار رہا۔ خفیہ طور پر بیلٹ پیپرز کی چھپوائی میں بعض پُراسرار شخصیتوں کا عمل دخل تھا۔ سیاہی کے استعمال‘ نادرا اور الیکشن کمیشن کے مابین مفاہمت کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔ دھاندلی کی گراس روٹس تک پہنچتے ہوئے یہ بھی معلوم کرناہو گا کہ پولنگ بیگ کس کی موجودگی میں تیار کئے گئے۔ ماضی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے اس نوعیت کے انتخابی مواد کو‘ جس میں بیلٹ پیپرز‘ انمٹ سیاہی ،پیڈ ،خفیہ مہریں اور مخصوص مہر شامل ہیں‘ باقاعدہ حساب و کتاب کے ذریعے ریٹرننگ افسران کی موجودگی میں پولنگ کے تھیلوں میں مہر بند کیا جاتا رہا۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے بارے میںشنید ہے کہ مخصوص نشستوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ریٹرننگ افسران کی بجائے کہیں خفیہ جگہوں پر حساس نوعیت کے پولنگ تھیلے متوقع امیدواروں کے ایجنٹوں کی موجودگی میں تیار کروائے گئے۔
یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت انتخابات کروانے میں قوم کی امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے 11مئی 2013 کے انتخابات کی قلعی کھل جائے گی۔ تحریک انصاف کے انتخابات کے بارے میں جو منظم دھاندلی کرائی گئی اس کی ایک جھلک جسٹس شاہد صدیقی کی الیکشن کے بارے میں پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں دیکھی جا سکتی ہے‘ اس کا متن حاصل کرلیں اس آئینی پٹیشن میں چشم کشا ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔
جوڈیشنل کمیشن کی تشکیل ہوتے ہی 11مئی2013 کے انتخابات کے پراسرار ثبوت منظر عام پر آجائیں گے۔ علاوہ ازیں یورپی یونین کے مبصرین کی ٹیم کے سربراہ کو بھی جوڈیشل کمیشن میں طلب کرنا پڑے گا۔ سابق صدر زرداری نے نواز شریف کی حکومت کو تار پیڈو کرنے کے لئے سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں ریمارکس کی آڑ میں ملک کے ایک اہم ادارے کو نشانہ بنایا گیا ہے‘ حالانکہ سابق صدر نے این آر او کے ذریعے پیپلز پارٹی‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر احسان کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے این آر او کا کیس تین سال تک التواء میں رکھا جس کے نتیجے میں یہ کیس سوئٹزر لینڈ کے قانون کے مطابق از خود داخل دفتر ہو گیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں