"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کے انتخابات بحران کی زد میں

پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں فروری کے پہلے ہفتے میں انتخابات کا شیڈول جاری ہونے سے قبل میاں نوازشریف کی حکومت کو شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم بہترین حکمرانی کا نمونہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں بعض بین الاقوامی قوتوں کے خفیہ ہاتھ نے ان کو اقتدار میں پہنچانے میں اہم کردار اس لئے ادا کیا کہ ان قوتوں کو احساس تھا کہ وہ افواجِ کا خارجی امور میں عمل دخل معدوم کر دیں گے‘ بھارت کے ساتھ یورپی یونین کی طرز پر معاہدات کر کے اسے وسطی ایشیا تک رسائی دیں گے اور دفاعی بجٹ میں معقول حد تک کٹوتی کریں گے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کا بھارتی میڈیا کو 7یا 8مئی 2013ء کو دیا گیا انٹرویو مدِ نظر رکھا جائے جس میں انہوں نے کارگل کمیشن بناتے ہوئے بھارتی جرنیل کو اس تک رسائی دینے کا وعدہ کیا تھا اور ملک کے وزیراعظم مقرر ہونے کے بعد انڈین لابسٹ کے میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر بھی بات کی تھی۔ ان تمام معروضی حالات کے باوجود توقع تھی کہ وہ بہترین حکمرانی کے ذریعے جمہوریت کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے اور نئے رولز آف گیم کے تحت نئے سفر کا آغاز کرتے ہوئے کرپشن اور اقربا نوازی کو بتدریج بے دخل کر دیں گے۔
بدقسمتی سے وہ حکمرانی کے اعلیٰ اخلاقی معیارات پر فائز نہ ہوسکے‘ بلکہ ملک میں عوام بے زاری کی پالیسی اپنائی اور ملک کے مفادات کو پسِ پشت ڈال کر بھارت سے دوستی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اس کی بالادستی کو قبول کرنے کے لئے اپنے تنخواہ دار میڈیا پرسنز اور میڈیا ہائوسز سے افواجِ پاکستان کی تضحیک شروع کرا دی۔اب جب کہ افواجِ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ کر رہی ہیں تو بعض سیاستدان سینیٹرز کی 52 نشستوں کے لیے الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ 12 مارچ 2015ء کو سینیٹ کے نصف ارکان کے انتخاب کا انعقاد ہونا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے لئے چاروں صوبائی اسمبلیوں کا الیکٹورل کالج ہے۔ موجودہ تناظر میں عمران خان کے مؤقف کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان غیر قانونی ہیں اور اگر نواز حکومت عوامی دبائو کے نتیجہ میں جوڈیشل کمیشن بنانے پر رضا مند ہو جاتی ہے، تو وہ بھی فیصلہ دینے میں کم سے کم 6ہفتے لے گا۔ پھر اگر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ حکومت کی خواہش کے برعکس سامنے آئی تو موجودہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا پڑے گا اور حالات بتا رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے۔ پھر موجودہ اسمبلیوں کے خلاف عمران خان 17جنوری سے تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؛ چنانچہ وہ سینیٹ کے انتخابات کے لئے بڑے آئینی اور عملی مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ عمران خان ایک حکمتِ عملی کے تحت سینیٹ کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ 16دسمبر2014ء کے سانحہ کے بعد سے عمران خان مایوس کن صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ اس سے باہر آنے کے لئے جارحانہ روّیہ اختیار کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔ اگر انہوں نے سینیٹ کے الیکشن کا شیڈول آنے کے بعد ملک کو مفلوج کرنے کی حتمی کال دے کر اپنے ڈی پلان کی طرف پیش قدمی کی تو حکومت کا سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا خواب پورا نہ ہوسکے گا‘ کیونکہ بظاہر سینیٹ کے انتخابات سے پیشتر وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ آنے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ عمران خان اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے صوبائی حکومتیں رضا مند نہیں ہوں گی۔ صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے لئے پھر جنرل عبدالوحید کاکڑ کا فارمولا ہی آزمایا جاسکتا ہے۔ اگر عمران خان سینیٹ کے انتخابات میں تاخیر کرانا چاہیں گے تو انہیں اپنے صوبے کی اسمبلی کو تحلیل کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں تینوں صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ کے ارکان کا انتخاب تو ممکن ہے لیکن سینیٹ آئینی طور پر اپنے نئے چیئرمین کا انتخاب کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔
اگر الیکٹورل کالج کا کوئی حصہ یعنی کوئی صوبائی اسمبلی موجودنہیں تو سینیٹ کے انتخابات باقی تینوں صوبوں میں کروائے جاسکتے ہیں اور اس ضمن میں سینیٹ ایکٹ 74کی دفعہ 10کا سہارا لیا جاسکتا ہے‘ جس کے تحت قانون میں صوبائی اسمبلی کا ذکر ہے‘ صوبائی اسمبلیوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ دفعہ 10کے تحت الیکشن کمیشن باقی ماندہ صوبائی اسمبلیوں میں مجوزہ نشستوں کا انتخاب کروانے کے لئے سینیٹ کا الیکشن شیڈول جاری کرنے کا آئینی اور قانونی طور پر مجاز ہے۔ اگر کوئی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو متاثرہ اسمبلی کے انتخابات کرانے کے بعد سینیٹ کے ارکان کا انتخاب کرایا جاسکتا ہے‘ لیکن ان کی مدت کم تصور کی جائے گی اور ان کی مدت و معیار کا تعین قومی اسمبلی اور باقی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان مساوی طور پر کریں گے۔ یعنی اگر چھ ماہ یا تین ماہ کے بعد متاثرہ صوبہ کی اسمبلی کا انتخاب عمل پذیر ہوتا ہے تو اس صوبائی اسمبلی کے کوٹہ کے سینیٹ کے ارکان کی میعاد اتنی محدود کر کے باقی صوبوں کی اسمبلیوں کے مساوی کردی جائے گی۔ چنانچہ حکومت کا انحصار جوڈیشل کمیشن کے فیصلہ پر ہوگا۔ 
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ابھی تک مذاکرات کے دور بے نتیجہ رہے ہیں اور تحریکِ انصاف حکومت کو وارننگ دے رہی ہے کہ اگر عدالتی کمیشن کے قیام کے لئے تین نکات پر تحفظات دور نہ کئے گئے تو مذاکرات کو ختم سمجھا جائے گا ۔ دونوں فریقوں میں تحقیقات کے نظام الاوقات، بیلٹ پیپرز کی جانچ پڑتال اور تحقیقات کے نتائج پر عمل درآمد پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ ملک کو آج جتنے سنگین مسائل کا سامنا ہے‘ ان کے پیش نظر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان مذاکرات کو مزید کسی تاخیر کے بغیر کامیاب بنائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو سیاسی ماحول ازسر نو کشیدہ ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پورے آئینی اور جمہوری نظام کے لئے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا اہتمام نہ کیا گیا اور شکوک و شبہات کی گنجائش باقی رہنے دی گئی تو یہ سارا عمل لا حاصل رہے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ عدالتی کمیشن کی تشکیل، طریقِ کار اور ٹائم فریم وغیرہ کے معاملے میں حکومت تحریکِ انصاف کے مطالبات کو ماننے میں آخری حد تک کشادہ دلی سے کام لے۔ اس وقت قوم کو جس ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ عملی اقدامات جلد کیے جائیں ۔ یہی وقت کی آواز اور عوام کا فیصلہ ہے اور یاد رکھیے جب عوام کوئی فیصلہ کر لیں تو اسے پورا کرانے کی قوت بھی رکھتے ہیں اور جمہوریت میں عوامی فیصلہ ہی حرف آخر ہوتا ہے۔ حکمت اور طاقت یکجا ہوں تو ملک آگے کی طرف جائے گا‘ جبکہ حکمت سے عاری طاقت صرف بربادی پر منتج ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں