"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان عدم استحکام کی طرف بڑھ رہاہے؟

پاکستان کے رائے عامہ کے حامل سیاستدان اپنی کمی فہمی اور بے حسی کی بنا پر موجودہ فوجداری نظام انصاف میںبہتری کے خواہاں نہیں ہیں،جو فوجی عدالتوں کے قیام کا موجب بنا۔ 16 مارچ2009 ء کونام نہاد لانگ مارچ کے نتیجہ میں جس ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے بارے میں فیصلہ کروایا گیا ،اس سے ملک کا سارا عدالتی نظام ہی سیاست کاشکار ہوگیا اورسابق چیف جسٹس نے غلط تشریحات پیش کر کے پاکستان کے مقتدر حلقوں کو کمزورکرنے کی کوشش کی جس پرجنرل اشفاق پرویز کیانی نے روایات سے ہٹ کر ایسے بیانات دیے جس سے زرداری حکومت بھی لرز گئی اورصدر زرداری کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے 22 نومبر 2011 ء کو دبئی پہنچانا پڑا۔ اب فوجی عدالتیں دہشت گردی اور بد امنی پرقابو پانے کے لیے خطرناک دہشت گردوں پرمقدمات چلائیںگی۔ نوازحکومت اورزیادہ تر سیاسی جماعتیں اس راستے کواختیارکرنے پر رضا مند نہیں تھیں ، لیکن 16دسمبر2014 ء کے قومی المیہ کے بعد اس پر سیاستدانوں کو رضامند ہونا پڑا۔ وزیراعظم نوازشریف کے معاونین نے انہیں بریف کرتے ہوئے قومی تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھا ۔ ان دونوں مواقع پر خطاب کاطریقہ کار متاثر کن نہیںتھا۔بد قسمتی سے وزیراعظم کے اردگرد خوشامد یوں کاہجوم رہتا ہے ۔ نوازشریف کے پاس ملک کے سنگین مسائل کے حل کے لئے وقت ہی نہیں جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہرحادثے کے بعد رپورٹ طلب کرنے کے سوا کوئی کارروائی نہیں کرتے اور ان کے احکامات کو بیوروکریسی زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتی۔ اب آئین میں 21ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 175کی کلازتھری میںنیا جملہ شامل کرکے فوجی عدالتوں کو مکمل طورپر آئینی تحفظ دے دیاگیا ہے۔
افواج پاکستان کی اعلیٰ کمانڈ نے سیاستدانو ں کے چہروں کو بھانپ لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دانشور رہنما افواج پاکستان کے حوالے سے بھانت بھانت کی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت فوجی عدالتوں کی وکالت نہیں کرے گی ۔ سابق صدر ضیاء الحق نے مشرقی پاکستان کے سانحہ کی طرز پر خالصتان تحریک پرگہری نظر رکھی ہوئی تھی اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے 30 اکتوبر1984ء کو قتل کے بعد خالصتان کی تحریک زور پکڑ چکی تھی اور 1988 ء کے اوائل یہ تحریک اتنی فعال ہوگئی تھی کہ ہفت روزہ نیوز ویک اور ہفت روزہ ٹائمز نے بھارت کی تقسیم کے نقشے ٹائٹل کے صفحات پر شائع کر دیے تھے ،لیکن 17اگست 1988ء کے سانحہ کے نتیجہ میں برسراقتدار آنے والی حکومت کے بارے میں شبہ پایا جاتا ہے کہ اس کے ایک اہم وزیر نے سکھوں کی خفیہ فہرست بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو، ان کے دورئہ پاکستان کے دوران پیش کردی تھی اور اسی فہرست کے حصول کے بعد بھارتی حکومت نے سکھوں کی آزادی کی تحریک کو کچل دیاتھا۔
ماتحت عدالتوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہاں بعض جج حضرات کی مذہبی اور گروہی وابستگیاںہیں اور وہ فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث مجرموں میں سے بعض کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ ان کی نظریاتی ہم آہنگی تو دوسری وجہ خوف بھی ہوسکتی ہے ۔اس کے علاوہ ہماری پولیس کی تفتیش کاطریقہ بھی ناقص ہے ۔اس سے انتہا پسند آسانی سے بری ہوجاتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تمام تردعووں کے باوجود ان مسائل کی اصلاح کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی یہ معاملات ان کی ترجیح تھے ۔ ان حالات میں وزیراعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے دعوے کرتے وقت ان کی راہ میں حائل مذہبی، سیاسی اور انتظامی مشکلات کو ذہن میں رکھیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں پارلیمانی وسیاسی رہنما اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکے ہیں۔
محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف علامتی وزیراعظم کی حیثیت اختیارکرتے جارہے ہیں۔ وزارت خارجہ کااحوال یہ ہے کہ افغان صدر نے پاکستانی سیاست دانوں کو براہ راست مدعو کرلیا ۔
پہلے مرحلے میں افغان صدر نے چار پشتون رہنمائوں کودعوت دی۔ اسی طرح بھارتی حکومت بھی اپنے پسندیدہ پاکستانی سیاست دانوں کومدعو کرسکتی ہے ۔ جن سیاستدانوں کو ،افغان حکومت نے مدعو کیا،انہیں صدر اشرف غنی کی پیشکش کو مسترد کردینا چاہیے تھا، کیونکہ پاکستان میں ایک جمہوری اور نمائندہ حکومت قائم ہے اورصدر اشرف غنی کو حکومت پاکستان کی وساطت سے انہیں مدعو کرنا چاہیے تھا۔ 2007ء میں چیف جسٹس آف پاکستان ، سینئر ترین بیورو کریٹس ، اٹارنی جنرل اورراقم الحروف کوبھی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے خصوصی دعوت نامے بھجوائے گئے تھے ۔ راقم الحروف نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو امریکی دعوت نامے سے آگاہ کردیا تھا کہ اس طرح وزارت خارجہ کے علم میں لائے بغیر دعوت نامے جاری کئے گئے ہیں۔وزیراعظم شوکت عزیز نے مجوزہ دورے کی منظوری سے انکار کردیاتھا۔ اسی طرح افغان صدر کی خصوصی دعوت کو بھی حکومت پاکستان کو مسترد کردینا چاہیے تھا۔
موجودہ حالات میں آئندہ دوسال تک آئین کے دسویںباب کے تحت ایمرجنسی لگائی جاسکتی ہے ، لیکن یہ اہم نکات پارلیمنٹ اورحکومت کی نظروں سے اوجھل رہے۔ ایمرجنسی لگانے سے وفاقی حکومت ، عدلیہ اور پارلیمنٹ معمول کے مطابق کام کرتی رہتی ہیں اور صرف ہنگامی حالات کے تحت فوجی عدالتیں خود بخود قائم ہوسکتی ہیں اور اعلیٰ عدلیہ بھی ان کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کی مجاز نہیں ہوتی ۔گمان یہ ہے کہ اگر ملک میں امن وامان کی صورت حال یہی رہی تو حکومت اپنے ہدف کو پورا نہیں کرسکے گی اور اگر ایسا ہوا تو ریاست کو بچانے کے لیے آئین کے دسویں باب کے تحت ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے بنگلہ دیش کی طرز پر پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے حکومت کی باگ ڈور چیف جسٹس کے سپرد کردینی پڑے گی، کیونکہ ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو بددیانت نظام کے باعث ریاست محفوظ ہاتھوں میں نہیں رہے گی۔ ہمارے سسٹم میں میڈیا ، سیاستدان اور حکومت کے اہم ستون عوام کااعتمادکھو بیٹھے ہیں ۔ ان حالات میں سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو جمہوریت کے نام پر فریب کے سوا کچھ نہیں کہاجاسکتا۔وزیراعظم نوازشریف وژن سے عاری محسوس ہوتے ہیں، ورنہ سابق صدر زداری کو سیاسی رہنمائوں کی کانفرنس میں مدعو کرتے ہوئے سابق صدررفیق تارڑ ر اور سابق صدرجنرل پرویز مشرف کو بھی ایک صفحہ پرلے آتے ۔
اب الیکشن ٹربیونل سردار ایاز صادق کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دے تو یہ عمران خان کے لئے انتہائی حوصلہ افزا بات ہو گی، لیکن بصورت دیگر ان کی حکمت عملی کے لئے نقصان دہ ہو گی۔ آج کل حکومت کی عقابی پالیسی کے چند کردار میڈیا میں جھوٹ کا پلندہ اٹھائے ذاتیات پر حملہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اپنی جارحانہ ٹیم تشکیل دے کر ملک کو 9جون1977ء جیسی صورتحال کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ چنانچہ جوڈیشل کمیشن کا قیام مشکل سے مشکل دکھائی دے رہا ہے، تاہم اس سب کا دارومدار عمران خان کی الیکشن ٹربیونل میں ایاز صادق کے خلاف درخواست کے فیصلے پر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں