"KDC" (space) message & send to 7575

مفاہمت کی پالیسی کیوں ضروری؟

1980ء کے عشرے میں دہشت گردی نے باقاعدہ طور پر سیاسی قوتوں کی جگہ لینا شروع کی اور سیاسی قوتیں ذاتی مفادات کے تحت پسپائی اختیار کرتی گئیں۔ یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں یہ فیصلہ بھی انتہا پسند تنظیموں نے کیا کہ ملک میں کس سیاسی جماعت کو ووٹ دئیے جائیں‘ اور کسے نہیں۔ انتخابی عمل سے جمہوری حکومتیں تو قائم ہو گئیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ معاملات سیاسی جماعتوں کے کنٹرول میں نہیں رہے۔ دہشت گردی کے خوف ناک واقعات مسلسل رونما ہوتے رہے اور سیاسی قوتیں کوئی فیصلہ خود کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ اب بھی اگر سیاسی قوتیں حالات کو نہ سمجھ سکیں تو پھر معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کی ناکامی کی صورت میں سیاسی قوتوں کے کردار کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ بہتریہی ہے کہ سیاسی قوتیں تقسیم ہونے کے بجائے یک جہتی کا مظاہرہ کریں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کو متحرک کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کارکردگی بہتر بنانی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف ناکامی خدانخواستہ تباہ کن ہوگی؛ لہٰذا سیاسی قوتوں کے لئے اس جنگ میں کامیابی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں وگرنہ سیاسی اور جمہوری عمل سخت خطرے میں رہے گا۔ 
دہشت گردی اور دہشت گردوں کو سزا دینے کیلئے اجتماعی قومی رائے سے اختلاف‘ دراصل قراردادِ مقاصد اور آئین کے آرٹیکل (A)2کی خلاف ورزی ہے۔ پس حکومت مذہبی جماعتوں کے دبائو کو کسی خاطر میں نہ لائے۔ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کا پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ سب کو تسلیم کرنا چاہیے۔ قوم پہلی دفعہ دہشت گردی کے خاتمہ کے ہدف پر متحد ہوئی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بارے میں فیصلہ نہ ہونے سے دونوں سیاسی جماعتوں میں خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے باوجود جمعیت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی کا نظریہ‘ ملک کے سواداعظم کے مؤقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان جماعتوں نے‘ جو بنیادی طور پر قائداعظم کے سیاسی فلسفہ کی مخالف رہیں‘ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پارلیمنٹ کے فیصلے کے خلاف رائے دے کر آئین کے آرٹیکل 2-A کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ قراردادِ مقاصد سے بھی انحراف کیا ہے۔ قراردادِ مقاصد میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہو گا اور حاکمیت اللہ ہی کی ہے۔ ملک میں اقتدار جن لوگوں کو ملے گا ان کے پاس یہ اللہ کی امانت ہو گا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کیلئے ایسی مذہبی جماعتوں پر پابندی عائد کرے جنہیں بعض برادر اور ہمسایہ اسلامی ملکوں سے مالی امداد ملتی ہے۔ 
حکومت وہ تمام راستے بند کرے، جس سے ان مذہبی جماعتوں کو غیر ملکی ذرائع سے پیسہ ملتا ہے اور جو مذہبی جماعتیں ایسی کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف سیاسی جماعتوں کے قانون 2002ء کے تحت کارروائی کرتے ہوئے‘ ریفرنس سپریم کورٹ بھجوائے۔ صوبائی حکمران بھی ان مذہبی رہنمائوں سے ملاقات کرنے سے گریز کریں‘ جو وفاق میں وزیراعظم کی دہشت گردی کی پالیسی کی مخالفت کر رہی ہیں۔ 
قومی اسمبلی کے حلقہ 122میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے حقائق پر مبنی جامع رپورٹ ضابطہ کے مطابق الیکشن ٹربیونل لاہور میں جمع کرادی۔ الیکشن ٹربیونل کی کارروائی کے دوران تحریک انصاف اور نون لیگ کی جانب سے جو دعوے کئے جارہے ہیں وہ بادی النظر میں درست نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات حکومت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے احتیاط کی راہ اپناتے تو بہتر تھا۔ انہوں نے تجاوز کر کے محاذ آرائی کو بڑھاوا دیا۔ عمران خان چونکہ انتخابی عذر داریوں کے حوالہ سے اہم فریق ہیں۔ ان کا نقطہ نظر جارحانہ ہونا اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے درست ہے۔ لیکن حکومتی وزراء کی حکمت عملی وزیراعظم نوازشریف کے لئے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ عدالتی عمل کی تکمیل سے پہلے محض روز مرہ کی کارروائی کی بنیاد پر پریس کانفرنس میں ٹی وی پروگراموں پر اپنے اپنے موقف کے درست ثابت ہوجانے کے دعوے کرنا الیکشن ٹربیونل پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزراء سردار ایاز صادق کی نشست کو کالعدم ہونے سے بچانے کیلئے میدان میں اتر آئے ہیں۔ نظر آرہا ہے کہ سردار ایاز صادق نوازشریف کے لئے یحییٰ بختیار ثابت ہوں گے۔ قومی اتحاد نے 7مارچ1977ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف منظم تحریک شروع کی تو وزیراعظم بھٹو نے قومی اتحاد کے تحفظات دور کرنے کیلئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان کو آرڈی ننس کے ذریعے عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ103میں ترمیم کر کے دھاندلی زدہ حلقوں میں از سر نو جانچ پڑتال کر کے سمری ٹرائل کے ذریعے الیکشن کالعدم قرار دینے کے اختیارات تفویض کر دئیے۔ الیکشن کمشن نے‘ سنگین انتخابی تحریک کو کسی حد تک ختم کرنے کیلئے‘ سمری ٹرائل کے ذریعے 12سے 15کے لگ بھگ قومی اسمبلی کے ارکان کے انتخابات کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا کہ بیلٹ پیپرز کے کائونٹر اور ووٹرز فائل پر پریزائڈنگ افسران کی مہر اور دستخط موجود نہیں۔ اسی دوران جب پشین سے کامیاب ہونے والے وزیراعظم بھٹو کے دست راست اور پاکستان کے اس وقت کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے حلقے کی جانچ پڑتال کے دوران ان کے تقریباً چالیس ہزار سے زائد ووٹوں کے کائونٹر فائل پر متعلقہ پریزائڈنگ افسران کے دستخط اور مہر کے نشانات نہ پائے گئے تو ان کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا اعلان ہونے ہی والا تھا کہ وزیراعظم بھٹو نے اپنے دوست کو قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہونے سے بچانے کیلئے اپنے ہی جاری کردہ آرڈی ننس کو واپس لے لیا۔ لہٰذا جونہی الیکشن کمیشن کے اختیارات معطل ہوئے‘ پورا ملک انتخابی بحران کی زد میں آگیا اور5جولائی 1977ء کا قومی سانحہ پیش آ گیا۔ لہٰذا وزیراعظم نوازشریف تاریخ کو دھیان میں رکھیں۔ پورے انتخابی عمل کی تحقیقات کے لئے بااختیار عدالتی کمشن کے قیام کے لئے دونوں جانب سے احتیاطی طرز عمل کا ثبوت دیتے ہوئے آئینی حدود میں مسئلے کا حل تلاش کر کے افراتفری اور انتشار کی کیفیت سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔
نوازشریف کو اپنے عقابوں کی باتوں میں آ کر عمران خان کے مطالبہ پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہئیں۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ خطرناک موڑ پر آچکی ہے۔ پتہ نہیں یہ کب تک چلے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں جوڈیشل کمشن کا قیام سیاسی نظام اور سیاسی حکومت کے لئے شاید خوشگوار نہ ثابت ہو۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جس قومی جنگ کا اعلان کیا ہے اس کے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات ہوں گے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ انتخابی دھاندلیوں کی وجہ سے جنگ کے دوران اور اس کے بعد ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں جن میں موجودہ حکومت 11مئی 2013ء کے متنازع انتخابات کی زد میں آ کر مشکل میں پھنس جائے۔یہ جنگ دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف جوڈیشل کمیشن کی تحریک اور دوسری جانب دہشت گردی کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں جو بھی درست حکمت عملی اختیار کرے گا وہی سیاسی افق پر نظر آئے گا۔ موجودہ تناظر میں وزیراعظم آفس کے میڈیا ہائوس کے عقابوں کے طرز عمل سے محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے حالات کو 12اکتوبر1999ء کی طرف لے جانے کی ٹھان لی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں