"KDC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی کے ارکان کی رکنیت کا مسئلہ

حکومت اورتحریک انصاف کے درمیان جاری سیاسی ، قانونی اورآئینی کشمکش کم ہونے کی امیدیں ختم ہوتی نظرآرہی ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ اگردونوں جماعتوں کے درمیان جو ڈیشل کمیشن کے طریقہ کار پر اتفاق ہوگیاتواس کے قیام کے لئے ضروری قانون سازی بھی کر لی جائے گی اور آئین کے آرٹیکل 225 میں جزوی طورپر اور مشروط ترمیم اسی انداز میںکی جائے گی،جس طرح پارلیمنٹ نے ایک ہی نشست میں فوجی عدالتوں کے قیام کے سلسلہ میں آئین میں ترمیم کرکے راہ ہموار کردی تھی۔حکومت کی جانب سے ترمیم کرکے الیکشن نتائج کی جانچ پڑتال کرنے اورجوڈیشل کمیشن کے قیام کی راہ ہموار کردینی چاہیے تھی۔ یاد رہے کہ 7مارچ1977ء کے انتخابات کے موقع پر قومی اتحاد کے رہنمائوں کے مطالبات بھی اسی قسم کے تھے جس پروزیراعظم بھٹونیم دلی سے آمادہ ہورہے تھے کہ5جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے سیاسی حکومت کی بساط ہی الٹ دی ۔تاہم ابھی تک اس جانب کسی طرح کی پیش رفت نہیں ہوئی،حالانکہ حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن پر تحریک انصاف کی شرائط تسلیم کرنے سے انکارکے بعد مذاکرات تقریباًمعطل ہوچکے ہیںاور حکومتی ترجمان اوران کے میڈیاسیل کے عقابوں نے تحریک انصاف کے خلاف بیانات کی گولہ باری کرکے سیاسی ماحول کواحتجاجی تحریک کی طرف موڑ دیاہے ۔
تحریک انصاف کے 27 ارکان تقریباًچھ ماہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر ہیں،جن کی رکنیت آئین کے آرٹیکل 68اور قومی اسمبلی کے رول 47کے تحت ختم کی جاسکتی ہے۔ 22ویں ترمیم کے سلسلہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس جلد ہونے کی توقع ہے۔ قانون کے تحت جب کوئی رکن اسمبلی تحریک انصاف کے ارکان کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کی تحریک ایوان میںپیش کرے گاتو سپیکرقومی اسمبلی کے پاس ان ارکان کی رکنیت ختم کرنے کے سوا کوئی دوسرا رستہ نہیں ہوگا۔ ممکن ہے جنوری کے آخری دنوں میں سردار ایاز صادق کی قسمت کا فیصلہ بھی الیکشن ٹربیونل کے ذریعے سامنے آجائے۔
صاف ظاہر ہے کہ حکومت جب تک جوڈیشل کمیشن کے ذریعے 11مئی 2013ء کے انتخابات کی تحقیقات نہیں کروالیتی ، تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے اجلاس میں واپس جانے کی پوزیشن میں نہیںہیں۔آئین کے آرٹیکل اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس میںواضح طورپر کہاگیاہے کہ اگر کوئی رکن چالیس یا اس سے زیادہ ایام کے لیے ایوان سے بلا اجازت غیرحاضر رہتا ہے تو سپیکر اپنی رولنگ کے ذریعے اس کی رکنیت ختم کرنے کا پابند ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکرکی آئینی رولنگ کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔ آئین کے آرٹیکل 68 کے تحت کسی بھی رکن کی مسلسل غیر حاضری کانوٹس خود سپیکر بھی لے سکتاہے لیکن مصالحتی وجوہ کی وجہ سے سپیکر سردار ایاز صادق نے ایسا نہیں کیا، مگر اب ضروری ہے کہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی کے معاملے میں کارروائی کی جائے ۔ اس میںقباحت اس لئے نہیں ہے کہ تحریک انصاف خود رکنیت سے مستعفی ہوچکی ہے۔ بہرحال یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ ارکان قومی اسمبلی کی اتنی بڑی تعداد کی رکنیت آئین کے آرٹیکل 68 کی خلاف ورزی پر ختم کی جائے گی ۔ ماضی میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب رحیم جو سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے خوف سے دویا تین سال تک دبئی میں مقیم رہے توان کی رخصت کی درخواستیں خارج ہونے پر ان کی نشست خالی قراردے دی گئی تھی ۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ثنا ء اللہ بلوچ بھی صدرمشرف کی حکومت کے دوران خود ساختہ جلاوطنی پر رہے؛ تاہم بعد ازاں اس وقت کے چیئرمین سینیٹ میاں سومرو نے انہیں حاضری سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کے تمام واجبات ادا کردیئے تھے۔ 
اپنے اپنے شعبہ جات میں دکھائی جانے والی ان کی کارکردگی سے ظاہر ہورہاہے کہ افواج پاکستان حالت جنگ میں ہیں جب کہ سیاستدان کاروباری سیاست کررہے ہیں ۔دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس ہمارے ہاں جمہوریت کادفاع کرپشن کے تحفظ کے لیے کیاجاتا ہے۔ اسی لئے اب جمہوریت اور پارلیمنٹ سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہاہے ۔اس کے ذمہ دار سیاست دان ہیں ۔ ملک میں پٹرول کابحران وزیرخزانہ واقتصادی امور کی ذہنی اختراع ہے تاکہ عوام کی توجہ حکومت کی ناپختہ پالیسیوں سے ہٹ جائے۔ وزیراعظم نوازشریف کے آئین میں21 ویںترمیم کے حوالہ سے عدالتوں کے بارے میںدیئے گئے بیان پر ججوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے ۔معزز ججوں کے ریمارکس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہاہے کہ فوجی عدالتیں قائم ہونے سے پہلے خود بنانے والوں کی تنقید کاشکار ہوگئی ہیں۔حالانکہ یہ عدالتیں قومی مفاد اور حالت جنگ کے تناظر میں بنائی جارہی ہیں۔ اسی طرح کے حالات جولائی 1999ء میںکارگل کی جنگ میں وزیراعظم کی عدم توجہی کی وجہ سے پیدا ہوگئے تھے، جب انہیں سعودی عرب کے توسط سے امریکی صدر سے ہنگامی طورپر ملاقات کی استدعا کرنی پڑی تھی۔اگر فوجی عدالتوں کے قیام اور کام میں بنیادی حقوق کی نسبت سے یا کسی طریقہ کار کی وجہ سے رکاوٹیں آئیں توپھر سیاسی حالات تبدیل ہوسکتے ہیں اور لاء اینڈ آرڈر کامسئلہ بھی پیدا ہوسکتاہے۔
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے حکومت اورتحریک انصاف کے مابین شدید اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس کی طرف سے جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 225کے تحت الیکشن ٹربیونلز پہلے ہی کام کررہے ہیں۔ حکومت اورتحریک انصاف کو 11مئی 2013ء کے متنازعہ انتخابات کا معاملہ حل کرنے میں سنجیدہ ہونا پڑے گا 
اور حکومت کوعمران خان کو فیس سیونگ کا راستہ دینا پڑے گا،لیکن اس کے برعکس حکومت جوڈیشل کمیشن بنانے میںاس لئے سنجیدہ نہیں ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ہوتے ہی پنجاب کی حکومت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی، لہٰذا ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی شق۔ AA 103 میں ترامیم کرنا ہوں گی۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ بااختیار کمیشن بنانے کے لیے پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے قدم اٹھائے اور عوامی نمائندگی ایکٹ76کی دفعہ 103 میں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو دھاندلی زدہ حلقوں کوکالعدم قراردے دینے میںفری ہینڈ دے۔ یہاںیہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اورہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی صوابدید پرہے کہ وہ کمیشن کے لئے ججز کونامزد کریں۔ حکومت چیف جسٹس کوصرف ریفرنس ہی بھیج سکتی ہے، البتہ حکومت چاہے تو ریٹائرڈ ججز اورماہرین پرمشتمل کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے،جس کے لیے حکومت کوچیف جسٹس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ ماضی قریب میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف ہائی کورٹس کے ذریعے متعدد کمیشن بنائے گئے جن میں میمو کمیشن اور دیگرشامل ہیں۔
چوہدری اعتزاز احسن نے انتخابی دھاندلی پروائٹ پیپر شائع کرکے حکومت پرانتخابی ڈرون حملہ کردیا ہے۔ اس وائٹ پیپر سے تحریک انصاف کے موقف کی تائید ہوگی ۔ ملک میں افراتفری پھیل رہی ہے، اب حکومت بڑا دھچکا برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ پٹرول ، گیس اور بجلی کی بحران سے بھی اضطراب پھیل رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں