سیاسی استحکام ، اقتصادی قوت اور منصفانہ نظام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک ایک واضح نظریہ سامنے نہ ہواور منزل کی سمت کا تعین اورمقصد سے لگن عنقا ہو۔ اس کے ساتھ وژن کی حامل سیاسی شخصیات ، جامع منصوبہ بندی اوراس پر عمل در آمد کے لئے پُرخلوص کوششیں لازم ہیں۔ محض پارلیمنٹ میں یا صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مقصدکے ساتھ اخلاص اور قوم کے حقیقی ترجمانی در کار ہوتی ہے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اپنے پانچ سالہ منصوبوں کے ساتھ پاکستان کو آگے لے جانے کے خواہش مند تھے۔ ان کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوا تو انہوں نے دوسرے اور پھر تیسرے پانچ سالہ منصوبہ کے ذریعے قدم اٹھائے اور ملک خو شحالی کے سفر میں آگے بڑھنے لگا۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبہ کی ریکارڈ کامیابی کے بعد جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کے پالیسی ساز حکمرانوں نے پاکستان کے دوسرے اور تیسرے پانچ سالہ منصوبہ کے بلیو پرنٹس حاصل کر لیے۔ اس سے امریکہ کے پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں تہلکہ مچ گیا اور انہوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
امریکی اعلیٰ کمان نے محسوس کیا کہ اگر پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر جانے دیا گیا تو یہ 1980ء تک جاپان سے آگے نکل جائے گا، لہٰذا انہوں نے پاکستان کے خلاف اپنی ریشہ دوانیاں شروع کردیں اور اس مقصد کے لئے پاکستان کے پلاننگ کمیشن سے ایک ایسے جوڑے کو تلاش کیا جو ذہنی بیمار تھا اور ہر جائز و ناجائز حربے کے ذریعے آگے نکل جانے کے لئے کوشاں رہتا تھا۔ افراتفری اور بدنظمی
پھیلانے کے لئے ان کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ منصوبہ بندی کے بیوروکریٹ نے پینٹاگون اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو چندنعروں کی تھیوری پیش کی: (i) غریب ترین ملک کا امیرترین صدر(ii) ملک کے وسائل پر 22 خاندانوں کا قبضہ (iii) پٹ سن کی خوشبو سے اسلام آباد کی شاہراہیں مہک رہی ہیں۔ سی آئی اے نے اس بیوروکریٹ کی تھیوری کو ہفت روزہ ٹائم اور ہفت روزہ نیو ویک ، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور برطانوی جریدوں میں شائع کرا کے ایوب خان کے خلاف منظم طریقے سے مہم کا آغازکروا دیا اور ان کی حکومت سے غلطی کا ارتکاب ان کے دس سالہ جشن ترقی کا آغازکرواکے کیا۔ سی آئی اے کے ایما پر مولانا بھاشانی نے ملک میں گھیرائو جلائوکی تحریک شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک خانہ جنگی اور شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ نتیجتاً ایوب خان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ بعد ازاں اسی بیوروکریٹ کو جنرل ضیاکے دور حکومت میں سی آئی اے کے دبائوکے تحت ملک کی اہم وزارت سونپی گئی لیکن محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو اسے وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے ۔
ملک جب بھی ترقی کی شاہراہ کے قریب پہنچتا ہے، نادیدہ قوتیں پاکستان کے حکمرانوںکی نااہلی سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد سے پاکستان سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے‘ جس کی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ انڈونیشیا میں صدر سوئیکارنوکے بعد صدر سہارتو 32 سال سے زائد صدر رہے۔انہوں نے معاشی لحاظ سے انڈونیشیا کو مثالی ترقی دے کرترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا لیکن جونہی امریکہ نے محسوس کیا کہ یہ ملک عنقریب فلاحی مملکت بننے والا ہے، صدر سہارتو کے خلاف اچانک خانہ جنگی کے شعلے بھڑکا دیے گئے اور وہ امریکی سازش کی بھینٹ چڑھ گئے۔انہیں ہٹانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ مشرقی تیمورکو علیحدہ کرنے کی سازش میں پیش پیش تھا اور صدر سہار تو ان کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ صدر سہارتو نے منصب صدارت سے مستعفی ہوکر اپنے ملک کو گھیرائو جلائو سے بچا لیا۔ ملک میں انتخابات کرائے گئے۔ انڈونیشیاکے سابق صدر سوئیکارنوکی صاحبزادی میگاوتی سوئیکارنو پتری نے مشرقی تیمورکی علیحدگی پر قرارداد کی حمایت سے انکارکیا تو انڈونیشیا کی مذہبی جماعتوں کے اشتراک سے کامیاب ہونے والے نابینا صدر عبدالرحمن نے مشرقی تیمورکی علیحدگی پر دستخط کردیے۔ وہ اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے والے تھے کہ پارلیمنٹ میں بغاوت ہوگئی جس کے نتیجے میں میگاوتی انڈونیشیاکی صدر منتخب ہوگئیں۔
میاں محمد نوازشریف کی حکومت عوام کو خوف وہراس میں مبتلاکر نے کی خداداد صلاحیت سے بہرہ مند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وزرا کے بجائے سرکاری افسروں پراعتماد کرتے ہیں۔ میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کی کابینہ کے ارکان کی کارگردگی انتہائی ناقص ہے۔ دراصل یہ ہمارے پارلیمانی نظام کا شاخسانہ ہے کہ اس میں وزیراعظم محض سیاسی وابستگی رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ میں سے براہ راست وزرا کی تقرری کرتا ہے اور امور مملکت چلانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل نہیں کی جاتیں۔ صدارتی نظام میں ریاستی شعبوں کو ماہرین چلاتے ہیں۔ بدقسمتی سے وزیراعظم میاں نوازشریف حکومت میںکشمیری نژاد افراد اور لاہورگروپ کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ حکمت عملی سابق صدرضیاء الحق سے وراثت میں حاصل کی ہے۔ جنرل ضیا جالندھری گروپ کو اہمیت دیتے تھے ۔
لوڈ شیڈنگ، توانائی کے بحران، چینی کے بحران اور اب آٹے کے بحران کا حکومت کو سامناکرنا پڑرہا ہے۔ وزرا عوام میں اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔ خواجہ آصف اور چودھری نثار پہلے ہی سول اورملٹری تعلقات کی خرابی کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف ماڈل ٹائون کے سانحے میں گھرے ہوئے ہیں۔ پٹرول کے بحران کے باعث اسحاق ڈار اور شاہد خاقان عباسی عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ وزرا کی نااہلی اور بدترین حکومت کی ذمہ داری وزیراعظم پرہی عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ہی خاندانی وفاداری کی بنیاد پر کابینہ تشکیل دی۔ وزرا کی ناقص کارکردگی سے حکومت کو بہت بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ماہرین کا خیال ہے کہ عام انتخابات اسی سال ستمبر یا اکتوبر میں ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ عسکری قیادت مبینہ طور پر حکومت کی کارکردگی پرگہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ جونہی انتخابی بگل بجے گا، وزیراعظم نوازشریف کو حکومت کی ناقص کارکردگی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے مقررکردہ وزرا ان کی تباہی کا باعث بنے، موجودہ کابینہ کی نااہلی، وزرا کے باہمی اختلافات اور بدعنوانیوں نے خطرناک صورت اختیارکر لی ہے۔ میٹروبس، موٹروے اور شاہراہوںکا معیاربہتر بنانے سے عوام کی مشکلات کا ازالہ نہیں ہو رہا ۔ لگتا ہے عمران خان کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن اسی اندازسے تشکیل دیا جائے گا جس طرح 16 مارچ 2009 ء کو ججز کی بحالی ہوئی تھی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف ، بادی النظر میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے عوامی دبائوکو برداشت کر گئے ہیں۔ دونوں رہنمائوں کے احتجاجی دھرنوں سے حکومت عدم استحکام کا شکار ضرور ہوئی لیکن اب مالی امور درست کرنے کے لئے وزرا کوتبدیل نہ کیا توتمام غیر ملکی معاہدے‘ جن میں ترکی‘ چین اور دیگر بین الاقوامی ادارے شامل ہیں‘ مل کر بھی ان کی حکومت کو گرنے سے نہیں بچا سکیں گے‘ لہٰذا انہیں چاہیے کہ سیاسی کشیدگی نہ بڑھائیں اور 11مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے الفاظ سے نہ کھیلیں ، جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے مذاکرات کو حتمی نتیجہ تک پہنچایا جائے۔ سپیکر ایاز صادق کے حلقے کے ازسر نوآڈٹ سے جو بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں‘ وہ غیر قانونی ہیں۔ 34 ہزار ووٹوں کے کائونٹر فائلز پر دستخط اور مہر نہ ہونا دھاندلی ہی تصور کیا جائے گا اور ان کا انتخاب متاثر ہوسکتا ہے۔