"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمشن کو خودمختار‘ با اختیار بنانے کی ضرورت

الیکشن کمشن آف پاکستان قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کی قومی اسمبلی کی رکنیت معطل کرنے کے بارے میں عملی طورپر بے اختیار ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے الیکشن کمیشن کو با اختیار اور خودمختار بنانے کے لیے ضروری قانون سازی میں افسوسناک غفلت کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کے آئین 1973ء کے آرٹیکل 218 اور 219 کے تحت پارلیمنٹ ایکٹ76ء میں وزیراعظم بھٹو نے پارلیمنٹ سے ایسی شقیں منظور کرائیں کہ الیکشن کمشن آف پاکستان کی حیثیت (اختیارات سے محروم) محض نمائشی ادارہ بن کر رہ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریٹرننگ افسران، اپیلٹ ٹربیونلز اور الیکشن ٹربیونلز الیکشن کمشن کے دائرہ اثر سے باہر ہو کر رہ گئے۔ الیکشن کمشن انتظامی طورپرتو ان کو ہدایات دینے کا پابند ہے، لیکن یہ ادارے اُس کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔ تاریخ کے ریکارڈ کی درستگی کے حوالہ سے الیکشن کمشن کی حیثیت سے آگاہ کرنے سے یہ بتانا‘ مقصود ہے کہ سیاستدانوں اور قانون سازوں کو احساس ہی نہیں کہ الیکشن کمشن کو کیسے خودمختار بنایا جائے اور یہ کہ اس کا بااختیار ہونا کیوں ضروری ہے۔ ان کی زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ الیکشن کمشن کو مالیاتی اور انتظامی امور میں خودمختار بنایا جائے۔ سیاستدانوں اور قانون سازوں کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف نے 10 مئی 2000ء کو الیکشن کمشن آف پاکستان کے دفاتر کا دورہ کیا تو انہوں نے کمشن کو مالیاتی اور انتظامی امور میں خودمختاری تفویض کرتے ہوئے اسے وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے دائرہ اثر سے علیحدہ کردیا تھا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو یہ بھی علم نہیں کہ جب عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کو پارلیمنٹ سے منظورکروایا جا رہا تھا تب اپوزیشن نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اپوزیشن لیڈرولی خان حیدر آبادجیل میںغداری کے مقدمات میں گھرے ہوئے تھے۔ اپوزیشن تقریباً چھ ماہ تک پارلیمنٹ کی کارروائی سے ایسے ہی لاتعلق تھی جس طرح تحریک انصاف اگست 2014ء سے اب تک پارلیمنٹ سے باہر ہے۔ اس غیر حاضری اورپارلیمنٹ سے احتجاجی بائیکاٹ کے دوران عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی منظوری ہوئی۔ یوں انتخابی قوانین میں یک طرفہ طور پر پیوندکاری کرکے الیکشن کمشن کو نمائشی طورپر آئینی ادارے کی حیثیت دی گئی۔ مارچ 1977ء کی تحریک کا اثر ختم کرنے کیلئے عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی دفعہ103 میں ترمیم کرکے کمشن کو محض 60 دن کے لئے جو تھوڑے سے اختیارات دینے پڑے‘ بعدازاں انہیں بھی واپس لے لیا گیا۔
عمران خان نے سردار ایاز صادق کی معطلی کے حوالہ سے جوموقف پیش کیا ہے وہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی دفعہ 67 سے مطابقت رکھتا ہے ۔ الیکشن کمشن عمران خان کی درخواست کو ریفرنس کی صورت میں الیکشن ٹربیونل کوبھجوادے۔ امکان ہے کہ ٹربیونل قومی اہمیت کے اس معاملہ پر اپنے اختیارات کوبروئے کار لاتے ہوئے سردار ایازصادق کی رکنیت معطل کر دے کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی دفعہ67 میں واضح طورپر یہ قانونی تحفظ الیکشن ٹربیونل کو تفویض کیا گیا ہے کہ اگرکوئی ممبر اسمبلی الیکشن ٹربیونل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے اور انصاف کے تقاضوں میں مزاحم ہو جس سے ٹربیونل کو فیصلے کرنے میں دشواری ہو رہی ہو تو ایسے رکن اسمبلی کی رکنیت معطل کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں ٹربیونل الیکشن کمشن کو سفارشات بھیج سکتا ہے ۔ اس پس منظر میں عمران خان کے مطالبے پر شاید ہی عمل ہو کیونکہ الیکشن کمشن کے پاس ازخود ایسے اختیار نہیں ہیں
اور نہ ہی ایسا کوئی قانون ہے اور ماضی کے عدالتی فیصلوں میں بھی ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ صرف شکایت کی بنیادپر پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو معطل کیا جائے کیونکہ الیکشن کمشن سپیکر کی جانب سے ریفرنس موصول ہونے کی صورت میں تحقیقات کے بعد ہی رکن اسمبلی کو نااہل قراردینے کا مجاز ہے۔ الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کی روشنی میں متعلقہ اسمبلی کے رکن کے انتخاب کو کالعدم قراردینے کا نوٹیفکیشن جاری کرسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن‘ انتخابی ٹربیونل کے سربراہوں کے خلاف‘ انتخابی عذر داریوں کے معاملے میں تاخیر سے کام لینے پر نوٹس لے سکتا ہے۔ کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء کی دفعہ52 کے تحت انتخابی عذرداریوںکے معاملات کو روزانہ سماعت کرنے کے واضح احکامات موجود ہیں۔ اسی لیے الیکشن کمشن نے ریٹائرڈ ججوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں ۔ان ججوں کواہم تحقیقات کے بارے میںانتخابی عذر داریوں کی سماعت کیلئے تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان‘ ایسے الیکشن ٹربیونلز کو‘ جوتاخیر کے موجب بنے ہوئے ہیں‘ ذمہ داریوں کااحساس دلائیں اور ان معاملات میں جلد ازجلد فیصلہ کرنے کے لئے حتمی تاریخ مقرر کردیں۔
بدقسمتی سے ہماری عدالتیں الیکشن کے عمل میں مداخلت کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس اوران کے ہم خیال سابق ججوں پر 11مئی 2013ء کے انتخابات میں مداخلت کرنے اور نتائج پراثرانداز ہونے کے بارے میں تحفظات کااظہارکیا جا رہا ہے ۔ اسی تناظر میںسری لنکا میںاٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کی ریجنل کانفرنس میںشرکت پرپابندی عائد کردی ۔ حکام کے مطابق اس اقدام کی وجہ چیف جسٹس پر سابق صدر مہندا راجا پاکسی کی غیر قانونی طریقے سے اقتدار میں رہنے کی کوشش میںمدد دینے کے الزامات تھے۔ اسی طرح 16 جولائی 2009ء کو انڈونیشیا کے صدارتی انتخاب میں چیف جسٹس نے الیکشن سے ایک دن پہلے ووٹروں کے اندراج کے احکامات جاری کردئیے‘ جو انڈونیشی انتخابی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ چیف جسٹس (انڈونیشیا) کے غیر آئینی احکامات کی صدارتی امیدوار میگاوتی پتری نے شدید مذمت کی۔ راقم الحروف نے صدارتی الیکشن میں بطور مبصر انڈونیشیا کے وزیر خارجہ کی دعوت پر فرائض سرانجام دیئے تھے ۔ اسی فیصلہ کے حوالہ سے راقم الحروف نے چیف جسٹس کے فیصلہ کو غیر جمہوری قرار دیا تھا۔ انڈونیشیا کے تمام پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا نے میرے موقف کی تائید کی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں