"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات میں تاخیر

چیف الیکشن کمشنرسردار محمد رضا خان نے ملک کے تین صوبوں میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کے نظام الاوقات کا اعلامیہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق خیبر پختونخوا میں مئی اور سندھ میں آئندہ سال مارچ میں انتخابات کرائے جائیں گے۔ حکومت پنجاب حلقہ بندیوں کے نقشہ جات اور دیگر امور نمٹائے گی جن کے بعد پنجاب میں نومبر میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت کو لوکل گورنمنٹ کے قوانین میں آئین کے آرٹیکل140-Aکے مطابق ترامیم کرنی ہیںتاہم سندھ حکومت کے طرف سے مارچ 2016ء میںمقامی انتخابات کرانے پرنیم دلی سے رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔ وزارت وفاع کے حکام نے الیکشن کمشن کو آگاہ کیا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کیلئے آرڈی ننس وزارت قانون کو بھجوا دیا گیاہے۔ بلوچستان میں لوکل گورنمنٹ کا انتخابی عمل مکمل ہو گیا ہے اور منتخب بلدیاتی ادارے کام شروع کر چکے ہیں۔
مقامی حکومتیں عوام کی صفوںسے قومی سطح کی قیادت کی تیاری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ان کے ذریعے ملک میں حقیقی جمہوریت پروان چڑھتی ہے۔مراعات یافتہ طبقوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوتا ہے اور عوام ہی میں سے ایسی لیڈر شپ ابھرتی ہے جو عام آدمی کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہوتی ہے اور انہیں زیادہ اخلاص اور کامیابی سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مقامی حکومتوںکے سربراہ انتخابی عمل کے ذریعے اپنے ملک کی قیادت کے منصب تک پہنچے اور غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان میں ترکی کے موجودہ صدراور سابق وزیراعظم رجب طیب اردگان اور ایران کے سابق صدر احمدی نژاد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں صدرضیاء الحق نے 1979ء، 1983ء اور1987ء میں بلدیاتی انتخابات کرائے جن کے ذریعے ملک کو ممتاز قومی رہنمامیسر آئے۔ بدقسمتی سے2002ء اور2005ء میں لوکل گورنمنٹ الیکشن کے ذریعے اہم شخصیات قومی دھارے میں شریک نہ ہو سکیں۔18فروری2008ء کے انتخابات میں تقریباًایک سوکے لگ بھگ ناظمین نے قومی انتخابات میںحصہ لیا،جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ سے تھا اور ان سب کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ملک میں آخری بار لوکل گورنمنٹ کے انتخابات صدر پرویز مشرف کے دور میں اگست2005ء میں کرائے گئے ۔اس کے بعد اگست 2009ء میں ان کا انعقاد طے تھا لیکن صدر زرداری اور لیڈر آف دی اپوزیشن نواز شریف کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے ان کا انعقاد نہ ہوسکا‘ حالانکہ راقم الحروف نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن عبوری شیڈول تیار کر کے صوبائی حکومتوں سے مشاورت شروع کر دی تھی۔ بلوچستان کی حکومت نے ہماری تجویزکردہ پالیسی پر عمل کیااورانہوں نے لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس2001ء کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے رضامندی کا اظہار کر دیا تھالیکن2008ء میں بااختیار منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے بعد سپریم کورٹ کی بار بار ہدایت کے باوجود بلدیاتی انتخابات کو موخر کرنے کے لئے مسلسل عذرہائے لنگ تراشے جاتے رہے۔ صوبہ سندھ اور پنجاب نے قانون سازی اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے غیر قانونی سوچ اپنائی‘ جس کی وجہ سے عدلیہ اورمیڈیا نے ان کی عوام مخالف چالوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب کم وبیش پانچ سال کی تاخیر ہو چکی ہے اور مردم شماری جو 1998ء کے بعد 2009ء میں کروانا آئینی تقاضا تھا‘اسے صدر زردای نے بعض تحفظات کی وجہ سے ملتوی کروا دیاکیونکہ مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں کراچی میں قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہونے کے امکانات تھے اور سندھ کے دیہی علاقوںمیں نشستیں کم ہونے کاخدشہ تھا۔اس سلسلہ میںمیری صدر زرداری سے ملاقات ہوئی تھی اور میں نے ان کے اندیشے اورتحفظات کومفروضہ ہی قرار دیا تھا۔ بہر حال صدر زرداری کے دیگر مشیروں نے ان کو گمراہ کر دیا اور الیکشن کمیشن کو شیڈول جاری کرنے کی اجازت اس بنیاد پر نہیں دی گئی کہ ابھی صوبوں نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے لئے قانون سازی کرناتھی۔ حلقہ بندیوں کا اس وقت کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ 2001ء اور2002ء کی بنیاد پر حلقہ بندیاں طے شدہ فارمولے کے تحت قانونی مرحلوں سے گزر چکی تھیں۔
صوبائی حکومتوں کی قانونی سازی کے معاملے میںٹال مٹول کی وجہ سے الیکشن کمیشن اپنا آئینی فریضہ انجام دینے میںناکام رہا کیونکہ18ویںترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے لئے قانون سازی کے اختیارات تفویض کردیئے گئے تھے۔ 14اگست 1973ء کوآئین پاکستان کے نفاذ سے لے کر اب تک چالیس سال سے زائدکے عرصے میںایک بھی منتخب سیاسی حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور اس پر کبھی اپوزیشن نے احتجاج کیا اور نہ جمہوری جذبہ رکھنے والے صاحب الرائے طبقے کو اس کا احساس ہوا۔ وزیراعظم بھٹوکی حکومت (1971-77ء) نے بھی بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کیا۔ وزیراعظم بھٹو کی پارٹی وفاق میںہی نہیںپنجاب اور سندھ میں بھی حکومت میں تھی جب کہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں تقریباًایک سال بعدہی عراقی سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی کا بہانہ تراش کروہاں گورنر راج نافذ کر کے ولی خان اور مفتی محمود کی مخلوط حکومتیں ختم کر دی گئی تھیں۔یوں آئین کا نفاذ ہوتے ہی بنیادی عوامی مفاد کے حامل بلدیاتی نظام کووجود میں لانے والے آئینی آرٹیکل معطل کر دیے گئے اورفیلڈمارشل ایوب خان سے ذاتی عناد کی وجہ سے بنیادی جمہوریتوںکے نظام کو زمین بوس کر دیا‘ ایئرمارشل اصغر خان‘ چوہدری ظہورالٰہی اور دیگر با اثر سیاسی جماعتوں کے سربراہوںنے بنیادی جمہورتیوں کے سسٹم میں عوامی مفادپرمبنی ترمیم کر کے اور ان کو انتخابی کالج کے دائرہ اثرسے خارج کر کے ترقیاتی کاموں کے اختیارات تفویض کر نے پر زور دیا تھا لیکن وزیراعظم بھٹو طاقت کے گھمنڈمیں کسی تجویز کو ماننے کے روادار نہ تھے حالانکہ بنگلہ دیش میں صدر مجیب الرحمن نے نا مساعد حالات میں بلدیاتی انتخابات کرائے‘ مگر ان کی جماعت خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اسی ڈر کی وجہ سے مسٹر بھٹو نے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کیا۔
آج کی نوجوان نسل کو چاہیے قد آور سیاسی جماعتوں کے جمہوریت سے لگائو کا اندازہ لگائے۔ آج عوام حکمرانوں کی انگلی کی وجہ سے ہی بنیادی سماجی انصاف سے محروم ہیںتواس کی براہ راست ذمہ داری بڑی روایتی جاگیردار اور کاروباری پارلیمانی قوتوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بعد عوامی خدمات کے منتخب اداروں کو وجود میں لانے والے آئینی بلدیاتی نظام سے صرف نظر کر رہے ہیں ۔یوں انہوں نے عوام کو عوامی امور کے انتظامات میں شرکت سے محروم رکھا اور بڑی عیاری سے آئین سے انحراف کرتے رہے۔
بھارت ،ترکی اور انڈونیشیا میں لوکل گورنمنٹ نظام کے تواتر اور اسے اہمیت دینے سے بالآخر چالیس برسوں میں خاندانی اور طاقتور حکومتیں ختم کر کے عوام کی صفوں سے نکلی ہوئی قیادت کو ملکی قیادت بنا دیا گیا ہے۔بھارت کے موجودہ وزیراعظم اپنے لڑکپن میں گجرات کے ریلوے سٹیشن پر دو آنے کپ چائے فروخت کرتے رہے اور اب ایک مضبوط فعال قومی رہنمابن کر اپنی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے باوجود عالمی افق پر چھا گئے ہیں۔ اس سے بھارت کے قومی سیاسی رویے کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ نہروخاندان کوسیاسی طور پرپس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ترکی کی معیشت کو یورپی یونین کے ممالک کے ہم پلہ کرنے والے موجودہ صدر طیب اردگان محلوںمیں شربت فروخت کرتے رہے، پہلے وہ استنبول کے کامیاب ترین میئر(بقیہ صفحہ 13پر)
رہے اورپھرترکی کے کامیاب ترین صدر بن گئے۔ حالیہ مثال انڈونیشیا کے منتخب صدر ودودی کی ہے‘ جنہوں نے سارے پروٹوکول ختم کر کے سادگی کو حکومتی کلچر میں داخل کر دیا ہے اور وہ عام مسافروں کے ساتھ ہوائی سفر کرتے ہیں، سابق اور موجودہ حکمرانوں کی طرح فریب کارانہ طرزِ عمل اختیار نہیں کرتے‘ جو ہوائی جہاز کی تمام نشستوں کو اپنے قریبی دوستوں سے بھر کراسے معمول کی پرواز قرار دیتے ہیں۔ صدر ودودی فرنیچر کا کام کرتے رہے‘ پھر کامیاب ترین میئربنے۔ محلوں کی سطح پر عوام کی بھرپور خدمت کرتے ہوئے اب انڈونیشیاکے ہردل عزیز صدر بن گئے ہیں۔ انڈونیشیا اب ایک حقیقی جمہوری اور شفاف مملکت ہونے کے علاوہ بین الاقوامی برادری کا سرگرم رکن بھی ہے۔ یہ سارے ثمرات حقیقی بلدیاتی نظام کے تسلسل کی وجہ سے ہیں، جبکہ ہمارے قانون ساز ارکان اسمبلی نے خود کو سیاست میں ناگزیر بنانے کے لئے اپنے اپنے صوبوں کو پولیس سٹیٹ میں تبدیل کرادیا۔ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ نے اپنے پسندیدہ ارکان اسمبلی کے ذریعے صوبے کے غریب اور متوسط گھرانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ وزیراعلیٰ صاحب کسی ظلم رسیدہ کے گھر پہنچ کرسلطان راہی کی طرح دھمکیاں دیتے ہیں اور پھر زکوٰۃ فنڈ سے چار پانچ لاکھ روپے کا چیک تھما کر ہیلی کاپٹر میں اڑ کر واپس آجاتے ہیں۔ اگر1973ء کے آئین کے مطابق بلدیاتی نظام نافذ ہوجاتا تو ملک میں عوام کی حقیقی قیادت ہر سطح پر وجود میں آچکی ہوتی اور عوام کو اپنے حقوق غصب کرنے والوں کا احتساب کرنا بھی آجاتا۔ اس کا روبار میں وہ تعلیم یافتہ لوگ بھی قومی مجرم ہیں، جو سیاسی جماعتوں کے خفیہ فنڈز سے تسکین پاتے ہیں یا چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے سیاسی رہنمائوں کو دیوتا بنانے کے لیے ان کی وکالت کرتے رہتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان مقامی حکومتوں کے انتخابات کو ہر اعتبار سے منصفانہ بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی سربراہی میں دیانتدار اور آرٹیکل 63-62 کے مطابق مخلص عوامی قیادت سامنے آنے کے امکانات ہیں‘ جو مستقبل میں ملک کی تعمیر کے لئے مثالی کردار ادا کرسکتی ہے ۔ لوکل گورنمنٹ الیکشن میں تاخیر محض نیت کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ پنجاب میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ڈرہے کہ تحریک انصاف مقامی حکومتوں کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کو روند کر کامیاب ہوجائے گی اورپنجاب حکومت کوآئین کے آرٹیکل 140-A کے تحت مالیاتی اختیارات دینے پڑیں گے، جبکہ سندھ میں دو بڑے انتخابی حلقے ہیں ایک شہری اور دوسرا دیہی۔ شہری حلقوں پر ایم کیو ایم اور دیہی حلقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر سندھی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں۔ لوکل گورنمنٹ الیکشن کی تیاری میں سوائے ایم ۔کیو ۔ ایم کے کسی جماعت نے ہوم ورک مکمل نہیںکیا؛ تاہم اس بار جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایم کیو ایم کو گراس روٹ الیکشن میں سخت آزمائش میں مبتلا کرسکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں