"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن‘ الیکشن کمیشن جاگ اٹھا

آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالے سے سینیٹ کے امیدواروں کے کوائف کی چھان بین کے لئے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان نے آئین کی روح کے عین مطابق فیصلہ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیںاور اس حوالے سے نادرا ، احتساب بیورو ، ایف بی آر سمیت10 مختلف اداروں کو خصوصی ہدایات جاری کردی ہیں تاکہ ان سے سینیٹ کے امیدواروں کے بارے میں تفصیلات حاصل کی جاسکیں۔ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت قیام پاکستان کے بعد نظر یۂ پاکستان کے خلاف کسی سرگرمی یا ملک کی سالمیت کے خلاف کارروائی میں ملوث ہونے والا شخص سینیٹ کارکن منتخب ہونے کااہل نہیں ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے سینیٹ کے انتخابات کے لئے ریٹرننگ افسران ،جن کاتعلق الیکشن کمیشن کی سروسز سے ہے اور جو اپنے اپنے صوبے کے صوبائی الیکشن کمشنر ہیں، کو ہدایات دی ہیں کہ وہ امیدواروں کی موصول ہونے والی فہرست ان تمام اداروں کے پاس جانچ پڑتال کیلئے بھجوائیں۔یہ ادارے سینیٹ کے امیدواروں ،ان کے والدین،اہلیہ اور بچوں کی تفصیلات بھی فراہم کریں گے اور مختلف اداروں کی جانب سے امیدواروں کے بجلی، گیس ، فون کے بل اور ایف بی آر کے ٹیکسوں کی ادائیگی اور وزارت داخلہ کی جانب سے کسی سنگین جرم میں ملوث ہونے نہ ہونے کے بارے میں تصدیق کی جائے گی ۔چیف الیکشن کمشنر نے موجودہ سیاسی کشمکش اور تنائو کے تناظر میں یہ اقدام درست انداز میں اٹھایاہے اورامید ہے کہ وہ اپنے احکامات پر عملدر آمد بھی کروائیں گے ۔ اسی طرح کے احکامات مئی2013ء کے انتخابات میں ریٹرننگ افسران کو سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے بھی دیے تھے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق پرکھا جائے اور بے رحمانہ جانچ پڑتال کی جائے ،لیکن اس حکم پر اس کی رو ح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا ۔اس حوالے سے مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی کیے گئے اور بدقسمتی سے ریٹرننگ افسران نے آئین کے آرٹیکل 63-62 سے انحراف کیا مگر متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ازخود نوٹس لینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اب سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر ان آرٹیکلز پر عمل کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے اپنے ہی ریٹرننگ افسران پر عائد ہوتی ہے اور چونکہ سینیٹ کا سارا عمل الیکشن کمیشن کی براہ راست نگرانی میں ہونا ہے لہٰذا چیف الیکشن کمشنرکی جاری کردہ ہدایات پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہر لحاظ سے اہل امیدوار سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ 
آئین کے آرٹیکل 218 اور 219 کے مطابق الیکشن کمیشن شفاف، منصفانہ اورقانون کے عین مطابق الیکشن منعقد کرانے کی ذمہ داری احسن طریقے سے پور ی کرے ۔سینیٹ ایکٹ 75 کی دفعات 62 C , 58کے تحت اثر و رسوخ استعمال کر نے اور نتائج پر اثرانداز ہونے والے عناصر کی سزا پانچ سال قید اور جرمانہ ہے ، لیکن بدقسمتی سے مارچ 1985ء سے آج تک اس پر کسی نے توجہ نہیںدی۔ان خطرات اورکرپٹ پریکٹس کی روک تھام کیلئے راقم الحروف نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن اور چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیشن جو رپورٹ وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو11مارچ 2009 ء کو پیش کی تھی، اس میں تجویز دی گئی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرکے سینیٹ کے انتخابات کو شو آف ہینڈ کے ذریعے اوپن کردیا جائے۔ میری اس تجویز کو اس 
وقت کے وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابراعوان اورلیڈر آف دی ہائوس رضا ربانی نے قابل قبول قراردیا تھا اورراقم الحروف نے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے روبرو تفصیل سے بریفنگ بھی دی تھی ۔ڈاکٹر بابراعوان اس بریفنگ میں موجود تھے ۔تاہم اس تجویز پر قانون سازی نہیں کی گئی ۔
سابق چیف الیکشن کمشنر بھارت شہاب الدین یعقوب قریشی گزشتہ دنوں پاکستان کے دور ے پر تھے ۔انہوںنے پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پرراقم الحروف کے ہمراہ انٹرویو میں کہاکہ انڈیا میں کوئی ریٹائرڈجج الیکشن کمیشن کا سربراہ مقرر نہیں ہوا۔ انڈین انتخابی نظام میںعدلیہ کا کردار نہیںہے ۔بھارت میں عدلیہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن کے اختیارات بھارت سے زیادہ ہیں۔ راقم الحروف نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ چیف الیکشن کمیشن اور ارکان الیکشن کمیشن ریٹائرڈ ججوں کے علاوہ کسی بیورو کریٹ کوبھی ہونا چاہیے۔آئینی طورپر انڈین اور پاکستان الیکشن کمیشن کے اختیارات ایک جیسے ہیں مگر پاکستان کے الیکشن کمیشن کے ارکان میں آئین پر عمل کرانے کی قوت ارادی نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں انتخابات میں عدلیہ کاتجربہ 1970ء سے آئینی طورپر کیا جارہاہے لیکن 11مئی 2013 ء کے انتخابات کے بعد عدلیہ کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے ، راقم الحروف کو 2010ء کو انڈین الیکشن کمیشن کے ارکان نے بتایا تھا کہ پاکستان کاانتخابی نظام اس لیے ناکام ہے کہ پاکستان میں ججز چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن ہوتے ہیں اورریٹرننگ افسران کاتعلق بھی عدلیہ سے ہوتاہے جبکہ بھارت کے الیکشن کمیشن کا تعلق بیوروکریسی سے ہوتاہے اور وہ انڈین آئین اور مملکت ہند کے تابع ہوتے ہیں۔بھارتی الیکشن کمیشن کے ارکان کی اجازت سے ہی چیف الیکشن کمشنر وزیراعظم یا صدر مملکت سے ملاقات کرنے کا پابند ہوتا ہے اور اس کے لئے باقاعدہ دونوں اطراف سے ایجنڈا ترتیب دیا جاتا ہے اور ایجنڈا کی منظوری الیکشن کمیشن کے ارکان ہی دیتے ہیں ۔
اٹھارویں تر میم کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات برائے نام ہی رہ گئے ہیں کیونکہ اپیلٹ الیکشن ٹربیونلز اور الیکشن ٹربیونلر ، الیکشن کمیشن کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں اور عدلیہ سے مستعارلیے ہوئے ریٹرننگ افسران بھی الیکشن کمیشن کے تابع نظر نہیں آتے ۔ پاکستان میں بظاہر الیکشن کمیشن ریاست کاآئینی ادارہ ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔پاکستان میں قدم قدم پر عدلیہ مداخلت کرتی ہے۔ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے اور اس کے بارے میں جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کودور کرنے کے لئے بھارت کے تجربے سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے نادان دوستوں نے سینیٹ کے لیے اپنے ووٹ پنجاب اسمبلی سے ٹرانسفر کرا کے پنجاب کے11کروڑ عوام کی وفاداری پر کاری ضرب لگائی ہے۔ یہ ایک غیر قانونی عمل ہے ۔اسلام آباد میں اگرکسی رہنما کی رہائش گاہ ہے اور کاروباری ادارے بھی تو ایسے اشخاص کے لیے اسلام آ بادمیں اپنا ووٹ بنوانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن پنجاب کی 11نشستوںپربراجمان ہونے کے لئے دیگر صوبوں سے اپنا ووٹ ٹرانسفر کرانا اورسینیٹ کی نشستوںپرلینڈ مافیا کی طرح قبضہ کرنا پنجاب کے عوام کی عزت وغیرت کوچیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ یہ انتخابی فہرست ایکٹ74 کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ جعل سازی سے ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں ووٹوں کا اندراج غیر قانونی،غیر اخلاقی اور انتخابی عمل کے خلاف فعل ہے۔ اس سے الیکشن کمیشن پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لیا اور ووٹوں کا اندراج کیوں کیا۔صوبائی الیکشن کمشن سندھ نے ووٹ پنجاب ٹرانسفر کرانے کے لئے قانونی ضروریات کومدنظر کیوں نہیں رکھا۔یہ پنجاب کے عوام کے آئینی حقوق پرڈاکہ ہے ۔سینیٹ میں غیر اخلاقی اندازسے داخل ہونے کے عمل کو آئینی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کیاجائے گا،لہٰذا اس کرپٹ پریکٹس پر الیکشن کمیشن سینیٹ ایکٹ74کے تحت ان رہنمائوں کے خلاف مقدمہ درج کرائے اورسیاسی وانتخابی قبضہ گروپوںکے مذموم ارادوںکو مٹی میں ملا کر اپنی ساکھ کو مضبوط کرے۔یہ رہنما الیکٹورل ایکٹ74کی دفعہ سات کے معیارپر پورا نہیں اترتے۔ چونکہ سینیٹ کے انتخابات کے لئے ریٹرننگ افسران کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے لہٰذا وہ جرأت مندی اور غیر جانبداری کومد نظر رکھتے ہوئے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر کے جعل سازی کا مقدمہ درج کرائیں۔کسی صوبے کے رہنے والے کو یہ حق نہیںپہنچتاکہ دوسرے صوبے میں جاکرووٹ کا اندراج کرواکے سینیٹ انتخابات میں حصہ لے ۔ الیکشن کمیشن ایسے نام نہاد امیدوار وںکے کاغذات نامزدگی مسترد کر کے آ ئندہ کیلئے بہترین مثال قائم کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں