"KDC" (space) message & send to 7575

پرویز مشرف کو نا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا!

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول با قر کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی اہلیت سے متعلق دائر درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سابق صدر کو آئین توڑنے اور ججز کو نظر بندی کی پاداش میں پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نا اہل قرار دے دیا۔ فیصلہ کی روشنی میں سابق صدر صادق نہیں رہے اور آئین کے آرٹیکل 62(1) پر پورا نہیں اترتے، لہٰذا پرویز مشرف پارلیمنٹ کے رکن بننے کے بھی اہل نہیں رہے۔ تفصیلات کے مطابق پرویز مشرف نے مئی 2013 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کراچی کی نشست این اے 250 سے کاغذات نامزگی داخل کرائے؛ تا ہم ریٹرننگ آفیسر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پرویز مشرف کو نا اہل قرار دیا، انہوں نے اپیلیٹ الیکشن ٹربیونل کی جانب سے 15 اپریل 2013ء کو اپیل مسترد ہونے پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پانچ دن بعد مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے پرویز مشرف کی درخواست مسترد کر دی۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے 3نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین توڑا اور ججوں پر پی سی او کے تحت حلف لینے کے لئے دبائو ڈالا۔ حلف سے انکار پر ججوں کو ان کے گھروں میں نظربند کیا، جس کے باعث عدالتی اور قانونی حلقوں کو دھچکا لگا اور قانونی حلقوں میں عدم تحفظ کے احساس میں بھی اضافہ ہوا۔ ان اقدامات سے معاشرے میں خوف پھیلا؛ لہٰذا وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے اہل نہیں رہے۔ ان اقدامات کی روشنی میں انہیں با کردار نہیں کہا جا سکتا جو کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے ضروری ہے۔ عدالت کے مطابق پرویز مشرف کے اقدامات ریاست پر قبضہ کرنے کے مترادف ہیں۔ اس لیے بھی وہ پارلیمنٹ کے رکن بننے کے اہل نہیں ہیں۔
چیف جسٹس مقبول با قر عدلیہ کے انتہائی معزز اور ذہین ترین جج شمار کئے جاتے ہیں۔ اب وہ سپریم کورٹ میں ہیں۔ ان کے فیصلے میں ابہام پیدا ہونے کے واضح امکانات پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں جن حقائق کو جذباتی انداز میں پیش کیا ہے وہ بحث طلب ہیں۔ 3نومبر2007ء کی جزوی ایمرجنسی سے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ ملک کی پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ، صوبائی عدالتیں، صوبائی اسمبلیاں اور وفاقی و صوبائی حکومتیں، چیف الیکشن کمشن اور دیگر آئینی ادارے بدستور نارمل حالات میں کام کر رہے تھے۔ 3نومبر2007ء کی ایمرجنسی کے حوالے سے اہم کیس خصوصی عدالت میں زیر بحث ہے اور فیصلہ آنے تک کسی ملزم کو مجرم نہیں بنایاجا سکتا۔ اسی طرح جزوی ایمرجنسی سے عدالتی نظام بھی درہم برہم نہیں ہوا تھا جس سے ملک کے 18کروڑ عوام متاثر ہوتے ہوئے نظر آتے۔ معزز عدالت نے جنرل پرویز مشرف کی نا اہلیت کے کیس پر بحث کرتے ہوئے بلا وجہ آئین کے آرٹیکل 6 کا حوالہ دیاجو اس مقدمہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ معزز عدلیہ نے جنرل پرویز مشرف کو نااہل کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 63-H کی طرف دھیان نہیں دیا جس کے مطابق کسی فرد کو نا اہلیت کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک اُسے کسی عدالت سے سزا نہ دی گئی ہو۔ یہ اہم شق اٹھارویں ترمیم کے ذریعے شامل کی گئی تھی‘ اسے شامل کرنے کے بعد آئین کی دفعات 63-62 اور 63-1 کی افادیت ختم ہو گئی ہے اور اب ان دفعات کی اہمیت نمائشی سے زیادہ نہیں۔
معزز عدلیہ نے تو سابق صدر پرویز مشرف کو آئین کے آٹیکل62-1 کی رو سے صادق اور امین کے معیار پر پورا نہ اترنے کا فیصلہ سنا دیا؛ حالانکہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ جس کی سربراہی چیف جسٹس ناصر الملک کر رہے تھے۔ ایک آئینی پٹیشن کی سماعت کر رہے تھے‘ جس میں تحریک انصاف کے رہنما اسحاق خاکوانی اور چوہدری شجاعت حسین نے وزیر اعظم نواز شریف کو آئین کے آٹیکل 63اور 62کی رو سے اس بنیاد پر نا اہل قرار دینے کی درخواست کی تھی کہ انہوں نے ایک اہم قومی شخصیت کے حوالے سے قوم کو گمراہ کیا، اور پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی اور پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے جھوٹ پر مبنی تقریر کی تھی۔ پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وہ اس بناء پر صادق اور امین کے معیار پر نہیں اترتے! درخواست دہندگان کے وکلاء اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے مدلل دلائل بھی پیش کیے لیکن فاضل عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس جواد خواجہ اپنے ریمارکس میں قرار دے چکے تھے کہ اگر عدالت عظمیٰ آئین کے آرٹیکل 63-62 پر فیصلہ جاری کر دے تو آدھی سے زائد پارلیمنٹ کے ارکان صادق اور امین کے معیار پر پورا اترتے نظر نہیں آ رہے۔ ان کے تاریخی ریمارکس سے قوم کو امید نظر آ رہی تھی کہ عدالت عظمیٰ آئین کے آرٹیکل 63-62 کے کیس کا عوامی امنگوں کے عین مطابق فیصلہ سنائے گی اور ابہام ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل 63-62 کے بارے میں اپنا مضبوط موقف برقرار رکھا۔ ان حالات میں سندھ ہائی کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو صادق اور امین کے دائرہ سے ہی خارج کر کے ملک کی پارلیمنٹ کی ساکھ کو چیلنج کر دیا، اب اسحاق خاکوانی اور چوہدری شجاعت حسین اس بحث کو آگے لے جانے کی پوزیشن میں ہیں!
پاکستان کے عدالتی تناظر میں اگر ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو حیرت انگیز عدالتی فیصلے سامنے آنے شروع ہو جائیں گے جن سے ذاتی و سیاسی مفادات کی جھلک نظر آئے گی۔ 2 دسمبر 1997ء کو سردار فاروق خان لغاری، چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے تنازع میں صدارت سے مستعفی ہو گئے تو وزیر اعظم نواز شریف کے والد محترم میاں شریف (مرحوم ) کے انتہائی با اعتماد دوست جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کو صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کر دیا گیا! ان کے صدارتی کاغذات نامزدگی کو اس وقت کے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس مختار جونیجو نے اس بنیاد پر مسترد کر دیئے کہ انہوں نے ہفت روزہ تکبیر میں انٹرویو دیا تھا؛ اُن کی دلیل یہ تھی کہ اس انٹرویو سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر معزز ججوں کی تضحیک ہوئی۔
آئین کے آرٹیکل 42 کے تحت صدارتی کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر چیف الیکشن کمشنر کے فیصلہ کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، ان کا فیصلہ لازمی اور حتمی تصور کیا جاتا ہے، لیکن حکومت نے اپنے صدارتی امیدوار کے خلاف فیصلہ کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور کیس کو جسٹس عبدالقیوم ملک کی عدالت میں لگوا کر عارضی ریلیف حاصل کر لیا! قارئین اندازہ لگائیں کہ ایک جانب سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج اور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس رفیق تارڑ کو آئین کے آٹیکل 62-63 کے تحت نا اہل قرار دیتے ہیں دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج ان کے فیصلے کو کا لعدم قرار دیکر جسٹس رفیق تارڑ کو ایوان صدر بھجوا دیتے ہیں؛ حالانکہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت عین مطابق تھا۔ آئین کی رو سے اگر عدلیہ، افواج پاکستان اور نظریہ پاکستان کے بارے میں زبانی کلامی ریمارکس بھی سامنے آ جائیں تو امیدوار نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں اٹھارویں ترمیم کے تحت سزا ملنے پر کسی کو نا اہل قرار دینے کی شق آئین کے آرٹیکل 63-H میں شامل کی گئی۔ یہ درست اور خوش آئند ترمیم ہے؛ تا کہ عدالت سے سزا ملنے پر ہی کسی کو نا اہل قرار دیا جائے۔ جس طرح سید یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم کے منصب سے معزول کیا گیا تھا کیونکہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہو چکے تھے؛ حالانکہ سپیکر فہمیدہ مرزا نے ان کے حق میں رولنگ دے دی تھی۔ اس عدالتی‘ سیاسی اور آئینی تناظر میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بادی النظر میں غور طلب ہے۔ سپریم کورٹ کو اپنے سابق چیف جسٹس صاحبان کے فیصلوں پر غیر جانبدارانہ انداز میں نظر ثانی کرنی چاہئے کیونکہ 16مارچ2009ء کو سپریم کورٹ‘ لانگ مارچ کے نتیجہ میں بحال ہو گئی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں