"KDC" (space) message & send to 7575

22ویں ترمیم‘ حکمران جماعت کی ناکامی

پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے انتخابات کے حوالے سے ووٹوں کی خرید و فرخت کی اطلاعات تشویش ناک ہیں اور حکمران جماعت اس صورت حال کی اصلاح کے لئے کوئی موثر طریق کار وضع کرنے میں اس لیے کامیاب نہیں ہوتی کہ اندرون خانہ حکمران جماعت اور اس کی اتحادی و حلیف جماعتیں‘ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے‘ ہارس ٹریڈنگ کے اس کھیل میں برابر کی شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن میں 22 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ حکمران جماعت کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کابینہ میں کہا تھا کہ عمران خان ہارس ٹریڈنگ کے مکروہ کاروبار کو روکنے کے لئے سینیٹ کے الیکشن کے لئے اوپن بیلٹنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ اگر وفاقی حکومت نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا اور صورت حال کی اصلاح کے لئے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تو سینیٹ الیکشن کے بعد عمران خان مئی 2013ء کے انتخابات کی کڑیاں سینیٹ الیکشن سے جوڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لہٰذا وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان کی تشویش کے ازالے کے لئے آئین کی 22ویں ترمیم پارلیمنٹ میں لانے کا عندیہ دیتے ہوئے نام نہاد کمیٹیوں کے قیام کا اعلان کر دیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا رخ اس طرف پھیر دیا۔ ان کی حلیف جماعتوں نے بظاہر اس کی مخالفت کر کے عمران خان کا مذاق اڑایا۔ مولانا فضل الرحمن نے طنزیہ انداز میں کہا کہ عمران خان 22 ویںترمیم کی گائے کی دم پکڑ کر اسمبلی میں آنا چاہتے ہیں۔ حقیقت میں عمران خان سچے اور سادہ سیاستدان ہیں اور وہ حکمران جماعت‘ اس کے حلیفوں اور فرینڈلی اپوزیشن کے فریب میں آ گئے۔
جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی احتجاجی تحریک زوروں پر تھی اور وزیراعظم نواز شریف کی حکومت خطرے میں گھر چکی تھی تو اچانک سابق صدر زرداری لاہور پہنچے۔ وزیراعظم نوازشریف خود ڈرائیونگ کرتے ہوئے ان کو رائے ونڈ کے محل میں لائے۔ تب خیال کیا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان خفیہ طور پر یہ معاہدہ طے پارہا تھاکہ صدر ممنون حسین کو فارغ کر کے آصف علی زرداری کو صدر بنا دیا جائے جبکہ وزیراعظم نواز شریف ہی رہیں گے اور پیپلز پارٹی جمہوریت کو مستحکم کرنے کے نام پر حکومت کا مکمل ساتھ دے گی۔ وزیر اعظم نواز شریف، ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ آصف علی زرداری کو صدر بنانے میں آمادہ ہو گئے تھے‘ مگر نادیدہ قوتوں کو اس سرگوشی کا علم ہو گیا اور یوں یہ خفیہ معاہدہ ناکام ہو گیا۔اب اس خفیہ معاہدے کی ناکامی پر دونوں پارٹیوں کے درمیان چیئرمین سینیٹ کی بات اندرون خانہ چل رہی ہے۔ اسی لئے سابق صدر آصف علی زرداری اسلام آباد میں براجمان ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ خلاف توقع نہیں ہے اور اس کی روک تھام کے لئے بہت پہلے سے تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت تھی؛ تاہم اب جبکہ 52 نشستوں کے انتخابات 5 مارچ کو ہو رہے ہیں‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو خفیہ رائے شماری میں حصہ لیتے ہوئے اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ووٹ کے تقدس کی پامالی جمہوری اخلاق کے خون کے مترادف ہے کیونکہ جمہوری نظام ایسے عمرانی معاہدے پر استوار ہوتا ہے جس میں عوام اپنی جان و مال کے تحفظ‘ فلاحی مملکت کے قیام اور بعض بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت کے بدلے افراد اور جماعتوں کو اپنی نمائندگی و حکمرانی کی ذمہ داریاں مقررہ مدت کے لیے تفویض کرتے ہیں۔ اسی لئے جمہوری نظام میں جب آئین بنائے جاتے ہیں اور قانون سازی کی جاتی ہے تو یقین کیا جاتا ہے کہ دستور اور قانون عام لوگوں کی اجتماعی بھلائی اور ریاست کے مفاد کے ضامن ہوں گے اور ان پر نیک نیتی سے عمل ہوگا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ نے سینیٹ الیکشن کے لئے بیلٹ پیپر پر ووٹر کے نام کے اندراج کا عندیہ دے کر پاکستان کے آئین اور وفاق کی علامت سینیٹ کے انتخابات کا مذاق اڑایا ہے۔ دستور و قانون کا غلط استعمال اس کی روح کو ہی متاثر نہیں کرتا، اس اعتماد کو بھی متزلزل کرتا ہے جس پر پورے نظام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اس وقت زیر بحث مسئلہ خفیہ رائے شماری کا ہے جس کا اہتمام ضمیر کی آواز کو فیصلے کی طاقت دینے کے لئے کیا گیا تھا مگر
درپیش صورت حال میں ضمیر کی اس آواز کو کرنسی نوٹوں کے بوجھ تلے دبنے سے بچانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ خفیہ بیلٹ کا طریقہ ختم ہو نے کی صورت میں ضمیر کے مطابق آزادانہ رائے شماری کی روح متاثر ہوتی ہے جو آئین کے آرٹیکل 226,218 سے انحراف کے زمرے میں آتی ہے، تیسرا پہلو یہ ہے کہ سینیٹ وفاقی اکائیوں کی نمائندگی کرتی ہے اور اس میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کی کسی صوبے کا حق نمائندگی متاثر نہ ہو، اسی لئے جب قانون سازی کی جاتی ہے تو ہر لفظ، نقطے، کاما اور ڈیش کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ آئینی نکات کے ماہر شریف الدین پیرزادہ ہیں‘ جنہوں نے سابق صدر ضیاء الحق اور بعد ازاں سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں آئین میں کامے لگاکر بعض آئینی آرٹیکلز کی ہیئت و ترتیب تبدیل کرکے مفہوم کو ذاتی مفادات میں ڈھال لیا۔ آئین کے آرٹیکل 42,48 میں اسی طور پیوند کاری کی گئی تھی لہٰذا فیصلہ سازی میں عجلت سے گریز کیا جانا چاہیے اور ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں دستور پاکستان کی عمارت زمین بوس ہو جائے۔
1974ء میں جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے وژن کے مطابق پہلی سینیٹ وجود میں آئی تو اس کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ ایوان بالا ملک کی وحدت کی علامت ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ کرپشن اور بد دیانتی معاشرے کے رگ و پے میں زہر کی طرح سرایت کرنے لگی تو ایوان بالا بھی گویا سرمائے والوں کا کرکٹ گرائونڈ بنتا چلا گیا۔ مارچ 1991ء میں سینیٹ کے انتخابات میں کرپشن کا آغاز سندھ کے نگران وزیراعلیٰ جام صادق مرحوم کے دور میں ہوا۔
مارچ 1991ء کے سینیٹ کے انتخابات میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) نعیم الدین احمد کی ہدایات پر راقم الحروف کو اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی مجھے مدعو کر کے سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس ملاقات میں مرحوم اقبال حیدر بھی موجود تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ نگران وزیراعلیٰ جام صادق پیپلز پارٹی کے 32 ارکان صوبائی اسمبلی کو سینیٹ کے انتخاب کے دن اغوا کر کے اپنے حامیوں کو بلا مقابلہ سینیٹر بنوانے کی سازش کر رہے ہیں۔ راقم الحروف نے محترمہ کے خدشات چیف الیکشن کمشنر کو پہنچائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق چیف الیکشن کمشنر کی مشاورت سے لائحہ عمل تیار کیا گیا جس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے خصوصی حکم کے ذریعے پیپلز پارٹی کے 32 ارکان کو راقم الحروف کی تحویل میں دے دیا۔ اس کے لیے چیف الیکشن کمشنر نے خصوصی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کیا جو الیکشن کمیشن کی سینیٹ رپورٹ 1991ء میں موجود ہے۔ راقم الحروف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو پیشگی اطلاع دی تھی کہ پیپلز پارٹی کے با اثر مگسی خاندان کی اہم شخصیات آزاد ارکان اسمبلی کے ذریعے اپنے برادر خورد کو سینیٹر بنوانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور پیپلز پارٹی دو جنرل نشستوں پر ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بہرحال سینیٹ کی جو نشست 1991ء میں لاکھوں روپے میں فروخت ہوتی تھی‘ اب کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں