"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کا سب سے متنازعہ الیکشن

ہارس ٹریڈننگ کی جس برائی کے تدارک کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے مجوزہ 22 ویں آئینی ترمیم کی راہ نکالنے کی کوشش کی گئی، اس برائی کو حکمران جماعت سمیت تمام پارٹیاں خود ہی فروغ دینے میں سر گرم عمل نظر آئیں، جس کی ابتدا ان لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر کی گئی جن کا طرئہ امتیاز ہی میں دولت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کرناہے۔ ایسے امیدواروں کی موجودگی میں سینیٹ انتخابات بے شک خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرائے جائیں یا بیلٹ پیپر پر ووٹر کا نام درج کر دیا جائے، منتخب تو انہی امیدواروں نے ہونا ہے جن سے کروڑوں کے فنڈز لے کر قیادتوں نے انہیں ٹکٹ دیئے ہیں، اس لئے مجوزہ 22 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہارس ٹریڈننگ روکنے کی حکومتی کوشش محض عوام کو فریب دینا ہی تھا۔ یہی وہ مروجہ منافقانہ سیاست ہے جو جمہوری نظام کے نا قص ہونے کا ثبوت بن رہی ہے۔ موجودہ سسٹم میں کم و بیش تمام سیاسی قیادتیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے متحد ہیں جو محض ووٹ حاصل کرنے کی حد تک عوام کے ساتھ مخلص ہیں، مگر اقتدار میں ان کی شرکت داری انہیں ہرگز گوارا نہیں۔ چنانچہ انتخابی عمل کو مشکل اور مہنگا کر کے اور پارٹی ٹکٹوں کے لئے کروڑوں کی خفیہ بولیاں لگا کر اسمبلیوں اور سینیٹ کو غریب اور متوسط طبقات کے لئے شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ موجودہ فرسودہ سسٹم کی تبدیلی کے لئے خفیہ طور پر تمام پارٹیوں کے سربراہان متحد ہیں۔ عمران خان کے دوستوں نے ان کو زرداری کے قریب کرنے کی کوشش کی اور عمران خان ان کے فریب میں آگئے۔ عمران خان حکمران جماعت اور وزیراعظم نواز شریف کی در پردہ حلیف جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمتی سیاست کا ڈول نہ ڈالتے،مجوزہ 22 ویں ترمیم کے لئے دباؤ بڑھاتے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے ارکان پیش کر دیتے تو مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہو نے کا جواز بنا کر حکومت کو اس آئینی ترمیم کے لئے فیصلہ موخر کرنے کا موقع نہ ملتا۔حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنے مفاداتی طبقات میں سے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو منتخب کرانے کا عوام دشمن کھیل کھیلا
گیا، جس میں حکومتی پارٹی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کی سندھ اسمبلی میں نمائندگی تو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھی، جبکہ بلوچستان میں بھی حکمران جماعت ایک یقینی سیٹ سے محروم ہو گئی ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے مل کر 22 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کی آڑ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بلوچستان اسمبلی میں اپنی حمایت سے محروم کر دیا ۔ مفاداتی سیاست میں اپنے اپنے نمبر بڑھانے کے اس مکروہ کھیل نے عوام کو تبدیلی اور ترقی کے دعویدار حکومتی اور اپوزیشن قائدین کے اصل چہرے دکھا دیئے ہیں ۔اب ہر صوبے میں دہلی کی عام آدمی پارٹی کی طرزپر سیاسی جماعت کھڑی کرکے اس مکروہ سیاست سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
5 مارچ کے سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے دیگر صوبوں سے اپنے وفادار دوستوں کو درآمد کر کے سینیٹ کا تصور ہی ختم کر دیا ہے۔ قارئین کی رہنمائی کے لئے امریکی انتخابی نظام کی طرف آتے ہیں۔ امریکی کانگرس226 برس سے ایوان نمائندگان اور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ امریکی سینیٹ میں پچاس ریاستوں میں سے ہر ریاست کے دو سینیٹر چھ برس کے لئے آتے ہیں۔ مرحوم صدر ضیاء الحق نے پاکستان کی سینیٹ کے ارکان کی مدت چار سال سے بڑھا کر چھ سال امریکی انتخابی سسٹم کی پیروی کرتے ہوئے 8 ویں ترمیم کے ذریعے کی تھی۔ امریکی انتخابی نظام میں ابتداء میں سینیٹروں کو ہر ریاست کی مجلس قانون ساز منتخب کرتی تھی، لیکن جب اقربا پروری ، رشوت ستانی اور جوڑ توڑ کی شکایات حد سے بڑھ گئیں تو1913ء میں چودہویں آئینی ترمیم کے بعد ریاستی عوام کے براہ راست ووٹوں سے سینیٹر منتخب کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اگر 435 رکنی ایوان نمائندگان اور سو رکنی سینیٹ کے اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں یکساں با اختیار ہیں بلکہ بعض معاملات میں سینیٹ کی طاقت ایوان نمائندگان سے کہیں زیادہ ہے۔ صدر سمیت وفاقی عہدیداران کے مواخذے کا اختیار سینیٹ کے پاس ہے۔ صدارتی کابینہ،مسلح افواج کے اعلیٰ افسران ،سپریم کورٹ کے ججوں اور بیرون ممالک سفیروں کا تقرر سینیٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے ہونے والے معاہدوں کی توثیق سینیٹ کی دو تہائی اکثریت سے کرانا ضروری ہے۔ اگرچہ وفاقی بجٹ اور مالیاتی بل ایوان نمائندگان میں پیش ہوتا ہے، تاہم سینیٹ اس بجٹ میں ترامیم اور کٹوتیاں تجویز کر سکتی ہے۔ نائب صدر سینیٹ کا سربراہ ہوتا ہے تا کہ صدارتی عہدہ خالی ہونے کی صورت میں وہ قائم مقام صدر بن سکے۔ بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا کے ڈھائی سو ارکان ہیں۔ ان میں بارہ ایسے ہیں جنہیں صدرمملکت سائنس ، ادب، آرٹ اور سماجی خدمات کے شعبے سے نامزد کرتا ہے۔ بھارت کا نائب صدر بلحاظ عہدہ راجیہ سبھا کا چیئر پرسن ہوتا ہے۔ اب تک راجیہ سبھا کا چھ چیئرپرسنز صدر کے عہدے تک پہنچے ہیں۔فنانس، دفاع، داخلہ اور خارجہ محکموں سمیت ہر وزارت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں، ان کا بل لوک سبھا میں پیش ہوتا ہے اور وہیں منظور ہوتا ہے۔ 
پاکستان کی سینیٹ میں مالیاتی بل کے سوا کوئی بھی قانونی بل پیش کیا جا سکتا ہے اور قانون بننے کے لئے اس بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی مسودہ قانون سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مابین وجہ اختلاف بن جائے تو پھر مشترکہ اجلاس میں یہ بل کثرت رائے سے منظور کرکے صدارتی منظوری کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سینیٹ کے ادارے کی بے اختیاری شروع ہوتی ہے۔
پاکستان کی آبادی اور رقبے کو مدنظر رکھا جائے تو یہاں پر ذاتی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی کے نام پر نشستوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ سابق صدر ضیاء الحق اور سا بق صدر پرویز مشرف نے بلاوجہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں بڑھا دی تھیں۔سینیٹ کی نشستوں کو وزیر اعظم بھٹو نے1977 ء کی متنازعہ قومی اسمبلی کے ذریعے 43 سے بڑھا کر 63 کر دیا گیا جبکہ مرحوم ضیاء الحق نے 87 اور سابق صدر پرویز مشرف نے 100اور پھر 18ویں ترمیم کے ذریعے 104 کر دیا۔ پس منظر میں مملکت پاکستان کا مفاد نہیں تھا بلکہ یہ اپنے وفاداروں کو نوازنے کا طریقہ تھا۔ لہٰذا انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کو سینیٹ کی نشستیں پاکستان کی جغرافیائی حدود اور آبادی کی بنیاد پر از سر نو طے کرنا چاہئیں اور امریکہ اور بھارت کے ایوان بالا کی نشستوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں بھی براہ راست سینیٹ کے انتخابات ہونے چاہئیں۔ سینیٹ کی نشستیں 50 سے زائد نہیں ہونی چاہئیں۔
آئینی طور پر سینیٹ کے انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے بعض ریٹرننگ افسران کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ انہوں نے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران آئین و قانون کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا، تاہم قائم مقام سیکرٹری الیکشن کمیشن شیر افگن نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے دیے اور ان کا طرز عمل مثالی رہا۔یہ پاکستان کی تاریخ میں سینیٹ کا سب سے متنازعہ الیکشن ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ میں بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین ملوث رہے اور انہوں نے عوامی خواہشات کے بر عکس سرمایہ دارانہ پس منظر رکھنے والوں کو ٹکٹ دیے، جبکہ بھارت بھی دوبئی میں ایک پاکستانی ایجنٹ کے ذریعے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتا نظر آ یا۔ اس'' پراسراریت‘‘ کے بارے میں پاکستان کی ایجنسیوں کو تحقیقات کرنی چاہیے اور ان کے خلاف مقدمات بھی فوجی عدالت میں بھجوائے جا سکتے ہیں۔
فاٹا سے ارکان قومی اسمبلی کے حوالے سے صدارتی آرڈر کے اجراء کو قانونی بے ضابطگی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے نازک وقت میں وزیراعظم کو صدر پاکستان کو ایڈوائس نہیں دینی چاہیے تھی۔ الیکشن کمیشن نے فاٹا کے متعلق ایگزیکٹو آرڈر 2002ء کے تحت بیلٹ پیپرز شائع کرائے تھے ،مگر جب فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو انہیں رولز میں تبدیلی سے آگاہ کیا گیا۔ صدارتی آرڈر لانے کے لئے دونوں ایوانوں کا اجلاس ملتوی کیا گیا ۔
رات کی تاریکی میں جاری ہونے والے صدارتی آرڈر نے انتخابی عمل میں روشنی پھیلانے کے بجائے حکومت کو بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ صدارتی حکم نامہ کے تحت اب ایک ممبر قومی اسمبلی ایک ووٹ ڈال سکے گا۔ صدارتی حکم نامہ کے مطابق چیف ایگزیکٹو آرڈر 2002ء کو واپس لے لیا گیا ہے۔حکومت نے سیاسی مفادات کے تحت 2002ء کا صدارتی آرڈر واپس لے کر بدنیتی کی مثال قائم کی ہے۔ اگریہی صدارتی حکم نامہ سینیٹ الیکشن شیڈول کے اعلامیہ سے قبل نافذ ہو جاتا تو اس کے مفید نتائج سامنے آتے۔اب وفاقی حکومت کو عدلیہ کے رو برو صدارتی آرڈر کا جواز اور اپنی نیک نیتی ثابت کرنا ہو گی۔ فاٹا کی نشستوں پر انتخابات کا التواء چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ میری دانست میں قانونی ماہرین کی یہ رائے درست نہیں کہ ایوان بالا مکمل نہیں کیونکہ اس وقت سینیٹ میں چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے علاوہ فاٹا کے چار نمائندے موجود ہیں۔ سینیٹ کے موجودہ 100ارکان 12مارچ کو حلف اٹھانے کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اصولی طور پر صدر کو بھی ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ اگر اعلیٰ عدلیہ نے وزیر اعظم کی ایڈوائس کو بدنیتی پر مبنی قرار دے دیا تو پھر وفاقی حکومت خطرے میں گھر جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں