"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات

سینیٹ کے انتخابات حکمران مسلم لیگ ن کے لئے ملکی مفاد کے پیش نظر ہر گز سود مند ثابت نہیں ہوئے۔ اُسے اپنے اقدامات اور پالیسیوں کے باعث انتخابی مراحل میں ہی اتحادیوں کی حمایت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ اور اس کے پس منظر میں چیئرمین سینیٹ کے لئے اس کی کامیابی کا امکان معدوم ہوگیا۔ فاٹا ارکان کے حوالے سے جاری صدارتی آرڈر کے باعث حکومت مشکل صورت حال سے دو چار ہو سکتی ہے بلکہ وزیراعظم نواز شریف کو حکومت سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مجوزہ 22ویں آئینی ترمیم بھی حکمران مسلم لیگ (ن) کے لئے پریشانی کا موجب ہو سکتی ہے‘ جسے لانے کی سوچ تو بادی النظر میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کی تھی مگر اس مجوزہ ترمیم پر حکومت کو اپنی سیاسی سہولت کار پیپلز پارٹی کے علاوہ اتحادی فضل الرحمن گروپ اور اسفند یار ولی کی جماعت کی بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘ جن کے خیال میں یہ ترمیم اپنے ہی ارکان کو مشکوک بنانے اور ان پر عدم اعتماد کرنے کے مترادف تھی۔ اگرچہ اس مزاحمت کے باعث حکومت نے22 ویں آئینی ترمیم لانے کے ارادے سے گریز کیا مگر اسی کے بارے میں یہ رائے اور بھی پختہ ہو گئی ہے کہ حکمران جماعت کو ایوان بالا میں عام آدمی کی نمائندگی سے کوئی سروکار نہیں تھی؛ البتہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے کروڑوں کے پارٹی فنڈز کے عوض اشرافیہ طبقات سے لائے گئے اپنے امیدواروں کو ہارس ٹریڈنگ سے بچانا مقصود تھا۔ ابھی ن لیگ پر مجوزہ22 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پڑنے والا سیاسی دباؤ کم نہیں ہوا تھا کہ اُس نے سینیٹ انتخابات کی پولنگ سے چند گھنٹے پہلے ہنگامی طور پر صدارتی آرڈر جاری کر کے پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی قیادتوں کو اپنی پالیسیوں پر شدید تنقید کا مزید موقع فراہم کر دیا۔
الیکشن کمیشن کو فاٹا کے بارے میں صدارتی حکم نامہ جاری ہونے پر وزارت قانون کے اہل کاروں سے رائے طلب کرنے کی بجائے وفاق کے خلاف صدر مملکت کو ریفرنس بھجوا کر وضاحت طلب کرنا چاہیے تھی۔ جب سینیٹ الیکشن کا شیڈول آئین کے آرٹیکل59 کے تحت جاری ہو جائے تواس کے بعد وزیر اعظم اور صدر مملکت کی جانب سے جاری ہونے والے کسی بھی حکم نامے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہوتی۔ تعجب ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی آئینی و قانونی ٹیم نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کئے بغیر صدارتی حکم کیسے جاری کر دیا۔ ماضی کی غیر جمہوری حکومتوں کو بھی ایسی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابی عمل کو رول بیک کے لئے ایسا کوئی حکم جاری کرکے الیکشن کمیشن کو تباہی کے دوراہے پر کھڑا کر دیتیں۔ حکومت نے صدارتی حکم نامہ جاری کروا کر ا لیکشن کمیشن کو نازک دوراہے پر لاکھڑا کر دیا؛ جبکہ ماضی کے حکمران ایسے کسی بھی عمل سے پہلے الیکشن کمیشن سے رائے لیتے رہے۔ 
ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پارلیمان کے ایون بالا کا انتخابی عمل خود حکومت نے مشکوک بنا دیا۔ دستور پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے ایک ماہ بعد حکومت نیند سے بیدار ہو کر رات کے اندھیرے میں اچانک صدارتی حکم نامہ جاری کرا دے۔ صدر مملکت کو بھی نیند کی حالت میں صدارتی آرڈر کی سمری پر دستخط نہیں کرنا چاہیے تھے۔ حکومت کی بد نیتی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت نے سرکاری حکم نامہ رولز آف بزنس کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے براہ راست ریٹرننگ آفیسر عثمان علی خان کو بھجوایا؛ تاہم عثمان علی خان نے جرأت سے کام لیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آگاہ کردیا۔
چاروں صوبوں میں سینیٹ کے الیکشن کے دوران خبریں گردش کرنے لگیں کہ بعض ووٹر خالی کاغذ بیلٹ بکس میں ڈال کر اصل بیلٹ پیپر اپنے پارٹی کے سربراہان کو پیش کر کے اپنی وفاداری کی یقین دہانی کرارہے ہیں اور بعض جگہوں پر اس بیلٹ پیپر پر جماعت کے مانیٹرنگ سیل سے نشان لگوائے جا رہے ہیں 
تاکہ ووٹر سینیٹ کے قواعدوضوابط کے مطابق بیلٹ پیپر پر نشان لگاتے وقت غلطی کا ارتکاب نہ کریں جس سے بیلٹ پیپر مشکوک قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے؛ لہٰذاپارٹی کے خفیہ سیل کے ذریعے خود ہی بیلٹ پیپر پر نشان لگوا کر انہیں باکس میں ڈلوایا گیا۔ یہ روایت مارچ 1990 ء میں سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر دیکھنے میں آئی اور بعد ازاں مارچ 1994ء میں پنجاب میں وزیر اعلیٰ منظور وٹو کے دور حکومت میں بھی۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی اسی قسم کی سنگین شکایات الیکشن کمیشن کو موصول ہوتی رہیں۔ مارچ 1997ء میں چونکہ پاکستان مسلم لیگ نے الیکشن میں سویپ کیا تھا لہٰذا الیکشن ٹربیونلز کو ایسی شکایات موصول نہیں ہوئیں‘ مارچ 2003 ء،مارچ 2006ء اور مارچ 2009ء میں بھی الیکشن ٹریبونل کو اس نوعیت کی شکایات نہیں بھیجی گئیں۔ بہرحال مارچ 2012ء میں صوبہ بلوچستان میں سینیٹ کے حوالہ سے لین دین کے بارے میں سرگوشیاں ضرور سننے میں آئیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں اسی طرح کی عام شکایات کی شنید رہی۔
بد قسمتی سے 5مارچ 2015ء کو سینیٹ کے الیکشن کو غیر ضروری طور پر پاکستان کا متنازع ترین الیکشن قرار دے کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جمہوریت کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا۔ یورپی ممالک جو پاکستان میں جمہوریت کے نشو و نما کے لئے انتخابی اصلاحات کے ذریعے انتخابی نظام کو شفاف بنانے کے لئے کوشاں ہیں‘ انہیں بھی حالیہ سینیٹ کے الیکشن کے بارے میں میڈیا کے حوالے سے جو سمجھ آیا اس پر انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ لہذا الیکشن کمیشن‘ سینیٹ الیکشن ایکٹ 75 کی شقوں 59تا61کی روشنی میں اس سارے معاملات کی انکوائری کرانے کے لئے قائم مقام سیکرٹری الیکشن کمیشن اور چاروں صوبوں کے صوبائی الیکشن کمشنروں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بنا کر ایسے ووٹروں کی نشاندہی کرا سکتا ہے‘ جنہوں نے بیلٹ پیپر پر خود اپنی قلم سے نشان لگانے کے بجائے پارٹی کے ماہرین سے نشانات لگوا کر بیلٹ پیپرز بیلٹ بکسوں میں ڈالے۔ ان کی نشاندہی انگلیوں کے نشانات کے ماہرین اور نادرا کی خصوصی ٹیکنالوجی کے ذریعے آسان ہو سکتی ہے۔ اسی طرح نادرا سندھ، بلوچستان، پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا کے بارے میں بھی اصل حقائق بے نقاب کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اگر نتائج سے ثابت ہو جائے کہ بیلٹ پیپرز کی بے حرمتی کی گئی ہے اور اسی بیلٹ پیپر کے تقدس کو کئی ہاتھوں سے گزرنا پڑا ہے تو پھر ایسے ووٹروں کی رکنیت بھی ہاتھ سے گئی اور سینیٹ ایکٹ 75ء کی مذکورہ شقوں کے تحت ان کو پانچ سال کی سزا اور سات سال کے لئے نااہل ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور آئندہ سینیٹ الیکشن میں حقیقی اور جمہوری نمائندے ہی منتخب ہوں گے۔ اسی طرح بیلٹ بکس سے بعض صوبوں سے سادہ صفحات برآمد ہونے کے معاملہ کی بھی نادرا کے ذریعے تحقیقات کرائی جا سکتی ہے۔ نادرا ان کی انگلیوں کے نشانات اپنی بائیو میٹرک ٹیکنالوجی کے ذریعے شناخت کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں