"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات! الیکشن کمیشن دوراہے پر

لوکل گورنمنٹ کے انتخابات بھی اسی طرح آئین کا مطالبہ اور عوام کے جمہوری حقوق و مفادات کا تقاضا ہیں جس طرح قومی و صوبائی انتخابات؛ تاہم عجب ستم ظریفی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت قومی اور صوبائی سطح پر منتخب حکومتوں کے قیام کے لئے تو ہمیشہ نہایت پر جوش نظر آتی ہے اور غیر جمہوری ادوار میں بحالی جمہوریت کی پر زور مہمات چلائی جاتی ہیں لیکن جب اقتدار اس کے ہاتھوں میں آتا ہے تو مقامی حکومتوں کے انتخابات کی راہ میں خود سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات پانچ سال پہلے یعنی اگست 2009ء میں ہونے تھے، اس عرصے میں گزشتہ حکومت کے بعد نئی وفاقی اور صوبائی منتخب حکومتیں بھی تقریباً پونے دو سال مکمل کر چکی ہیں لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات کے معاملے میں اعلیٰ عدلیہ کی بار بار وارننگ کے باوجود بلوچستان کے سوا تینوں صوبوں اور وفاق نے عملاً ایسا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے کہ یہ انتخابات دو سال تک مؤخر کئے جا سکتے ہیں۔ صرف خیبر پختون خواکی حکومت نے اب آمادگی ظاہر کردی ہے اور وہاں انتخابات کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں‘ لیکن پنجاب اور سندھ میں صورت حال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ تی جب کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں مسلسل تاخیر کر کے وفاق نے بھی قابل گرفت رویہ اپنایا ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے آئین کے ایک کھلے تقاضے کو مسلسل ٹالنے کی اس روش نے عدلیہ کو سخت رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کا اندازہ عدالت عظمیٰ میں گزشتہ روز‘ عدالت کے صریح احکام کے باوجود کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نہ کرائے جانے پر‘ وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران‘ جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے دئیے جانے والے ان ریمارکس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ''بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے تو آئین کو کوڑے دان میں پھینک دیا جائے‘‘۔ فاضل جج نے کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات کے انعقاد میں بلاجواز تاخیر پر سخت گرفت کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ عدالت اگرچہ اب تک وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی میں احتیاط کر رہی ہے لیکن ضروری ہوا تو اس سے گریز نہیں کیا جا ئے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت دراصل عوام کو با اختیار بنانا ہی نہیں چاہتی‘ کیا پنجاب اور سندھ کے وزراء اعلیٰ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے جائیں؟ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اگر صوبوں میں مقامی انتخابات کے لئے قانون سازی نہیں ہوتی یا قانون میں کوئی نقص یا ابہام ہے تب بھی الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کروانے کا پا بند ہے اور پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی ادارہ یا فرد الیکشن کمیشن کو اس آئینی فرض کی ادائیگی سے نہیں روک سکتا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو پنجاب اور سندھ حکومت کے کسی بھی عذر کو خاطر میں نہ لانے کی ہدایت کرتے ہوئے دونوں صوبوں میں انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا اور متنبہ کیا کہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین پر عمل نہ کرنے کے نتائج کتنے سنگین ہو سکتے ہیں۔
اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ منتخب مقامی حکومتوں کا تسلسل کے ساتھ قائم رہنا بنیادی شہری سہولتوں کی عام آدمی کو فراہمی‘ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، عوام کی صفوں میں سے قومی قیادت کی تیاری، لوگوں کی جمہوری تربیت اور انہیں اپنے مسائل آپ حل کرنے کے قابل بنانے کے لئے ضروری ہے ۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ خود سیاسی جماعتیںان کے نتیجہ میں طاقتور ہوتی ہیں۔ ان کے اندر حقیقی عوامی قیادت پروان چڑھتی ہے‘ اس لئے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے عمل سے گزر کر عوام کو ان کے آئینی حق سے محرو م نہیں رکھنا چاہیے۔ پاکستان کے ارد گرد ممالک میں جو تبدیلی آرہی ہے وہ بڑی تاریخی ہے اور اس میں پاکستان کا جمہوری کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ چونکہ مئی 2013 ء کے انتخابات کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کے سلسلے میں حکمران اور اس کی حلیف جماعتیں ناکام رہیں اور چونکہ حکمران جماعت کے با اثر مالیاتی سربراہ ایک خوف میں مبتلا ہیں اور اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں لہٰذا انہوں نے بلدیاتی اداروں میں انتخابات کرانے میں قانونی اور دیگر رکاوٹوں کا جال بچھا رکھا ہے‘ جبکہ سپریم کورٹ عوام کو نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی اور صحت، تعلیم اور امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے مثبت قدم اٹھا رہی ہے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف ملنا شروع ہوجائے اور حکمرانوں کی ذاتی منشاء کے لئے میٹرو بس اور دیگر نام نہاد ترقیاتی کاموں پر جو کھربوں روپے کا ضیاع ہو رہا ہے اس سے نجات مل جائے اور آئین کے آرٹیکل 140-Aکی رو کے مطابق مالیاتی رقوم کی تقسیم یونین کونسلز کی سطح تک پہنچ جائے۔
سندھ اور پنجاب میں دس سال سے وہی حکومتیں اقتدار میں ہیں ، لیکن بلدیاتی انتخابات سے متعلق تا حال قانون سازی اور حلقہ بندیاں تک نہیں کی گئیں۔ ہمارا مسئلہ بے حسی ہے۔ جس شخص اور ادارے کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں وہ انہیں ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلے میں حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا تھا لیکن حلقہ بندیوں سے پہلے صوبوں نے اپنا اختیار الیکشن کمیشن کو منتقل کر نے کا قانون جاری کرنا تھا اور اس کی روشنی میں وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل224 میں ترمیم کرکے لوکل گورنمنٹ کے لئے حلقہ بندیوں کے لئے آئینی اختیار الیکشن کمیشن کو دینا ہو گا۔ سپریم کورٹ توہین عدالت کے ضمن میں وزیر اعظم پاکستان کی طرف جو اشارہ کر رہی ہے‘ اس کا اطلاق سابق وزراء اعظم پر بھی ہونا چاہیے جنہوں نے اگست 2009ء کو لوکل گورنمنٹ الیکشن کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کی معاونت نہیں کی اور مردم شماری کو بھی معطل کئے رکھا۔ جبکہ پنجاب، سندھ اور صوبہ خیبر پختون خوا کے وزراء اعلیٰ نے بھی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کو مؤخر کیے رکھا۔
یہ حقیقت پوری طرح واضح ہے کہ جب سیاسی حکومتیں فیصلہ نہیں کرتیں تو پھر عدالتیں‘ عوام اور حالات خود فیصلہ کرتے ہیں۔ معاملات معلق نہیں رہ سکتے۔ ضروری فیصلوں میں بلا جواز ٹال مٹول کرنے کی روایت اس وقت کے چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ نے اگست 2009ء میں ڈالی جب انہوں نے لوکل گورنمنٹ الیکشن کرانے کا عندیہ نہیں دیا اور الیکشن کمیشن کی با ر بار یاد دہانیوں کو انہوں نے نظر انداز کر دیا۔ اسی لئے اب یہ حکمران عوام کی نگاہ میں بے توقیر ہو رہے ہیں۔ سیاسی حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی ممکنہ وجوہ میں اپنی شکست کا خوف اور صوبائی ارکان اسمبلی کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لئے ملنے والے فنڈز اور اختیارات میں کمی شامل ہیں۔ ان میں سے کسی وجہ کو بھی معقول نہیں کہا جا سکتا اور ان کی بنیاد پر منتخب حکومتوں کی تشکیل میں رکاوٹ بننا جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں کو کسی صورت زیب نہیں دیتا۔ لہٰذا عدالت عظمیٰ کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کے مقرر کردیے جانے کے بعد متعلقہ صوبائی حکومتوں، وفاق اور الیکشن کمیشن کو ان انتخابات کے مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد کو ہر قیمت پر یقینی بنانا چاہیے۔ امریکی دانشوروں کا یہ قول ایک حقیقت ہے کہ ''ساری سیاست مقامی ہی ہوتی ہیــــ‘‘۔ بلا شبہ عوام کے کم از کم 70 فیصد مسائل مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا مستحکم نظام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک کی تعمیر و ترقی کے زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے اسی لئے ضروری ہے کہ اس آئینی اور جمہوری تقاضوں کی تکمیل کا ایسا مستقل بندوبست کیا جائے کہ ہر چار سال بعد مقررہ تاریخ پر ان انتخابات کا انعقاد یقینی ہو جائے۔ سپریم کورٹ کو ملک میں مردم شماری کے انعقاد میں تاخیر کے حوالے سے وفاقی حکومت کو آئین سے انحراف کرنے پر نوٹس جاری کرنا چاہیے کیونکہ یہ بڑی معیوب بات ہے کہ ملک میں 1998ء کے بعد سے کوئی مردم شماری نہیں ہوئی اور آج ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ملک کی قطعی آبادی کتنی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں